شاید یہی بنانا ری پبلک تھی‘ یا کوئی اسی جیسی‘ جہاں وزیر تعلیم کو جیلوں کی وزارت بھی دے دی گئی۔ کسی نے پوچھا کہ جناب! دونوں وزارتوں میں کیسے کام کریں گے؟ وزیر نے جواب دیا اساتذہ کو جیلوں میں بند کردوں گا! یہی کچھ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ہوا۔ جنرل صاحب نے این ایل سی کے انچارج جرنیل کو ریلوے کی وزارت بھی دے دی! یہیں سے پاکستان ریلوے کے زوال کا آغاز ہوا۔ کارگو سامان رفتہ رفتہ این ایل سی کے ٹرکوں کو منتقل ہو گیا۔ ٹرک این ایل سی کے اپنے بھی تھے اور یہ پرائیویٹ ٹرک بھی مارکیٹ سے لے لیتی تھی۔ پوری دنیا میں ریلوے کے منافع کا بڑا سورس کارگو ہوتا ہے۔ یہ کارگو ریل سے گیا تو پیچھے نقصان رہ گیا۔ آج این ایل سی کا وہ غلبہ تو نہیں رہا مگر پورے ملک کی شاہراہوں پر ٹرک مافیا کا قبضہ ہے۔ گلگت سے کراچی تک لاکھوں ٹرک شاہراہوں پر قابض ہیں۔ ٹریفک آخری درجے کی لاقانونیت کا شکار ہے۔ ایسے میں ریلوے کا وزیر کوئی سنجیدہ وژن رکھنے والا اور سیاست سے بے نیاز شخص ہونا چاہیے تھا۔ عمران خان صاحب نے یہ وزارت شیخ رشید کے سپرد کر دی۔ شیخ صاحب کا اصل میدان سیاست ہے۔ سیاست بھی اس طرز کی جس کے بانی وہ خود ہی ہیں۔ ان کی سیاست کو زندہ رکھنے میں الیکٹرانک میڈیا نے بہت بڑا کردار ادا کیا۔ باتیں وہ دلچسپ اور لچھے دار کرتے ہیں۔ جس چینل پر انٹرویو دیتے یا بات چیت کرتے نظر آ جائیں۔ اس کی ریٹنگ کا گراف اس دن بلند ہو جاتا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہے کہ سعد رفیق نے ریلوے کی وزارت میں محنت کی۔ اس کالم نگار نے اس وقت بھی اس کا اعتراف کیا جب مسلم لیگ نون برسر اقتدار تھی۔ سعد رفیق نے چارج لیا تھا تو ریلوے جاں بہ لب تھی۔ خواجہ نے ریلوے کو اس جانکنی کی کیفیت سے نکالا اور عوام میں ریلوے کا اعتماد بحال کیا۔ ہاں! اس وقت بھی ہم نے نشاندہی کی تھی کہ پنڈی اور لاہور کے ریلوے اسٹیشنوں پر انگریزوں کے زمانے سے سیڑھیاں چلی آ رہی جو خستہ شکستہ ہونے کے علاوہ عورتوں بوڑھوں اور بچوں کے لئے تکلیف دہ بھی ہیں۔ ان کی جگہ پر برقی سیڑھیاں(Escalators)نصب کرنی چاہئیں۔ شیخ رشید یہ کام کر کے سرخرو ہو سکتے تھے۔ مگر ایک سال کے دوران ان کی ٹوپی میں سرخاب کا کوئی پر نہیں لگ سکا۔ تحریک انصاف عملی طور پر مسلم لیگ قاف اور شیخ رشید صاحب کے ہاتھوں میں یرغمال بنی ہوئی ہے شیخ صاحب کو کوئی نہ کوئی وزارت تو دینا ہی پڑے گی۔ کوئی ہے جو وزیر اعظم کو باور کرائے کہ ریلوے ان سے لے کر کسی ایسے محنتی اور انتھک شخص کو دے جو پریس کانفرنسیں کرنے کے علاوہ کام بھی کر سکے اور ریلوے کو صحیح معنوں میں آگے لے جا سکے! دوسری تبدیلی جو وزیر اعظم کو کرنی چاہئے‘ سول سروس ریفارمز کمیشن کی سربراہی کے حوالے سے ہے۔ ایک برس ہو گیا اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ بیورو کریسی کے برہمن گروپ نے دوسرے گروپوں میں اضطراب کی کیفیت بدرجہ اتم پیدا کر دی ہے۔ ایک ہی گروہ کا غلبہ ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ وفاقی سیکرٹریٹ ایک Melting-Potتھا ایسی کٹھالی تھی جس میں ساری دھاتیں آ کر پگھل جاتی تھیں۔ پولیس سروس‘ ایف بی آر‘ آڈیٹر جنرل‘ ریلوے ‘انفارمیشن‘ کامرس اینڈ ٹریڈ‘ پوسٹل‘ سارے گروہوں سے وفاقی سیکرٹری منتخب کئے جاتے تھے۔ متنوع تجربوں کی بنیاد پر حکومتی کارکردگی کو بے پناہ فائدہ ہوتا تھا۔ پوری بیورو کریسی کی نمائندگی ہوتی تھی۔ آج حکومت نوکر شاہی کے ایک رسوائے زمانہ گروپ کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔ نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ ریفارم کمیشن کی سربراہی جن ڈاکٹر صاحب کو سونپی گئی وہ بھی اصلاً اِسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یوں بیورو کریسی‘ مجموعی طور پر اس ریفارم کمیشن سے کسی کارخیر کی توقع بھی نہیں کر رہی؟ ان ڈاکٹر صاحب کے نزدیک آئیڈیل اور بہترین دور پنجاب میں شہباز شریف صاحب کا تھا کیا وزیر اعظم اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟ لگتا ہے وزیر اعظم شہباز شریف صاحب کی محنت اچھی کارکردگی اور متحرک طرز حکمرانی کے قائل ہیں۔ اسی لئے میاں صاحب کے ممدوح کو اپنی کابینہ میں لے کر ریفارم کیمشن کا کام ان کے سپرد کیا ہے ! اس سے قطع نظر وزیر اعظم کے اپنے مفاد میں ہے کہ ان صاحب کو فی الفور اس منصب سے ہٹائیں! کسی تعلیم یافتہ سیاست دان کو اس کام پر مامور کریں تاکہ وہ بیورو کریسی کے سارے گروہوں سے منصفانہ اور یکساں سلوک کرے۔ تیسری تبدیلی اطلاعات کے شعبے میں ناگزیر ہے۔ اس وقت جو صورت حال ہے اسے ’’ٹاپ ہیوی‘‘ کہتے ہیں۔ آلٹو گاڑی میں وزیر اعظم نے ٹرک کا انجن فکس کر دیا ہے۔ فردوس عاشق اعوان مشیر ہیں جو بمنزلہ وزیر ہیں! ان کے ساتھ گریڈ بائیس کا وفاقی سیکرٹری کام کر رہا ہے۔ مگر ان سب کے علاوہ وزیر اعظم نے اپنے ایک ذاتی دوست کو بھی اس شعبے کے اوپر بٹھا رکھا ہے۔ ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم! یہ صاحب ہر حکومت میں رہے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تشویش ناک امر یہ ہے کہ یہ صاحب نیب کے ریڈار پر ہیں۔ ان پر غیر قانونی تقرریوں اور دو ہزار تین سوستانوے (2397) ملین روپے کے تصرف بے جا کے الزامات ہیں۔ اس ضمن میں نیب‘ وزارت اطلاعات کو دو مراسلے بھی بھیج چکی ہے‘ اس صورت حال میں وزیر اعظم پر لازم ہے کہ ان صاحب کو ہٹا کر کرونی ازم(دوست نوازی) کا الزام اپنے سر سے ہٹائیں۔ کابینہ میں تبدیلیوں کی افواہیں اڑی ہوئی ہیں۔ وزیر اعظم کی اپنی ترجیحات ہیں اور اپنی پسندناپسند جس کا انہیں پورا حق حاصل ہے مگر کچھ حقائق ناقابل تردید ہوتے ہیں۔ انہیں درخورِ اعتنا نہ گرداننا دانش مندی نہیں ہے! بدقسمتی سے تحریک انصاف کی حکومت پر یہ مثل صادق آتی جا رہی ہے۔ کہ ہر کہ در کان نمک رفت نمک شد! جو اعتراضات تحریک انصاف والے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی حکومتوں پر کیا کرتے تھے۔ وہ اب ان کی اپنی حکومت پر کئے جا رہے ہیں اور بجا طور پر کئے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنی پارٹی کے ارکان کو اسمبلی میں حکومت پر تنقید کرنے سے بھی منع کر دیا ہے اور ان کے اردگرد جن حضرات نے حصار قائم کر رکھا ہے‘ وہ بھی کلمہ حق کہنے سے گریزاں ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر حکمران کی طرح وزیر اعظم بھی حقائق سے بے خبر ہیں اور عوام کے تاثرات سے ناواقف! کوئی نہیں جو کہے کہ ؎ سُن تو سہی جہاں میں ہے تیر افسانہ کیا کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا کم از کم مذکورہ بالا تین تبدیلیاں ناگزیر ہیں ورنہ بقول ظفر علی خان ؎ حذر ہیں اور بھی واجب مگر کہاں تک میں بتائے جائوں یہ تم کو فلاں فلاں سے بچو