ایک ٹی وی چینل پر میں سیڑھیاں اتر رہا تھا کہ سامنے سے سہیل احمد آ گئے جنہیں میں فن کی دنیا میں اوریجنل لیجنڈ سمجھتا ہوں۔ انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ میرے رخساروں پر رکھ دیئے اور اپنے مخصوص انداز میں کہنے لگے ’’ہائے ہائے شاہ صاحب! آپ نے ماں کے حوالے سے کیا کالم لکھا۔ مجھے ان کی محبت کا یہ انداز اتنا اچھا لگا کہ دل پرنقش ہو گیا۔ انہیں نہیں معلوم کہ ان کا چھوٹا بھائی جنید اکرم میرا دوست ہے۔ وہ شرافت و نجابت کا ایک نمونہ ہے۔ اصل میں یہ سارا فیض ان کے نانا جانا بابائے پنجابی، فقیر محمد فقیر کا ہے۔ ننھیال ویسے ہی پیارے ہوتے ہیں۔ میں بھی ہمیشہ اپنے ماموں اور نانی جان کی محبت کے اثر میں رہا۔ پھر فقیر محمد فقیر ایک ایسے عالم فاضل شاعر اور دانشور تھے کہ لامحالہ ان کے اثر سے نہ سہیل احمد نکلے اور نہ جنید اکرم۔ دو روز قبل جنید اکرم کا فون آیا کہ وہ پانچ منٹ کے لیے آنا چاہتا ہے۔ میں نے کہا جی بسم اللہ جم جم آئو۔ پنج منٹ کی پنج گھنٹیاں واسطے آئو۔ جنید اکرم پنجابی کا استاد ہے۔ یونیورسٹی کی فقیر حسین فقیر چیئر پر وہ تقریباً پانچ سال رہا۔ وہ عام شخص نہیں کیونکہ وہ جناتی صفات رکھتا ہے۔ اس نے اپنے نانا جان پر اتنا کام کر دیا ہے کہ بندہ دنگ رہ جاتا ہے۔ وہ جب میرے گھر آیا تو کئی کتب ساتھ میں اسکے متبنیٰ بیٹے نے اٹھا رکھی تھیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ وہ ڈیلاسز پر ہے مگر باطن پاکیزہ اور صاف ہے اور ایک مقصد نے اسے اتنا حوصلہ دے رکھا ہے کہ وہ دن رات فقیر محمد فقیر کے غیر مطبوعہ تحریروں کو قرینے اور سلیقے سے چھاپ رہا ہے۔ میں اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود سابق وائس چانسلر مجاہد کامران کی تعریف کروں گاکہ انہوں نے اس میدان میں پنجاب یونیورسٹی کو ایک مثال بنا دیا ہے کہ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے اسلامی ادبی تاریخ بھی چھ جلدوں میںشائع کردی۔ جنید اکرم کا کام اس حوالے سے زیادہ محنت طلب اور مشکل تھا کہ ہاتھ سے لکھے مخطوطوں کو قطع و برید کا خیال رکھتے ہوئے، خاص طور پر شاعری کے حوالے سے۔ اس کا اپنا شاعر ہونا بھی کام آیا، تدوین کوئی آسان کام نہ تھا۔ فقیر محمد فقیر طبعاً اور مزاجاً بھی فقیر تھے اور فقر کے مرتبے پر فائز تھے۔ وہ صرف شاعر اور صوفی ہی نہیں بلکہ اپنے عہد کا مکمل سیاسی شعور رکھتے تھے جس کا پتہ ان کے لکھے ہوئے اداریوں سے ہوتا ہے۔ اس دور میں مکتوب نگاری کے حوالے سے وہ یکتا نام نظر آتا ہے۔ مشاہیر کے لیے ان کے خطوط شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی غزلیں بھی میں دیکھ چکا ہوں مگر اب کے ان کا ایک نادر کارنامہ معرکۃ الآرا مثنوی ہے جس کا نام سنگی ہے: سنگی دا سنگ کَر سی جیہڑا کر سی سنگ سجن دا ہر اوکڑ وچ پالیسی اوہ سوکھا مطلب من دا یہی محبوب حقیقی سے لگی لو ہے جو ان کے اشعار میں ہمیں نظر آتی کہ جو سب کچھ خدا پر چھوڑ دیتا ہے اور توکل کا راستہ اختیار کرلیتا ہے تو پھر اس کے راستے آسان ہو جاتے ہیں۔ کارساز ما بہ فکر کار ما فکر ما درکار ما آزار کا یہی تو لوگ ہوتے ہیں جن کے کام کی فکر کارساز کو ہوتی ہے کہ وہ اپنی فکر کو تو آزاد سمجھتے ہیں۔ سنگی کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر بجا طور تحسین کرتے ہیں کہ یہ جنید اکرم کا ایک کارنامہ ہے کہ اس نے اسے ترتیب دیا اور اس حوالے سے ڈاکٹر نبیلہ رحمن اور ڈاکٹر نوید شہزاد بھی تعریف کے مستحق ہیں۔ اس کی ترتیب و تدوین بہت عرق ریزی ہوئی ہے۔ اب ذرا سنگی کا نمونہ کلام بھی دیکھ لیں: علم مرے دی تیرے اگے بند زبان خدایا مردے دے وچ فضلوں کرموںپائیں جان خدایا علم ترا جد سینیاں دے وچ معنیاں دے در کھولے کیکر فیر زباناں وچوں جبرائیل نہ بولے فقیر حسن فقیر نے اپنے آپ کو پنجابی کے لیے ایسا وقف کیا کہ آج دنیا انہیں بابائے پنجابی کے نام سے پکارتی ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ انہوں نے ایک مرتبہ غالب کے مشہور شعر کی تضمین لکھی تو ایک شعر زبان زدعام ہوا۔ پہلے غالب کی غزل کا مطلع: مدت ہوئی ہے یار کو مہمان کئے ہوئے جوش قدح سے بزم چراغاں کئے ہوئے فقیر محمد فقیر کا تضمینی شعر دیکھیں میں ہوں کہ میزبان ہیں میری فاقہ مستیاں دل ہے کہ دو جہان کو مہمان کئے ہوئے بابائے پنجابی نے اپنی تحریروں میں آفاقی موضوعات پر بات کی۔ ان کے ہاں بیان کا پھیلائو نظر آتا ہے۔ آپ انہیں کلاسک ہی میں رکھیں گے۔ ان کی شاعری میں آپ کو ہماری روایات و اقدار کی تصویر نظر آئے گی۔ ایک تقدیس و تطہیر جو انہیں صوفی شعرا سے جوڑتی ہے۔ وہ لوگ کس قدر احمق اور جاہل ہیں جو پنجابی کو اجڈوں اور ڈھگوں کی زبان کہہ دیتے ہیں۔ وہ پنجابی کے ادب اور ثقافت میں اترتے ہی نہیں۔ جاہل اور اجڈ تو ہر زبان میں موجود ہوتے ہیں۔ فیض احمد فیض نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ انہیں پتہ ہے کہ وہ غالب اور میر جیسا ایک آدھ شعر کہہ جائیں گے مگر وہ پنجابی صوفیا جیسا ایک مصرع بھی نہیں کہہ سکتے، آپ میاں محمد کو پڑھیں کہ وہ آدمی کو مبہوت کر دیتے ہیں۔ اسی طرح فقیر محمد فقیر کو نصاب میںشامل کرنا چاہیے۔ اس کتاب یعنی سنگی کو بہت پہلے چھپ جانا چاہیے تھا۔ جنید اکرم درست کہہ رہا تھا کہ پنجابی کی طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے لیے باقاعدہ آسامیاں پیدا کی جائیں۔ لوگوں کے لیے ترغیبات ہوں۔ پنجابی میں ادب کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ کچھ پنجابی نا ہنجاروں نے پنجابی کو ناحق سرداروں کے پنجاب کے ساتھ جوڑ کر پنجابیوں کے لیے تحفظات پیدا کردیئے۔ وہ سرداروں کے اتنے زیادہ زیر اثر آئے کہ ان کی سوچ بھی سرداروں سے ملنے لگی۔ پنجابی کے حوالے سے بہت اچھا اورزیادہ کام ہوا ہے اور یقینا اس میں ڈاکٹر صغریٰ صدف کا بہت ہاتھ ہے۔ بہت کچھ لکھنے کے لیے ہے مگر کالم تو کالم ہی ہوتا ہے آخر میں جنید اکرم ہی کا شعر: تیری ماں بولی اے بیبا، ککھاں وانگ نہ رولی پنجابی پڑھ پنجابی، لکھ پنجابی، غیرت مندا بول پنجابی