یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے ساتھ ہو رہا ہے۔ قاسم سلیمانی کی موت کوئی اچانک واقعہ نہیں ہے۔یہ کسی ڈونلڈ ٹرمپ کے دماغ کی خرابی کا بھی نتیجہ نہیں۔ کوئی امریکی صدر اب تک اس قدر طاقتور نہیں ہوسکا جو امریکہ اور اس دنیا پر قابض سودی بینکاری نظام اور اس کے مسلط کردہ عالمی مالیاتی نظام سے بغاوت کر سکے۔ امریکی جنگی مشینری بھی اسی کی تابع ہے۔ یہ عالمی بینک کار ہی تھے جنہوں نے گذشتہ صدی میں اس دنیا پر دو عالمی جنگیں مسلط کیں اور ان سے اس قدر کمایا کہ ان کے پیٹ پھول کر کپّا ہوگئے۔ دنیا کے بیشتر مفکر اب اس بات پر متفق ہیں کہ ان دونوں جنگوں کا بنیادی مقصد دنیا میں معاشی کساد بازاری سے بینکاری منافع خوری کی منزل کا حصول تھا۔ برطانیہ کی مشہور زمانہ خفیہ ایجنسی ایم آئی 6 کے سابق رکن ڈاکٹر جان کو لیمن نے اپنی کتاب ’’فریب کی سفارتکاری‘‘ میں لکھا ہے کہ '' ہر ایک سپاہی جو ان جنگوں کے دوران مارا گیا، عالمی بینکاروں نے اس کے بدلے دس ہزار ڈالر منافع کمایا''۔ پہلی جنگ عظیم میں اکیس ملکوں کے چھ کروڑ ساٹھ لاکھ افراد جنگ میں جھونک دیے گئے تھے اور ان میں سے ایک کروڑ تو سپاہی لقمہ اجل بن گئے تھے۔ عام انسانوں کی اموات اس سے کئی گناہ زیادہ تھیں۔ یہی عالم دوسری جنگ عظیم کا تھا جو 1930ء کی دہائی میں کساد بازاری سے پیدا کی گئی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد جب بینکاروں نے امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور دیگر یورپی ملکوں کا کنٹرول سنبھال لیا تو جرمنی کو ایک ایسے تاوان جنگ کے معاہدے میں پھنسایا گیا جسے وہ کسی صورت ادا نہیں کرسکتا تھا۔ امریکی بینکاروں نے جرمنی کے لیے قرضہ جات کے دو منصوبے پیش کیے جنہیں داوس (Dawes) اور ینگ (Young) پلان کہا جاتا ہے۔ پورے جرمنی میں ایک فضا پیدا ہو گئی تھی کہ ہر کوئی کہتا تھا کہ ہمیں اس ذلت آمیز معاہدہ کو نہیں ماننا چاہیے اور جرمن قوم کو بدلہ لینا چاہیے۔ اسی فضا نے ہٹلر جیسے کردار کو جنم دیا جو عوامی ووٹ سے منتخب ہو کر جرمنی کا چانسلر بنا۔ اس نے ایک جنگی جنون کی قیادت کی اور یوں عالمی بینکاروں کی مراد بر آئی اور انہوں نے جرمنی کو جنگی جہاز، ٹینک، ملٹری ٹرک، اسلحہ و بارود اور دیگر سازوسامان بنانے کے لیے خوب قرضہ دیا۔ یہاں تک جے پی مورگن (J.P.Morgen) بینکاری کمپنی نے اپنا ایک ٹرسٹ قائم کیا جو امریکہ میں جرمن جاسوسی اور خفیہ آپریشن کے لیے بھی سرمایہ فراہم کرتا تھا۔ اس طرح دوسری جنگ عظیم کا میدان سجایا گیا۔جس سے دنیا کا چہرہ انسانوں کے لئے لہو سے سرخ اور بارود کے دھوئیں سے سیاہ ہو گیا۔ کروڑوں انسانوں کی موت کے ملبے سے تباہ حال یورپ برآمد ہوا جسے اپنی ترقی اور معاشی، اقتصادی اور صنعتی بحالی کے لیے قرضے کی ضرورت تھی۔ اس دن سے لے کر آج تک پوری دنیا ان بینکاروں کی ہوس زر میں جکڑی ہوئی ہے۔ یہ عالمی مالیاتی سودی نظام خود ایک منصوبے کے تحت کسادبازاری (Depression) پیدا کرتا ہے، افراط زر (Inflation) بھی خود بخود نہیں ہوتی بلکہ اس کے پس پردہ ایک وسیع تر ڈیزائن ہوتا ہے اور اگر ان دونوں خرابیوں سے بھی سودی بینکاری کی سرمائے کی ہوس پوری نہ ہو تو دنیا کو ایک بڑی جنگ میں جھونک کر دولت کمائی جاتی ہے۔ کیا قاسم سلیمانی کی موت ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب عالمی مالیاتی سودی نظام کسی بڑے خطرے سے دوچار ہے اور اسے اپنے بچاؤ کے لیے ایک بہت بڑی عالمی جنگ کی ضرورت ہے۔ یقینا ایسا ہی ہے۔ دنیا کے مالیاتی نظام میں ایک پیمانہ ہوتا ہے جسے (yield curve) کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا بھر میں قرضہ جات اور ان سے حاصل ہونے والے سودی منافع اور ان کی رفتار کے متعلق بتاتا ہے۔ اس کے مطابق اگر قلیل مدتی قرضوں کا سود، طویل مدتی قرضوں کے سود سے کم ہو تو ایسی حالت میں معیشت ترقی کر رہی ہوتی ہے اور اگر یہ الٹ ہو جائے تو معیشت زوال پذیر اور کساد بازاری کا شکار ہوتی ہے۔ اسے Yield curve inversion کہا جاتا ہے۔ گذشتہ سال یعنی 2019ء میں مارچ اور ستمبرکے مہینوں میں یہ کمان (curve) اس حد تک زوال پذیریعنی inversion کا شکار ہوگئی تھی جس سے عالمی کساد بازاری کا خطرہ اتنا بڑھ گیا تھا کہ تمام مارکیٹوں میں ایک سنسنی دوڑ گئی تھی۔ ایسا اب کسی بھی وقت ہوسکتا ہے،تلوار سر پر لٹک رہی ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو پھر دنیا کے تمام ممالک امریکی ڈالر کا ایک محفوظ دولت (Reserve Currency) کے طور پر استعمال کرنا چھوڑدیں گے۔ کیونکہ ایسا کرنے میں نقصان ہی نقصان ہے۔ اگر ان ملکوں نے امریکی ڈالر کا ریزرو کرنسی کے طور پر استعمال ترک کردیا تو پھر امریکہ راتوں رات عالمی نقشے سے ایک معاشی قوت کی حیثیت سے ختم ہو جائے گا۔ اسی لیے امریکہ کو فوری طور پر ایک جنگ چاہیے تھی اور جنگ بھی ایک ایسے خطے میں چاہیے جو اس سے بہت دور ہو،ایسے دولت مند ممالک کا خطہ جو اس قدر سرمایہ رکھتے ہوں کہ جنگ کا بوجھ سہہ سکیں اور جس کی زمین پہلے سے جنگ کے شعلوں میں لپٹی ہوئی ہو۔ اس کے لیے مشرق وسطیٰ سے بہتر کوئی اور سرزمین نہیں اور ایران سے بہتر کوئی محل وقوع نہیں،جس کے ایک جانب عراق اور دوسری جانب افغانستان کئی دہائیوں سے جنگ کا شکار ہیں۔ امریکہ کی معاشی صورتحال اور عالمی معاشی منصوبہ بندیوں کا ماہر جیرالڈ سیلنٹے (Gerald Celente) اپنی پیش گوئیوں کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتا ہے۔ وہ اپنا ایک رسالہ ''Trend'' بھی نکالتا ہے۔ اس کی پیش گوئیاں عالمی معاشی نظام کی آئندہ حکمت عملی کے بارے میں ہوتی ہیں اور ان حکمت عملیوں میں سے جنگ ایک معاشی حکمت عملی ہے۔ اس نے 15 جون 2017ء کو اپنے ایک طویل مضمون میں لکھا تھا کہ عالمی معاشی سودی نظام اپنی تباہی سے بچنے کے لیے ضرور ایران سے جنگ چھیڑے گا۔اسکے مطابق اگر ایسا ہوگیا تو صرف چند ہفتوں میں تیل کی قیمتیں سو ڈالر فی بیرل تک جا پہنچیں گی اور یوں عالمی بینکاروں کی خالی تجو ریاں منٹوں میں بھرنا شروع ہوجائیں گی۔ لیکن اس جنگ کا ایندھن کون بنیں گے۔صرف اور صرف مسلمان۔ ظاہر بات ہے قاسم سلیمانی کا انتقام لینے کے لیے ایران امریکی اہداف پر حملہ کرے گا۔ یہ اہداف کہاں ہیں۔ امریکی افواج اس وقت کویت (13,000)، بحرین (7,000)، قطر (13,000)، عمان (606)، متحدہ عرب امارات (5,000)، شام (8,00)، اردن (3,000)، سعودی عرب (3,000) اور عراق (6,000) ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر ممالک کی افواج بھی یہاں موجود ہیں۔ انہی ممالک میں امریکی تیل کی کمپنیوں کی تنصیبات بھی ہیں اور ان تمام ملکوں کی معیشت ان سے وابستہ ہے۔ یہ چند ہزار امریکی فوجی کئی کروڑ مسلمانوں کو جنگ کی بھٹی میں جھونک دیں گے۔اسلحہ کا بازار ہو گا اور اسلحہ ساز کمپنیوں کی تجارت سے مالیاتی نظام کا پہیہ چلنے لگے گا۔ لیکن لگتا یوں ہے کہ بینکرز اسے مشرق وسطیٰ تک محدود نہیں رکھنا چاہتے بلکہ اسے عالمی جنگ میں بدلنا چاہتے ہیں۔ روس نے ایران کی مدد کے لیے اس کے S.300 ائر ڈیفنس سسٹم کو اپنے الیکٹرانک وار فیئر سسٹم سے منسلک کر دیا ہے اور ایرانی علاقے بوشہر میں اپنی موجودگی ثابت کردی ہے۔ امریکہ اور روس کے درمیان شروع ہونے والی وہ جنگ جو شام کے بشار الاسد کے اقتدار سے وابستہ تھی وہ اب ایک نیا رخ اختیار کر جائے گی۔ پہلے یہ خفیہ آپریشن تک محدود تھی جس کی کمان قاسم سلیمانی کے پاس تھی، اسی وجہ سے اسے نشانہ بنایا گیا لیکن اب یہ کھلی جنگ میں بدلی تو صرف چند گھنٹوں کی یہ جنگ آدھی سے زیادہ دنیا کو خس و خاشاک کا ڈھیر بنا دے گی۔ دنیا کے ماہرین یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ اس جنگ کے آغاز میں اب اتنی ہی دیر باقی ہے،جتنی دیرمیں یہ عالمی بینکار اپنے اثاثے محفوظ ترین ملک نیوزی لینڈ منتقل نہیں کر لیتے۔ ایسا کرنے کے بعد جو جنگ شروع ہو گی وہ تباہ کن ہو گی۔اس کے بعد جو ہوگا اس کے متعلق آئین سٹائن نے کہا تھا کہ پھر چوتھی عالمی جنگ صرف پتھروں اور ڈنڈوں سے لڑی جائے گی۔ سید الانبیاء ﷺکی تمام احادیث بھی اسی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ بیت المقدس پر آخری لڑائی تلواروں اور تیر کمانوں سے ہوگی۔