اکیس مارچ کو میں نے ٹوئٹ کی کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھنے والی ہیں۔حکومت کو پیٹرول کی قیمتیں بڑھانی پڑیں گی۔ عوام کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اچانک اضافے سے ان میں اشتعال پیدا نہ ہو۔اس ٹوئٹ کا نوٹس ٹوئٹر پہ ہر وقت موجود وفاقی وزیر اطلاعات نے لیا یا نہیں لیکن وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوا۔ ساتھ ہی مہنگائی بڑھی اور عوام کی چیخیں نکل گئیں ۔ہارے ہوئے جواری کی طرح سر بگریبان بیٹھی اپوزیشن کی جان میں جان آئی اور اس نے پٹے ہوئے پتے پھر سے سمیٹ کر پھینٹنے شروع کردیئے ۔ ساتھ ہی وہ میڈیا گروپ بھی حرکت میں آگئے جن کی روزی روٹی ہی عمران خان پہ تنقید سے وابستہ ہے۔ سوشل میڈیا پہ طوفان برپا ہوگیا ۔ جب یہ سب کچھ ہو چکا تو وفاقی وزیر پیٹرولیم نیند سے جاگے اور عوام کو حقیقت حال سے آگاہ کیا کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھنے سے یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا۔ لیکن پانی سر سے گزر چکا تھا ۔میڈیا اور سوشل میڈیا پہ بیٹھے عوام کے درد سے ہلکان بزرجمہروں نے اس بیان کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دی۔یہ ان کے مطلب کی بات ہی نہیں تھی۔جیسے یہ ان کے مطلب کی بات نہیں تھی کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی سے تیل کی قیمتوں پہ براہ راست اثر پڑا ہے۔نہ ہی یہ کہ روپے کی قدر نواز شریف کے ارسطو قسم کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور بعد ازاں محض بجٹ پیش کرنے کے حلف اٹھانے والے صنعت کار مفتاح اسماعیل نے مصنوعی طور پہ کیسے مستحکم کررکھی تھی اوراس سے ملکی خزانے اور عالمی مارکیٹ میں روپے کی ساکھ کس طرح متاثر ہوئی تھی۔ یہ مشکل باتیں کون کرے ۔آسان بات یہ ہے کہ شور مچایا جائے اور اتنا مچایا جائے کہ حقیقت اس کی دھول میں چھپ کر رہ جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ2008 ء سے 2013 ء تک جب اس بلاول کے والد آصف علی زرداری صدر رہے،پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں سوفیصد اضافہ ہوا۔2008ء میں پیٹرول کی قیمت چالیس روپے فی لیٹر اضافے کے ساتھ 2013ء تک 103.70 روپے فی لیٹر ہوگئی۔ ان ہی پانچ سالوں میں ہائی اسپیڈ ڈیزل میں ستر روپے فی لٹر اضافہ ہوا اور یہ ساڑھے اڑتیس روپے فی لیٹر سے ستر روپے اضافے کے ساتھ2013ء تک 109.21 فی لیٹر ہوگیا ۔ ہائی آکٹین کی قیمت میں اکسٹھ روپے فی لیٹر اضافہ ہوا اور وہ پانچ سال میں چوہتر روپے فی لیٹر سے 136 روپے فی لیٹر ہوگیا۔سی این جی کی قیمت پینتیس روپے فی کلو سے چوہتر روپے فی کلو ہوگئی اسی طرح کیروسین آئل کی قیمت میںاٹھاون روپے اضافہ ہوا اور وہ پانچ سال میں اکتالیس روپے فی لیٹر سے سو روپے فی لیٹر تک پہنچ گئی۔لائٹ ڈیزل آئل پینتیس روپے فی لیٹر سے چورانوے روپے فی لیٹر ہوگیا لیکن چونکہ میثاق جمہوریت کے تحت پہلی باری آصف زرداری کی تھی اس لئے عوام کی چیخیں وغیرہ نکلیں بھی تو کسی نے خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔بے شک جمہوریت بہترین انتقام تھا جو عوام سے لیا جارہا تھا۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے نون لیگ کی حکومت کی طرح عوامی پذیرائی حاصل کرنے کے لئے روپے کے ساتھ جادوگری نہیں دکھائی اور فیول کی قیمتوں میں اس اضافے کی بڑی وجہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی رہی جو ان پانچ سالوں میں ڈالرکے مقابلے میں اوسطاً سڑسٹھ روپے سے سو روپے تک بڑھ گئی تھی۔ لیکن یہ طے ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں اس حساب سے نہیں بڑھ رہی تھیں کیونکہ پاکستانی عوام پہ تیل کی قیمتوں کے ساتھ ٹیکس کا بوجھ بھی لاد دیا گیا تھا۔ان پانچ سالوں میں سولہ روپے جی ایس ٹی کے علاوہ محض پیٹرولیم مصنوعات پہ چودہ روپے فی لیٹر تک ہوگیا تھا۔یہی حالات نون لیگ کے دور میں رہے لیکن ان کی خو ش قسمتی رہی کہ اس دوران عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم رہیں۔دوسری طرف وہ روپے کی قدر مصنوعی طور پہ بڑھا کر عوام کو وقتی ریلیف دینے کی کوشش میں مشغول رہے اور خام تیل کی قیمت میں کمی سے دکھاوے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ادائیگی کا توازن بھی بہترین دکھاتے رہے۔سال 2013-14ء میں خام تیل 110.6 ڈالر فی بیرل جبکہ پیٹرولیم مصنوعات 754.2 فی میٹرک ٹن پہ تھیں۔جون 2014ء میں تیل کی قیمت میں اچانک کمی ہونی شروع ہوئی توہمارا امپورٹ بل خودبخود کم ہوگیا اور 14بلین ڈالر سے 2016-17ء تک 5بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔پھر جب تیل کی قیمت بڑھی تو یہی بل 2017-18 ء میں 8.46 بلین ڈالر ہوگیا۔یہی خدا داد تحفہ اس حکومت کو چار سال ملتا رہا اور جو 2016-17ء میں اپنے عروج یعنی 14بلین ڈالر تک پہنچ گیا ۔اس کے باوجود نون لیگ کی حکومت نے صرف اپنے آخری گیارہ ماہ میں دس ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ اور ساڑھے تین ارب ڈالر کا کمرشل بینکوں سے قرضہ لیا جس کابھگتان آج موجودہ حکومت اور عوام بھگت رہی ہے۔بدقسمتی سے امسال خام تیل کی قیمت میں ایک دن میںدو فیصد اضافہ ہوا اور وہ سال کی بلند ترین سطح پہ پہنچ کر ستر ڈالر فی بیرل(تقریبا 160 لٹر) ہوگئی۔یکم مارچ کو عالمی منڈی میں یہ قیمت فی لیٹر آٹھ روپے اضافے کے ساتھ اپریل میں تریسٹھ روپے فی لیٹر ہوگئی جبکہ اوپیک پہلے ہی یہ بتا چکا تھا کہ امسال تیل کی قیمت اوسطا ساٹھ سے اسی ڈالر فی بیرل رہے گی۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عالمی منڈی میں جنوری سے مارچ کے دوران خام تیل مجموعی طور پر 27 فی صد مہنگا ہوا ہے جبکہ گزشتہ سال خام تیل کی قیمت چا رسال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی جبکہ پاکستان میں تحریک انصاف حکومت نے جنوری میں تیل کی قیمتیں پانچ روپے فی لٹر کم کردی تھیں جبکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر حقیقی سطح کے قرین ترین تھی۔اس کے باوجود تحریک انصاف حکومت نے اگست 2018 ء سے اپریل 2019ء تک نے چار مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ جبکہ تین مرتبہ کمی کی ہے جبکہ ایک ماہ قیمتوں کو برقرار رکھا گیا ۔جب تحریک انصاف کی حکومت نے اگست 2018 ء میں اقتدار سنبھالا تھا اس وقت پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 95 روپے 24 پیسے تھی جبکہ آج اس کی قیمت 98 روپے 89 پیسے ہے یعنی محض تین روپے جبکہ اگست میں امریکی ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر 123 روپے تھی جبکہ آج امریکی ڈالر 141 روپے کا ہو چکا ہے۔تیل کی قیمت میں ٹیکس اور کمیشن بھی شامل ہوتے ہیں ۔ ٹیکس نیٹ بڑھانے ، ریونیو اکٹھا کرنے اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے حکومتی اقدامات کامیاب ہوجائیں تو عوام کو تیل کی قیمتوں پہ سبسڈی مل سکتی ہے جس سے مہنگائی میں خود بخود کمی ممکن ہے لیکن پھر چیخیں کسی اور کی نکلیں گی۔