میاں شہباز شریف کی گرفتاری پر مسلم لیگ (ن) سے زیادہ پیپلز پارٹی تکلیف میں ہے۔ بلاول بھٹو زرداری سے لے کر سید خورشید شاہ تک ہر خوردو کلاں نے مذمت کی‘ بات قابل فہم ہے اگر میاں شہباز شریف ایسا نسبتاً بہتر امیج کا حکمران قانون کی گرفت میں آ گیا تو جن کی شہرت ہی مسٹر ٹین پرسنٹ سے شروع‘ مسٹر ہنڈرڈ پرسنٹ پہ ختم‘ وہ کیوں کر بچ رہیں گے‘ بکرے کی ماں کب تک خیر منائیگی۔ میاں شہباز شریف پر الزام اختیارات سے تجاوز‘ اداروں میں مداخلت اور من پسند افراد کو فائدہ پہنچانے کا ہے‘ مگر پیپلز پارٹی کی بالائی قیادت الاّ ماشاء اللہ اربوں کی کرپشن‘ لوٹ مار اور لاقانونیت میں ملوث ہے صرف سندھ کے دس سالہ ترقیاتی پروگرام کا آڈٹ ہو تو وہ کچھ سامنے آئے کہ الامان والحفیظ کسی بتکدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری‘ آج اگر مسلم لیگی قیادت احتساب کی زد میں ہے تو پیپلز پارٹی کی خوش گمانی زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکتی۔ یہی بات مسلم لیگی قیادت پیپلز پارٹی کو سمجھانے کی کوشش کر رہی ہے ؎ میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گماں نہ ہو چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں میاں شہباز شریف کو پہلی بار نیب نے اس وقت طلب کیا جب پنجاب میں ان کا طوطی بولتا تھا‘ بااختیار وزیر اعلیٰ تھے اور حکمران جماعت کے صدر۔ مرکز میں شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم تھے اور احسن اقبال وزیر داخلہ۔ اگر احد چیمہ اور فواد حسن فواد کی گرفتاری سے بھی وہ مستقبل کا حال جان نہیں پائے تو قصور اُن کا ہے کسی اور بالخصوص تحریک انصاف کا نہیں۔ پاکستان میں پہلی بار قانون کی حکمرانی کا تصور فروغ پا رہاہے اور وزیر اعظم‘ وزیر اعلیٰ‘ وزیر اور اعلیٰ سرکاری حکام عدالتی کٹہرے میں کھڑے اپنی صفائیاں پیش کر رہے ہیں ۔نیب اگر طاقتور اور بااختیار ادارے کے طور پر اپنا وجود منوا رہا ہے اور اختیارات سے تجاوز اور قومی وسائل کے ضیاع پر بڑے مگرمچھ قانون کی گرفت میں آ رہے ہیں تو عشروں سے بلا تفریق و امتیاز احتساب کے خواب دیکھنے والے اس ملک کے مظلوم و بے کس عوام خوش ہیں‘ انہیں مفاد پرست سیاسی اور مراعات یافتہ صحافتی اشرافیہ کا واویلا ’’روندی یاراں نوں لے لے ناں بھراواں دا‘‘ نظر آتا ہے عشروں سے لوٹ مار کے کاروبار میں شریک عوام کے یہ غم خوار اور جمہوریت کے علمبردار‘ نواز شریف کے غم میں دبلے ہو رہے ہیں نہ شہباز شریف کی پاکدامنی انہیں خون کے آنسو رلا رہی ہے۔ دستر خوانی قبیلے کو اپنا راشن پانی بند ہونے کا اندیشہ ہے اور اپنے کرتوتوں کی فکر کہ احتساب کی یہ چکی کہیں گیہوں کے ساتھ گھن کو بھی پیسنا شروع نہ کر دے۔عمران خان اور نیب نے کرپٹ حکمرانوں کی دم پرپائوں رکھا مگر تلملا صحافتی بزر جمہر رہے ہیں سیاست اور صحافت کا یہ حسین ملاپ ؟ تیری میری اک جندڑی ‘تینوں تاپ چڑھے تے میں ہُونگاں کوئی بھی انصاف پسند شہری کسی بے قصور کی پگڑی اچھالنے کے حق میںہے نہ نیب کے سیاسی استعمال کا آرزو مند۔ لیکن یہ بے ہودہ منطق بھی ہرگز قابل قبول نہیں کہ حکومت نے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے اور ضمنی الیکشن جیتنے کے لیے نیب کو میاں شہباز شریف کی گرفتاری پر مجبور کیا۔ عقل و دانش کے یہی قطب مینار عام انتخابات سے قبل میاں نواز شریف اور مریم نواز کی گرفتاری کو مسلم لیگ کی انتخابی کامیابی کا پیشہ خیمہ اور اسٹیبلشمنٹ کی ناکامی کا ثبوت قرار دیا کرتے‘ ہمدردی کے ووٹ کا شوشہ بھی چھوڑا گیا جو 25جولائی کو پانی کا بلبلہ ثابت ہوا۔ پہلے کسی نے پوچھا نہ اب کوئی سوال کر سکتا ہے کہ عام انتخابات تک میاں شہباز شریف آزاد تھے‘ مسلم لیگ انتخاب نہ جیت سکی‘ اگر میاں نواز شریف کی اسیری ناکامی کا سبب تھی تو اب وہ آزاد ہیں ضمنی الیکشن ہارنے کا خوف کیوں؟ کم از کم مجھے یقین ہے کہ اگر میاں شہباز شریف بے قصور ہیں تو کوئی نیب اور کوئی حکومتی ادارہ ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا اور عدلیہ سے انہیں انصاف ملے گا۔نیب کی حوالات میں فرصت اور تنہائی کے جو لمحات انہیں میسر ہیں ان سے فائدہ اٹھا کر میاں صاحب اپنی ذات اور طرز حکمرانی کا محاسبہ کر سکتے ہیں؟ کہاں کہاں انہوں نے غلطیاں کیں اور دس سالہ بلا شرکت غیرے دور اقتدار میں وہ تعلیم‘ صحت‘ روزگار اور سماجی انصاف کے شعبوں میں انقلابی تبدیلی کیوںنہ لا سکے۔ مسلم لیگ کی قیادت اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ ملا کر احتجاج کی جو حکمت عملی ترتیب دے رہی ہے وہ کامیابی سے ہمکنار اس لیے نہیں ہو سکتی کہ حکومت کو آئے صرف ڈیڑھ ماہ ہوا ہے۔ عمران خان کے ووٹر اور سپورٹر پرعزم و پرجوش ہیں اور اپوزیشن کے حمائتی شکستہ دل و مایوس‘ قومی ادارے سیاسی و ملکی استحکام چاہتے ہیں اور علاقائی حالات انتشار و افراتفری کے حق میں نہیں۔ ایسے میں اگر مسلم لیگ ن نے اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کو ساتھ ملا کر سڑکوں پر آنے کی کوشش کی تو مزید گرفتاریوں اور احتساب کے عمل میں تیزی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔ احتجاجی سیاست کا فائدہ بھارت کو ہو سکتا ہے یا پاکستان میں عدم استحکام کی خواہش مند دیگر قوتوں کو‘ اپوزیشن کو ہرگز نہیں کہ اس کے پاس احتجاج کا اخلاقی و سیاسی جواز ہے نہ سیاسی کارکن ذہنی طورپر یکسو ہیں نہ عوام کرپشن کے قطب میناروں سے ہمدردی رکھتے ہیں اور نہ حکومت اتنی کمزور و بے بس ہے کہ وہ عوامی تائید و حمائت سے محروم ایک مفاد پرست ٹولے کے ہلّے گلے کو کنٹرول نہ کر پائے۔ بجا کہ میاں نواز شریف کی ضمانت پر رہائی سے مسلم لیگ کے عقابوں کو حوصلہ ملا اور اب وہ ایڑیاں اٹھا کر میاں نواز شریف سے میدان میں نکلنے اور احتجاجی تحریک برپا کرنے کی فرمائش کر رہے ہیں مگر انہیں شائد علم نہیں کہ اب ملک میں شاہد خاقان عباسی کی حکومت ہے جو سرکاری وسائل میاں صاحب کے کاررواں کے لیے وقف کرے گی نہ پنجاب میں ’’پنجاب سپیڈ‘‘ کا راج کہ پٹواری اور بلدیاتی اداروں کے ملازمین استقبالی ہجوم کا حصہ ہوں گے جبکہ نیب اور قانونی اداروں میں گھسے شریف خاندان کے خیر خواہوں اور وظیفہ خواروں کا مکّو ٹھپنے کی خاطر خواہ حکمت عملی ترتیب دی جا چکی ہے۔ یہ فیصلہ وہاں ہوا ہے جہاں اٹل فیصلے کئے جاتے ہیں۔ غضب خدا کا فالودہ فروش‘ خاکروب اور سکول ٹیچر کے اکائونٹس سے اربوں روپے برآمد ہو رہے ہیں اور منی لانڈرنگ کے مکروہ کاروبار نے ملک کی چولیں ہلا دی ہیں مگر اپوزیشن احتساب کا عمل روکنے کے لیے احتجاجی تحریک کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ مسلم لیگ ن ممکن ہے پیپلز پارٹی کو یہ پٹی پڑھانے میں کامیاب رہے کہ آج ہم کل آپ کی باری ہے یا شاکر شجاعبادی کے الفاظ میں ؎ بس فرق میعاد دا ہے شاکر میں اج رُناّں توں کل روسیں لیکن پیپلز پارٹی سڑکوں پر نکلی ہے نہ نکلے گی۔ خاص طور پر جبکہ معاملہ شہباز شریف کا ہے جس شخص کو زرداری صاحب کی پارٹی ووٹ دینے پر آمادہ نہیں اُس کی رہائی کے لیے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرے گی؟ ع ایں خیال است و محال است و جنوں مسلم لیگ کو احتجاج پر اکسانے والے نادان دوست یا دانا دشمن یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اس وقت تحریک سے یہ تاثر مزید گہرا ہو گا کہ اپوزیشن حکومت کو عوام کی خدمت سے روکنا چاہتی ہے وہ 50لاکھ گھروں کی تعمیر نہیں چاہتی‘ مہنگائی میں کمی کے حق میں نہیں اور روزگار کی فراہمی کے خلاف ہے جس کا عمران خان وعدہ کر رہا ہے صرف وعد ہ نہیں بعض اقدامات بھی۔مسلم لیگ (ن) کے دوست مشورہ سننے کے عادی نہیں‘ ماننے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن اگر اللہ تعالیٰ انہیں عقل سلیم دے اور وہ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنے کی زحمت گوارا کریں تو پیپلز پارٹی کاانجام ان کے لیے مشعل راہ ہے۔ چاروں صوبوں کی زنجیر اور بھٹو کی پارٹی زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں تب اُتری جب اس نے اپنی قیادت کی کرپشن‘ اقربا پروری اور خاندانی و موروثی سیاست کا دفاع فرض سمجھا اور عوامی جذبات و احساسات کی پروا نہ کی۔ آج وہی گناہ بے لذت مسلم لیگ کرنے جا رہی ہے‘ 25جولائی کے نتائج سے اس نے سبق نہیں سیکھا شائد خودکشی کا ارادہ ہے ؎ دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے