عالمی منڈی میں خام تیل کا دھڑن تختہ ہوچکا ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں میں دنیا میں خام تیل (پیٹرولیم) کی قیمت نصف سے بھی کم رہ گئی ہے اور اس میں مزید کمی کا امکان ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بین الا قوامی منڈی میں تیل کا سیلاب آنے والا ہے۔ سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ وہ یکم اپریل سے روزانہ تقریبا ًسوا کروڑ بیرل تیل عالمی مارکیٹ میں فروخت کرے گا یعنی پہلے کی نسبت چھبیس لاکھ بیرل اضافی تیل۔ متحدہ عرب امارات نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ اپریل سے تیس لاکھ کی بجائے چالیس لاکھ بیرل تیل فروخت کریگا۔ برطانیہ کی منڈی کے خام تیل کے نرخ کو برینٹ کہا جاتا ہے ‘ یہ ایک عالمی معیار ہے ۔ جنوری میں برینٹ کی قیمت ساٹھ ڈالر فی بیرل تھی جو گزشتہ ہفتہ پچیس ڈالر تک گر گئی تھی۔ سعودی عرب دنیا میںتیل پیدا کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے اور پیٹرولیم پیدا کرنے والے تیرہ ملکوں کی تنظیم اوپیک کا سربراہ ‘ اصل کرتا دھرتا ہے ۔ یہ تنظیم طے کرتی ہے کہ اسکا کونسا رکن ملک روزانہ کتنا تیل نکالے کرمنڈی میں بیچے گا‘ خام تیل کی مجموعی پیداوار کتنی رکھی جائے گی تاکہ وہ ایک خاص قیمت پر فروخت ہوتا رہے۔اگر پیداوارایک خاص مقدار سے زیادہ ہوجائے تو عالمی منڈی میں اسکی قیمت نیچے گر جاتی ہے ۔ اگر پیداوار کم ہوجائے تو تیل کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔روس دنیا میں تیل پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے لیکن وہ اوپیک کا رُکن نہیں۔چند سال پہلے اوپیک اور روس نے ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت تیل کی روزانہ پیداوارمیں مجموعی طور پر اکیس لاکھ بیرل کمی کردی گئی تھی ‘روس اور اوپیک ممالک کے تیل کی پیداوار کا کوٹہ مقرر کردیا گیا تھا۔ اس تین سالہ کوٹہ کی مدت ایک ہفتہ بعد اکتیس مارچ کو مکمل ہوجائے گی۔چھ مارچ کو اوپیک اور روس کے درمیان ویانا میں مذاکرات ہوئے کہ آئندہ کے لیے کیا ہدف مقرر کیا جائے۔ سعودی عرب نے تجویز دی تھی کہ روس اور اوپیک دونوں پیداوار میں مجموعی طور پر پندرہ لاکھ بیرل روزانہ کی کمی کردیں۔ روس کا اصرارتھا کہ پرانے کوٹہ کو برقرار رکھ کر موجودہ معاہدہ کو ایک سال کی توسیع دے دی جائے۔ بات چیت ناکام ہوگئی۔ سعودی عرب یکطرفہ طور پرصرف اوپیک کی پیداوار کم کرسکتا تھا جس سے تیل کی منڈی میں استحکام رہتا لیکن اس نے اُلٹا یہ اعلان کردیا کہ وہ یکم اپریل سے تیل کی پیداوار بڑھا دے گا۔ یوں عالمی منڈی میں ایک بھونچال آگیا۔تیل کی قیمتیں تیزی سے گرنے لگیں۔ تیل کی موجودہ قیمت انیس برسوںمیں اسکاکم ترین نرخ ہے۔ سعودی عرب کازیادہ تیل بیچنے کا فیصلہ خاصا حیران کن ہے کیونکہ اس نے اگلے ماہ سے جس بڑی مقدار میں تیل بیچنے کا اعلان کیا ہے اس کے کنوؤں سے فی الوقت اتنا تیل نکالا نہیںجاسکتا ۔ اتنی مقدار میں تیل فروخت کرنے کی خاطر اُسے اپنا پہلے سے ذخیرہ کردہ پیٹرولیم بھی بیچنا پڑے گا۔ امریکہ ‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات آپس میں گہرے دوست ‘ اتحادی ممالک ہیں۔ عرب ملکوں نے تیل کی پیداوار پر جو حکمت عملی اختیار کی ہے وہ امریکہ کے مشورہ اور تائید کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ امریکہ دنیا میں تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اسکی روزانہ پیداوار ایک کروڑ تیس لاکھ بیرل ہے۔تاہم امریکہ میں شیل آئل نکالا جاتا ہے جس پر بہت زیادہ لاگت آتی ہے‘ سعودی عرب کے تیل سے چھ سات گنا زیادہ۔ اس لیے امریکی کمپنیوں کا مفاد اس میں ہے کہ تیل کی قیمتیں ایک خاص حد سے نیچے نہ گریں۔ کم سے کم ستّراسیّ ڈالر فی بیرل تک رہیں۔ دوسری طرف‘ روس کا خیال ہے کہ اگر تیل کی قیمت مزید بڑھی تو عالمی منڈی میں اسکا حصّہ کم ہوجائے گا اور امریکہ کا بڑھ جائے گا۔وہ تیل کے نرخ چالیس پچاس ڈالر فی بیرل کے آس پاس رکھنا چاہتا ہے تاکہ اسکی فروخت کم نہ ہو۔اتنی قیمت پر اسے تیل سے جو آمدن ہوتی ہے وہ اسکا بجٹ متوازن رکھنے کے لیے کافی ہے۔ سعودی عرب نے جُوا کھیلا ہے کہ تیل کی قیمت بہت زیادہ گرا کر رُوس کو اپنی بات منوانے پر مجبور کرلے ۔ اگر روس دباؤ میں آگیا‘ اُس نے اپنی پیداوار کم کرلی تو عالمی منڈی میں تیل کی قیمت ساٹھ ستّرڈالر فی بیرل تک ہو جائے گی۔ لیکن روس ڈٹ گیا ہے۔ ماسکو حکومت عندیہ دے چکی ہے کہ وہ کئی برس تک پچیس سے تیس ڈالر فی بیرل کی قیمت پر گزارا کرسکتی ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سخت اعصاب کے مالک ہیں۔ اس بات کا امکان نہیں کہ وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائیں۔ تیل کی قیمت کریش ہوجانے سے رُوس تونہیں جھکا بلکہ امریکہ کی کمپنیوں کو اچھا خاصانقصان ہوگیا ‘ وہ دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے اپنی حکومت سے مدد مانگ رہی ہیں۔ عرب ممالک اور شمالی افریقہ کے تیل پیدا کرنے والے ملک جیسے لیبیا‘ الجیریا‘ نائجیریا اور انگولا کے بھی کڑاکے نکل گئے ہیں کیونکہ ان کی معیشت کا زیادہ انحصار تیل کی آمدن پر ہے۔ موجود ہ صورتحال جاری رہنے کا سعودی عرب کو بھی شدید نقصان ہے ۔ تیل کی قیمت اسّی ڈالر فی بیرل ہو تو سعودی عرب کی حکومت کے اخراجا ت پورے ہوتے ہیں ورنہ اسکا بجٹ خسارہ میں چلا جاتا ہے۔ اگر اُسے چند برس پچیس تیس ڈالر فی بیرل کی موجودہ قیمت پر نکالنا پڑ گئے تواسکی معیشت بہت مقروض ہوجائے گی۔ ان حالات میں امکان یہی ہے کہ امریکہ جلد مداخلت کرکے سعودی عرب اور روس کے درمیان کسی تصفیہ کی راہ ہموار کردے گا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو عرب اور خلیجی ملکوں کی معیشت بڑے بحران کا شکار ہوجائے گی۔اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے کیونکہ ہمارے لاکھوں کارکن ان ملکوں میں روزگار کماتے ہیں ۔ ان ملکوں سے پاکستان کو خطیر زرمبادلہ آتا ہے۔