رہے پیش رو ترا نقش پا مرے مصطفیؐ مرے مجتبیٰ تو ہے روشنی مری آنکھ کی ترا راستہ مرا راستہ مسجد نبویؐ میں معمول میں اتنا رش رہتا ہے کہ مسجد اندر باہر سے بھر جاتی ہے‘ راستے نمازیوں سے لد جاتے ہیں۔ اذان سے بہت پہلے لوگ اپنی جگہ بناتے جاتے اور نوافل ادا کرتے ہیں۔ آنے والے راستے میں رکھے ہوئے کولرز سے آب زم زم پیتے جاتے ہیں۔ کیا تاثیر اس میں آب حیات جیسی۔ یہ آپ پر بھاری نہیں پڑتا۔ اس کے پیچھے بھی معجزہ کارفرما ہے کہ یہ سبیل قیامت تک جاری رہے گی۔ اچھا لگتا ہے کہ پوری دنیا سے آئے ہوئے حجاج ایک دوسرے کی زبان سے بے گانہ ایک دوسرے کو سلام کہتے ہیں اور محبت بھری مسکراہٹیں ایکسچینج کرتے ہیں۔ ایک قسم کی بو قلمونی ہے صرف رنگوں کی ہے نہیں مزاجوں کی بھی۔ اتنی خلقت ایک ہی وقت میں آمین کہتی ہے تو ایک سماں بندھ جاتا ہے۔ اللہ کی کبریائی نظر آتی ہے اور اس کے محبوب کی محبت جو سب کو کھینچ لاتی ہے۔ وہاں جگہ جگہ خدام نظر آتے ہیں۔ پوچھو تو رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ ایک نمبر دروازے سے روضہ رسولؐ کی طرف جاتے ہیں اور دو نمبر دروازے سے ریاض الجنہ تک پہنچتے ہیں۔ مسجد نبویؐ میں توسیع کا کام بہت ہوا جب ہم 2006ء میں عمرہ کے لئے آئے تھے تو مسجد کے صحن میں چند چھتریاں لگائی گئی تھیں۔ میرے روم میٹ محمد عمر نے بتایا کہ ان چھتریوں کے پیچھے دلچسپ کہانی ہے۔ سب سے پہلے باب الاسلام کے سامنے ایک چھتری لگائی گئی تھی تاکہ روضہ رسولؐ کی زیارت کرنے والے چھتری کے سائے میں اپنی باری کا انتظار کر لیں۔ چھتری کا تجربہ بہت اچھا لگا تو بادشاہ وقت نے اور چھتریاں لگانے کا پروگرام بنایا۔ ظاہر ہے چھتریاں لگا دی گئیں جن کی لاگت کروڑوں ریال ہے مگر سعودی فرمانروا بہت فراخدل ہیں۔ چھتریاں لگیں تو گھٹن سی ہو گئی۔ انہوں نے کسی ہوٹل پر لگا ہوا فین دیکھا جسے Mist fanکہتے ہیں جو پانی کی پھوار چھوڑتا ہے۔ اس کو مثال بنا کر چھتریوں کے ساتھ مسٹ فین بنوانے کا فیصلہ ہوا مگر اختراع کی گئی کہ ان پنکھوں کا شور نہ ہو یہ بہت شاندار اختراع تھی کہ پنکھا دو طرف گھومتا ہے۔ یہ انگزاسٹ کا کام بھی دیتا ہے اور ٹھنڈی ہوا پھوار کے ساتھ پھینکتا دیکھنے میں بھی یہ عمل خوشگوار لگتا ہے۔ آپ اسے ترشح بھی کہہ سکتے ہیں یہ موسم کی حدت کو کم کرنے کے لئے وگرنہ یہاں کی حدت میں شدت ہے مکہ تو اس سے بھی آگے ہے کہ جلالی ہے‘ فجر کی نماز باہر صحن میں پڑھنے کا اپنا ایک لطف ہے کہ صبح کی تازگی کہ جس میں صبح سانس لیتی ہے۔ ہر نماز پر اپنی قیام گاہ سے دو تین فرلانگ چل کر آتے ہیں۔ راستے میں شاپس ہیں کئی اقسام کی یہ دکانیں بڑی بھلی معلوم ہوتی ہے۔ کہیں سے قرآن پاک کی تلاوت کانوں میں رس گھولتی ہے کہ یہاں سے قرآن کی سی ڈیز وغیرہ اور قرآن دستیاب ہوتے ہیں خوشبو سے بھری دکانیں بھی ہیں جہاں سے گزرنا بہت ہی فرحت بخش ہوتا ہے۔ یہ دکانیں علی الصبح بند ہوتی ہیں مگر ان کے آس پاس خوشبو ہوا میں معلق رہتی ہے۔ خاص طور پر موبائل پیکیج کی دکانیں ہیں کئی کمپنیاں ہیں جو آنے والے حاجیوں کو مفت سم مہیا کرتی ہیں اور جب حاجی تھکاوٹ اتار لیتے ہیں اور اس سم کا پتہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کمپنی کا پیکیج لینا پڑے گا۔ رفتہ رفتہ وہاں کے لوگ کاروبار سیکھ گئے ہیں۔ پیکیج مہنگے ہیں مگر اس کے بغیر گزارہ بھی نہیں۔ ایک بات کی طرف اس وقت دھیان جاتا ہے جب حاجی سیلفیاں اور موویز بناتے نظر آتے ہیں۔ دل میں آتاہے کہ یار ہم یہاں بھی اپنی روٹین نہیں چھوڑتے کہ یہ تو درود و سلام اور عبادت کا موقع ہے۔ میں نے موبائل کے غیر ضروری استعمال سے ہاتھ کھینچ لیا۔ یہی تو موقع ہے کہ تسبیحات کی جائیں‘ تلاوت کریں اور دوسری عبادات میں مشغول رہیں کہ یہاں کا عمل صائب بھی ہے اور قیمتی بھی: مجھے حکمتوں کی تلاش تھی میں ترے دیار میں آ گیا یہاں جگہ جگہ مدینہ کی زیارات پر لے جانے والے کھڑے ہوتے ہیں دس ریال فی کس لیتے ہیں۔ آپ پانچ ریال میں بھی اور تین ریال میں بھی بسوں پر جا سکتے ہیں اور گھوم پھر کر واپس دوسری بسوں سے آ سکتے ہیں ایک نئی طرز کی خوشنما بسوں کا سلسلہ بھی یہاں شروع ہوا ہے جس کا پیکیج خاصہ مہنگا یعنی 80ریال فی کس ہے۔ ان بسوں میں سماعت کے آلات ہیں آپ اپنی اپنی زبان میں زیارات کے بارے میں سن سکتے ہیں اور شیشے کے باہر وہ جگہ دیکھ سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ آپ کو مسجد قبا پہ اتاریں گے اور آپ وہاں نوافل پڑھیں گے اور آپ کو یہ واپس لے جائیں گے جب ہم بہت پہلے عمرہ کرنے آئے تھے تو یہ لوگ تسلی کے ساتھ زیارات کی زیارت کرواتے تھے۔ تب تو ہم جبل نور پر غار حرا پر بھی گئے اور جبل الثور پر غار ثور پر بھی گئے۔ احد دیکھا اور وہ احاطہ بھی جہاں حضرت حمزہ آسودۂ خاک ہیں۔ ایک زمانہ تھا یہاں کے لوگ حاجیوں کی خدمت کا جذبہ لیے ہوئے تھے اب وہ کاروباری سے ہو گئے ہیں۔ پھر بھی بعض لوگ مغرب کی نماز سے پہلے جگہ جگہ دسترخواں لگا دیتے ہیں۔وہی کھجوریں اور قہوہ پلایا جاتا ہے۔ بعض لوگ جوس وغیرہ بھی بانٹتے ہیں مگر اس کے ساتھ مانگنے والیاں بھی کہیں کہیں نظر آ جاتی ہیں۔ پہلے تو استعمال کی چیزوں کے خوانچے بھی لگ جاتے تھے اب یہ چیز کنٹرول کر لی گئی ہے۔ کبوتروں کا دانہ بیچنے والے بھی چل پھر کر اپنا کاروبار کرتے ہیں بس ایک الگ سی دنیا یہاں آباد ہے۔ یہ بھی اچھا ہے کہ حج منسٹری نے ہمارے کھانے کا اہتمام کر رکھا ہے وگرنہ شاید یہاں ایک الگ مصروفیت ہوٹل ڈھونڈنے کی ہوتی۔ پہلے روز تو لاہور سے آتے ہی لاہوری چنے ناشتے میں تھے۔ یہاں بھی چکن وافر استعمال ہوتا ہے حتیٰ کہ ان کی نہاری بھی چکن نہاری ہوتی ہے۔ چائے بہر طور یہاں پٹرول کا بھی کام کرتی ہے کہ کچھ مستعدی کی یہاں ضرورت ہے۔ آسمانوں کو چھوتی ہوئی عمارتیں تو کسی طرف دیکھنے نہیں دیتیں کہ سب نے مناظر روک رکھے ہیں مگر ان کی سہولت نے حاجیوں کی مسافت کو سمیٹ رکھا ہے۔ مگر ایک دھیان اس زمانے کی طرف جاتا ہے کہ جب زندگی بہت سادہ تھی۔ آپ اصحاب صفہ کو تعلیم دیتے تھے۔ جب ہر طرف کھلا منظر تھا۔ جب حضرت ایوب انصاری کا کنواں ٹھنڈا پانی مہیا کرتا تھا۔ اب تو سب کچھ بدل چکا لیکن چودہ سو سال پرانی اس فضا کا احساس شام سہانی کر دیتا ہے۔ لیجئے ابھی میں نے کالم ختم کیا تھا کہ مولانا محمد امجد نے کہا جناب وزارت مذہبی امور سے کہیں کہ مریضوں کے لئے ایمبولینس اور دوائی میں دقت پیش آ رہی ہے نصراللہ شاہ کے دلگداز سخن کے ساتھ اجازت: تیری میری گل نہیں‘ گل اے حضورؐ دی اکھیاں دے نور دی تے دلاں دے سرور دی