مجھے یاد ہے جب میں کراچی گیا تو میں اور آصف شفیع، فاطمہ حسن کے ہمراہ جمال احسانی کی تیمارداری کے لیے ہسپتال پہنچے تو جمال احسانی نے شعر پڑھا: چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے فاطمہ حسن نے اس کی دلجوئی کرتے ہوئے کہا تھا، نہیں، جمال! تم سٹھیائے بنا نہیں مرو گے۔ جمال احسانی بھی ہنس دیا مگر اس کے منہ سے نکلا ہوا شعر حقیقت تھا اس لمحے مجھے یہ شعر اس لیے یاد آیا کہ آج سلیم آغا قزلباش بھی چل بسے۔ اپنے ہمعصر اور ہمعصر کا جدا ہونا کچھ زیادہ ہی محسوس ہوتا ہے۔ کچھ برس قبل ناہید شاہد اور عباس نجمی ہمیں چھوڑ گئے جو ہم سے کچھ سینئر تھے۔ سلیم آغا قزلباش تو ہمارے ساتھ ٹی ہائوس اور چائنیز لنچ ہوم میں ادبی نشستوں میں آتے رہے۔ ہم فقرہ بازی کرتے۔ تب وہ افسانے اور انشائیے لکھ رہے تھے۔ ان کی کتاب ’’انگور کی بیل‘‘ آئی تھی۔ قارئین کو علم ہو گا کہ وہ عظیم دانشور، ادیب اور شاعر وزیر آغا کے صاحبزادے ہی نہیں صحیح معنوں میں جانشین تھے۔ میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ادب میں دو ہی متحارب ادبی گروپ تھے۔ ایک احمد ندیم قاسمی کا اور دوسرا وزیر آغا کا۔ اس مسابقت میں اچھا ادب بھی تخلیقات ہوا۔ وزیر آغا کی رحلت کے بعد سلیم قزلباش سے رابطہ رہا کہ میں ادبی صفحہ کا انچارج تھا۔ ویسے بھی وزیر آغا پر چھپنے والی ہر کتاب وہ مجھے بھیج دیتا تھا۔ پھر کچھ خاموشی رہی اور اب اچانک خبر آئی کہ وہ بیمار رہنے کے بعد دارفانی سے رخصت ہو گئے۔ ظاہر ہے ایک دھچکہ سا لگا۔ اب یہ بھی تو ہے کہ تعزیت کس سے کریں۔ وہ تو وزیر کوٹ اپنے آبائی گائوں میں دفن ہوئے اور پسماندگان سے واقفیت نہیں۔ میں نے ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا کو فون کیا اور انہوں نے بھی بہت ہی دکھ کا اظہار کیا اور بتایا کہ سلیم آغا قزلباش ان کا شاگرد تھا اور عام شاگرد نہیںبلکہ بہت ذہین و فطین، کلاس میں سرفہرست، اس کا پی ایچ ڈی کا تھیسز جوکہ جدید افسانے کے رجحانات پر تھا خواجہ صاحب نے مکمل کروایا تھا۔ اس کے بعد وہ مسلسل تخلیقی عمل میں رہا۔ ان کے والد ڈاکٹر وزیر آغا بہت سنجیدہ طبع تھے۔ اسی طرح سلیم آغا بھی ان کے نقش قدم پر تھا حتیٰ کہ سر پر پی کیپ بھی اپنے والد کی طرح لیتا تھا۔ دوسرا فون میں نے جناب ڈاکٹر خورشید رضوی کو کیا جو ابھی ابھی باہر کے دورے سے واپس آئے تھے۔ انہوں نے بھی بہت افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اصل دوستی تو وزیر آغا سے تھی اس وقت سلیم چھوٹا تھا مگر اس کی ساری گرومنگ ایک اچھے ماحول میں ہوئی۔ امیر زادے اکثر بگڑ جاتے ہیں لیکن سلیم آغا نے نہایت ذمہ داری کا ثبوت دیا۔ خاص طور پر آغا صاحب کی وفات کے بعد۔ بے شمار زمینوں اور باغات کو دیکھنا، ادبی ورثے کو سنبھالنا اور اپنی تخلیق بھی جاری رکھنا۔ وہ شاہد شیدائی کے ’’کاغذی پیرہن‘‘ میں بھی معاونت کرتے تھے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی نے ڈاکٹر محمد اقبال ثاقب کی وفات پر بھی بہت دکھ کا اظہار کیا۔ یہ بات میرے بھی دل میں تھی یہ سانحات اوپر نیچے ہوئے ہیں۔ ایک روز قبل میں نے سوشل میڈیا پر ڈاکٹر اقبال ثاقب کی تصویر دیکھی کہ چل بسے تو ایک لمحے کے لیے میں خود تصویر بن گیا۔ ایک پوسٹ پر لکھا تھا: صرف ایک شخص کے بچھڑنے سے شہر ویراں دکھائی دیتا ہے کچھ عرصہ پہلے وہ گورنمنٹ کالج لاہور یونیورسٹی میں شعبہ فارسی کے چیئرمین بھی رہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی بتانے لگے کہ وہ محاورتاً نہیں کہہ رہے بلکہ وہ دل سے کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے پوری زندگی میں اتنا خیر خواہ شخص نہیں دیکھا۔ اسے ہر وقت دوسروں کا خیال رہتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کی توصیف ایسے کی کہ میں بھی ششد رہ گیا۔ میری ملاقات ان سے کئی مرتبہ اورینٹل کالج میں ڈاکٹر سلیم مظہر کے کمرے میں ہوئی۔ سلیم مظہر صاحب ہی سے مجھے پتہ چلا کہ ان کا ڈاکٹریٹ کا تھیسز ’’شیخ سعدی کا ہند میں اثرورسوخ‘‘ تھا اور انہوں نے اس حوالے سے کئی آرٹیکلز بھی لکھے تھے۔ وہ نہایت جاذب نظر اور خوبصورت تھے۔ لباس ہر دل عزیز: بلا کی چمک اس کے چہرے پہ تھی مجھے کیا خبر تھی وہ مر جائے گا ان دنوں کچھ پت جھڑ زیادہ ہی ہو گئی ہے کہ ابھی میں دو دوستوں کے حوالے سے غمگین تھا کہ ڈاکٹر صغریٰ صدف کا فون آ گیا کہ پلاک میں عینی راز کا تعزیتی ریفرنس رکھا ہوا ہے۔ یہ شاعرہ بھی چند روز قبل اچانک ہی رخصت ہو گئیں۔ خزاں آثار موسم میں کہ جب سردیوں کا آغاز ہوا چاہتا ہے، مجھے اختر حسین جعفری کا لکھا ہوا کینٹو جو انہوںنے ایذرا پائونڈ کی رحلت پر لکھے تھے یاد آ رہے ہیں، دو تو مجھے یاد ہیں: تجھ کو کس پھول کا کفن ہم دیں تو جدا ایسے موسموں میں ہوا جب درختوں کے ہاتھ خالی ہیں آ تجھے تیرے سبز لفظوں میں دفن کردیں کہ تیرے فن جیسی دہر میں کوئی نو بہار نہیں عینی راز کو مشاعروں ہی میں دیکھا۔ گلشن عزیز کے ساتھ کچھ تصویروں میں۔ سوشل میڈیا پر اندازہ ہوا کہ وہ بہت دوست نواز تھیں اور ان شاعرات کا ایک اچھا خاصا گروپ تھا۔ بات پھر وہیں آئی ہے کہ کل نفس ذائقۃ الموت۔ باقی صرف اللہ کا نام ہے، جو آیا ہے اس نے جانا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی یہاں کیسے رہا۔ اس کے جانے کے بعد لوگ اسے کن لفظوں میں یاد کرتے ہیں۔ ویسے ہمیں تو حکم ہی جانے والے کو اچھے لفظوں میں یاد کرنے کا ہے۔ ویسے بھی ایک فضا ہوتی ہے کہ بعض محبوب قسم کے لوگ اپنی غیر موجودگی میں محسوس کرواتے ہیں۔ لوگ ان کے جانے کے بعد نقصان محسوس کرتے ہیں اور اداس ہو جاتے ہیں۔ رابعہ رحمن جوکہ عینی راز کا ریفرنس کروا رہی ہیں نے اس کے تین خوبصورت شعر سنائے، آپ بھی پڑھ لیں: جان سے اپنی گزر جائیں تو کیا ہوگا ہم تیری یاد میں مر جائیں گے تو کیا ہوگا سوچتی ہوں مجھے ہوا کیا ہے ہر کوئی مجھ کو دیکھتا کیا ہے وہ مجھے چھوڑ کر چلا تو گیا اس سے پوچھو اسے ملا کیا ہے کسی کے جانے کے بعد ہمارے بس میں کیا ہے۔ ہم تو اسے یاد ہی کرسکتے ہیں اور اس کی مغفرت کی دعا سب کچھ مشیت ایزدی ہے۔ ہر کوئی ایک خاص وقت لے کر آیا ہے۔ وہی شیکسپیئر کی زبان میں کہ ہر کوئی دنیا کے سٹیج پر ایک کردار ہے اپنا رول ادا کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ ویسے ہمارے ہاں تو وہ ایک امتحان گاہ ہے جہاں اپنے اعمال سے زاد راہ حاصل کرنا ہے۔