یہ شہر کے ایک مشہور سپر سٹور کا منظر ہے، جہاں دنوں میں ہی عید کی خریداری والا رش لگا رہتا ہے۔ ان دنوں لاک ڈائون کی کیفیت میں یہاں خریداروں کا رش ہے۔ آس پاس کے رہائشی علاقوں کے خوشحال لوگ بھی خریداری کے لیے یہاں آتے ہیں لیکن ایسا نظم و ضبط میں نے پہلے کبھی مشاہدہ نہیں کیا جیسا اس روز دیکھا۔ مردوں اور عورتوں کی علیحدہ علیحدہ قطاریں اور ان میں دو دو فٹ کے فاصلے صبر سے کھڑے ہوئے خریدار اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ کسی کو آگے بڑھ کر اندر جانے کی جلدی نہ تھی۔ قطار میں کھڑے ان خریداروں پر سپر جراثیم کش سپرے ہو رہا تھا۔ ساتھ ہی عوامی شعور اور آگہی کے لیے اعلان بھی ہو رہا تھا کہ احتیاطی تدابیر کی یاد دہانی کروائی جا رہی تھی۔ فاصلہ رکھنے کی درخواست کی جا رہی تھی اور ساتھ ہی انتظار اور قطار کی زحمت پر معذرت کی جا رہی تھی۔ میرے پاس تو قطار اور انتظار کے لیے وقت اور صبر کی کمی تھی، سو میں ایک دوسرے گروسری سٹور پر چلی گئی، وہاں بھی گاہکوں کا ٹمپریچر نوٹ کیا جا رہا تھا۔ سپرے کیا جا رہا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی سینٹی ٹائزر لگے ہوئے تھے۔ یعنی پورا اہتمام کیا تھا کہ آنے والے خریدار وبا کے موسم میں حفاظتی تدابیر اختیار کریں۔ لوگ صفائی کا پہلے سے زیادہ خیال رکھنے لگے ہیں۔ بچوں میں بھی ہاتھ دھونے کی عادت پختہ ہو رہی ہے۔ وہی بچے جو روز شام کو کہیں باہر جانے کی ضد کرتے تھے اب اتنے سمجھدار ہو گئے ہیں کہ ان کے والد صاحب اگر ضروری میٹنگ یا کام سے باہر جائیں تو انہیں سمجھاتے ہیں۔ آپ لاک ڈائون کے قانون کو کیوں توڑ رہے ہیں۔ گھریلو کاموں کے لیے پہلے ملازمہ پر انحصار زیادہ تھا۔ اگر وہ بتائے بغیر چھٹی کر لیتی تو گویا پورے دن کا شیڈول متاثر ہو جاتا۔ ذہنی پریشانی اور کھپائی الگ ہوتی۔ اس طرح کی نان پروڈکٹو، سرگرمی میں دن کا آغاز ہونے سے، صبح کی ساری مثبت توانائی ضائع ہو جاتی۔ جو تخلیقی کاموں پڑھنے لکھنے میں صرف ہوتی ہے کم از کم میرے ساتھ ہوتا تھا۔ اب میری طرح بہت سی خواتین ایسی ہیں جنہوں نے اس لاک ڈائون میں ٹائم کی بہتر مینجمنٹ سیکھ لی ہے۔ اگرچہ میں شدت سے انتظار میں ہوں کہ نارمل زندگی شروع ہو۔ میرا مددگار واپس آ جائے لیکن یہ طے ہے اس تجربے کی بنیاد پر وقت کو بہتر انداز میں مینج کروں گی۔ کچھ شادیاں جو ان تاریخوں میں طے تھیں وہ اتنی سادگی، سہولت اور آسانی سے ہوئیں کہ لوگوں کی لاکھوں روپے کی بچت ہو گئی دوسری صورت میں فضول کے لمبے چوڑے فنکشن پر ضائع ہوتے۔ اس کا شکرانہ ایسے ہی ممکن ہے اس بچی ہوئی رقم کا کچھ حصہ ناداروں اور ضرورت مندوں پر خرچ کیا جائے۔ کورونائی دور میں جو چند اچھی باتیں ہم بحیثیت قوم اور بحیثیت ایک فرد کے سیکھ رہے ہیں،ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم قطار میں کھڑا ہونا سیکھ رہے ہیں۔ یقینا اس کو عادت بنتے ہوئے کچھ وقت لگے گا۔ یہ تو بیماری اور وائرس سے ڈرکر قوم کچھ قطار بنانے لگی ہے ورنہ ہماری قوم کی گھٹی میں نظم و ضبط کہاں۔