میاں نواز شریف کا بیانیہ پاکستان میں کتنا مقبول ہوا؟ وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ مسلم لیگ(ن) میں مچی بھگدڑ اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے علاوہ‘ میاں شہباز شریف و نثار علی خاں کے متضاد بیانات تو اس بیانئے کو لغو ثابت کرتے ہیں مگر یہ بات ماننی پڑے گی کہ امریکہ اور بھارت نے بیانیے کا خیر مقدم کیا۔ میری اطلاع کے مطابق دو روز قبل بھارتی سیکرٹری خارجہ وجے کیشو گھوکلے نے ایڈیٹرز سے آف دی ریکارڈ گفتگو میں کہا کہ بھارت نے انگریزی اخبار ڈان کو دیے گئے نواز شریف کے انٹرویو کا خیر مقدم کیا اور ایک خیر مقدمی بیان بھی تیار ہوا مگر پھر میں نے سوچ کر بیان روک لیا کہ نواز شریف کے سیاسی مخالفین چند ہفتے بعد منعقد ہونے والے عام انتخابات میں فائدہ اٹھائیں گے۔ گھوکلے نے یہ بھی کہا کہ ’’ نواز شریف نے ممبئی حملوں پر بھارت کے سرکاری موقف کی تائید کی جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ تعلقات میں سرد مہری کے باوجود نواز شریف بھارت کے لیے بہترین آپشن ہیں۔ عمران خان نہ جانے اقتدار میں آکر کیا رویہ اختیار کرے۔ ‘‘امریکی محکمہ دفاع کی ترجمان ڈیانا وائٹ نے نواز شریف کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ’’ پاکستان کو اب واضح فیصلہ کرنا ہے کیونکہ ہماری نظر میں وہ دہشت گردی سے متاثر مگر اس کا سپانسر بھی ہے۔‘‘ نواز شریف کے ناقدین اور ریاستی ادارے تو روز اول سے یہ خدشہ ظاہر کر رہے تھے کہ امریکہ اور بھارت اُن کے انٹرویو کو پاکستان کے خلاف مستند گواہی کے طور پر لیں گے مگر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی‘ طلال چودھری اور طبلچی بریگیڈ کے دوسرے ارکان اس بیان کا دفاع کرتے ہوئے میاں صاحب کو حب الوطنی کا قطب مینار اور ان کے انٹرویو کو دانش و بصیرت کا شاہکار قرار دیتے رہے ۔ابتدا میں میاں شہباز شریف نے بھی انٹرویو کی تائید کی مگر جب ارکان اسمبلی نے انہیں باور کرایا کہ حضور! سیرل المیڈا سے انٹرویو نے ہمارا اپنے حلقوں میں جانا اور ووٹروں کا سامنا کرنا مشکل بنا دیا ہے مگر آپ اس حماقت پر میاں صاحب کی حب الوطنی کا پردہ ڈال رہے ہیں تو موصوف نے انٹرویو کرانے والے کو شریف خاندان کا بدترین دشمن قرار دے ڈالا۔ اس سوال کا جواب انہوں نے بھی نہیں دیا کہ اگر انٹرویو کرانے والا بدترین دشمن ہے تو انٹرویو دینے اور اس پر ڈٹ جانے والا کون ہے؟ اور جس شخص نے بدترین دشمنی کا ارتکاب کیا اس کے خلاف انہوں نے بطور صدر مسلم لیگ کیا کارروائی کی؟ ظاہر ہے کوئی پوچھ بھی لے تو سوال گندم جواب چنا آئے گا۔ باپ بیٹی اس انٹرویو پر پھولے نہیں سما رہے اور اس امر پر شاداں ہیں کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی چیخیں نکلوا دی ہیں‘ امریکہ و بھارت کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے کسی اور کی طرف سے وضاحت کی کیا اہمیت؟ سیاسی جماعتیں جب کسی ایک شخص یا خاندان کی پجاری اور کارکن و لیڈر غلام بے دام بن جائیں تو پھر احتساب و مواخذے کے خوف سے آزاد لیڈر یہی گل کھلاتے ہیں۔ ہر لیڈر کو یہ غرور تو ہوتا ہے کہ وہ کروڑوں انسانوں کی محبت و عقیدت کا مرکز اور قوم کا مسیحا ہے مگر کوئی روکنے‘ ٹوکنے والا نہ ہو تو پھر وہ اپنے آپ کو ہر غلطی سے مبرا اور جوابدہی کے تصور سے بالاتر سمجھنے لگتا ہے۔ میاں صاحب نے انٹرویو سوچ سمجھ کر دیا ‘اپنے سیاسی مستقبل سے وہ مایوس اور جیل جانے کے علاوہ اربوں روپے کی جائیدادیں ضبط ہونے کے خوف میں مبتلا ہیں۔ ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح اب وہ بساط اُلٹناچاہتے ہیں کہ اگر میں نہیں تو کوئی دوسرا کیوں؟ ڈان لیکس ٹو کے بعد اب وہ تھری اور فورکی تیاری کر رہے ہیں۔ انکشافات کارگل کے حوالے سے ہو سکتے ہیں اور تحریک آزادی کشمیر کے ضمن میں بھی۔ تین بار وزیر اعظم رہے ‘وہ سربستہ راز اگل سکتے ہیں اور عادت کے مطابق غلط بیانی و مبالغہ آرائی کا عنصر شامل کر کے تہلکہ مچے گا ‘فائدہ مگر اب نواز شریف نہیں امریکہ اور بھارت کو ہو گا اور نقصان پاکستان کو پہنچنے کا اندیشہ ہے جو امریکہ اور بھارت کا ہدف ہے‘ اب سے نہیں جب سے ایٹمی طاقت بنا اور مزید شکست و ریخت کے خطرے سے نکلا۔ جو لوگ میاں صاحب کو دیوار سے لگائے جانے کا ردعمل قرار دے کر انٹرویو کے حق میں دلائل کے انبار لگا رہے ہیں اور میاں صاحب کی ہرچہ بادا باد کی پالیسی کو جرأت و استقامت کا آئینہ دار سمجھنے لگے ہیں انہیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اگر میاں صاحب اتنے ہی بہادر اور مرد میدان ہوتے اور شاہد خاقان بھی ان کے تابع فرمان اور جمہوریت کے علمبردار ہیں تو پھر میاں صاحب نے بطور قائد اپنے وزیر اعظم کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے سے منع کیوں نہیں کیا جس کا حکم میجر جنرل آصف غفور کی ٹویٹ کے مطابق فوجی قیادت نے دیا‘ اگر شاہد خاقان عباسی انٹرویو کے مندرجات کو ڈس انفرمیشن اور میاں صاحب کو حق بجانب سمجھتے تھے تو موصوف نے اجلاس نہ بلانے کی جرأت کیوں نہ دکھائی ؟اور اجلاس کے دوران بھی وزیر اعظم اور وزیر دفاع گونگے شیطان کیوں بنے رہے۔ سیدھی بات ہے کہ یہ حوصلہ اور جرأت میاں صاحب میں ہے نہ ان کے حواریوں میں سے کسی میں‘ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ‘ دکھانے کے اور۔ جس نواز شریف نے سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ مسترد کیا وہ اپنے وزیر اعظم کو ایسا کوئی اعلامیہ جاری نہ کرنے کا حکم کیوں نہ دے سکا؟ حقیقت یہ ہے کہ میاں صاحب نے انٹرویو فوج اور عدلیہ کو بلیک میل اور بھارت و امریکہ کو خوش کرنے کے لیے دیا تاکہ وہ مدد کو آ سکیں۔ ایک مقصد عوام کو گمراہ کرنا بھی تھا کہ وہ جیل جائیں تو لوگ اسے ایک کرپٹ اور قانون شکن شخص کی جیل یاترا نہیں‘ ایک مزاحمتی سیاستدان کو ملنے والی سزا سمجھیں۔ جمہوریت سے شریف خاندان کا تعلق بس اتنا ہے کہ قیمے والے نان اور بریانی کی پلیٹ کے عوض عوام انہیں ایوان اقتدار تک پہنچائیں اور پانچ سال ذلت و رسوائی‘ بھوک‘ ننگ‘ افلاس‘ بے روزگاری اور محرومیوں کا سامنا کریں ورنہ دنیا کے کس ملک میں سیاسی جماعت انتخابی امیدواروں سے یہ حلف لیتی ہے کہ وہ مسلم لیگ کے بجائے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے وفادار رہیں گے۔ کیا فرد واحد کی وفاداری اور جمہوریت دو متضاد چیزیں نہیں‘ امریکہ کی ری پبلکن اور ڈیمو کریٹک پارٹی‘ برطانیہ کی لیبر اور کنزرویٹو اور بھارت کی کانگریس نے کبھی اپنے کارکنوں اور ارکان اسمبلی کو سربراہ سے وفاداری کا پابند کیا اور انہیں بیان حلفی پر دستخط کرنے کے لیے کہا؟ کیا شخصی حکمرانی پر جمہوریت کا لیبل لگا کر ان قومی اداروں سے لڑائی مول لی جا سکتی ہے جہاں ہر تین سال بعد پرامن چینج آف کمانڈ کا اصول رائج ہے اور جس کے اعلیٰ و ادنیٰ عہدیدار افسر و جوان وفاداری کا مرکز اپنے ادارے‘ ملک اور قوم کو سمجھتے اور اس کی خاطر جان ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں ۔کیا مورخ یہ نہیں لکھے گا کہ جب فوج کا ایک کرنل سہیل عابد دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے جان کا نذرانہ پیش کر رہا تھا اس وقت ملک کا تین بار وزیر اعظم رہنے والا شخص امریکہ اور بھارت کے روبرو اس ادارے کو دہشت گردوں کا سرپرست اور عسکری تنظیموں کا محافظ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا تھا۔ امریکہ اور بھارت کے ترجمانوں کا ردعمل سامنے آنے کے بعد بھی اگر کسی کی رگ حب الوطنی نہیں پھڑکتی اور کوئی نہیں جان پاتا کہ نواز شریف کے انٹرویو سے فائدہ کسے ہوا اور نقصان کس کو ہو گا‘ تو حیف‘نواز شریف کو شاید کوئی رعائت نہ ملے اوریہ سعی‘ رائیگاں جائے مگر امریکہ اور بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کا یہ موقع کیوں ضائع کریں گے۔ ویسے آپس کی بات ہے لشکر طیبہ اور حافظ سعید سے گہرے روابط کسی اور کے بھی رہے مگر ایک ادنیٰ شہری کے طور پر میری زبان پر ان محترم اور مرحوم ہستیوں کا نام کبھی نہیں آئے گا‘ راز کو ہمیشہ راز ہی رہنا چاہیے‘ میاں صاحب خوب جانتے ہیں۔