خدا کرے کورونا بیماری مکمل قابو میں آ جائے، مگر میری خواہش کہ یہ حفاظتی تدابیر جو آج کل ہم اختیار کیے ہوئے ہیں یہ کچھ عرصے تک یونہی چلتی رہیں یہاں تک کہ ہم قطار بنانا سیکھ جائیں۔ صفائی کی اہمیت سے آگاہ ہو جائیں۔ غیر ضروری مرغن کھانوں سے پرہیز کرنے لگیں۔ گھروں میں مرد حضرات بیویوں کے ساتھ کام کرنے کو مجبوری نہیں بلکہ بوجھ بانٹنے کی ایک خوشگوار ذمہ داری سمجھیں، اسی طرح رات گئے بازار دکانیں اور کھابے کھانے والی قوم، کچھ عرصہ اور اس پابندی میں رہے تو شاید یہاں بھی سورج طلوع ہونے کے ساتھ بازار اور دکانیں کھلنا شروع اور رات دس بجے مارکیٹیں بند ہو جائیں۔ وقت اور توانائی کی بے بہا بچت ہو گی۔ لوگوں کو رات گئے خریداری کرنے کی بد عادت ہے۔ یہاں کچھ مارکیٹیں دوپہر میں بھی نہیں، بلکہ سہ پہر میں کھلتی ہیں اور پھر صبح دو بجے تک کھلی رہتی ہیں، آج کل ہرطرف سکون ہے۔ کورونا کے وار نے اس بگڑی ہوئی قوم کو سیدھا کر دیا ہے۔ خدا کرے کہ بیماری کا پھیلائو رک جائے لیکن اس سے جو کچھ ہم نے سیکھا ہے وہ ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائے۔ Time killکرنا انگریز کا محاورہ ہے مگر وقت کا جو قتل عام ہم بحیثیت قوم کرتے ہیں اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ اب سڑکوں پر ٹریفک کا خوفناک ازدحام نہیں، فضا کو زہریلے دھوئیں سے بھرتی ہوئی گاڑیاں نہیں، تو فضا بھی نتھری ہوئی تازگی میں سانس لے رہی ہے۔ اگلے روز ہمارے بڑے بھائی جان نے ایک آئوٹ آف دا باکس قسم کا مشورہ دیا ،کہنے لگے کہ کورونا دور کے گزرنے کے بعد بھی، یوں ہو کہ ہر ماہ تین دن کا لاک ڈائون ہونا چاہیے۔ تین دن لوگ اپنے گھروں میں رہیں۔ پٹرول کی بچت، فضا میں آلودگی سے بچت، کے ٹریفک کے بہائو میں کمی تو شور کی آلودگی میں کمی، غرض ضروری کاموں کے علاوہ غیر ضروری چیز تین دن کے لیے رک جائے گی ،تو انسان قدرت کے اس بندوبست پر جو بوجھ ڈالے رکھتا ہے اس کمی آئے گی۔ فضا زہریلے مادوں صاف ہو گی۔ ہوا شفاف ہو جائے گی۔ انسان اس سے بڑا تحفہ اور خود کو کیا دے سکتا ہے۔ ذرا سوچیں یہ کورونا عہد گزر جائیگا۔ زندگی معمول پہ آ جائے گی تو وہی لا یعنی دوڑ، بے سمت سفر، قطار سے عاری قوم، راتوں کو بارہ بجے ٹھنڈی کولڈ ڈرنک کے ساتھ گرم مرغن کھانے اپنے معدوں میں انڈیلتے ہوئے لوگ، بازاروں میں شاپنگ کی ہیجان خیزی۔ ٹریفک کا لامتناہی ہنگام، دھواں چھوٹتی گاڑیوں کی قطاریں، فضا میں بڑھتی ہوئی آلودگی۔ اس مشکل دور میں زندگی کی سمت سیدھی ہو رہی ہے، ہم بہت کچھ سیکھ رہے ہیں۔ قوم یہ سبق مگر جلد بھول جائے گی۔ کورونا کے بعد، تین دن کا از خود لاک ڈائون۔ ایک غیر معمولی آئوٹ آف دا باکس آئیڈیا ہے۔ آپ اتفاق کریں نہ کریں لیکن میرے دل کو بہت بھایا ہے۔ اس لیے کہ جو عقل ہم نے کورونا عہد میں سیکھی ہے میری خواہش ہے کہ وہ ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائے۔ فطرت پر ہم جو بھیانک بوجھ ڈالے رکھتے ہیں۔ اسے کم کرنے کی کوئی تدبیر ضرور سوچنی چاہیے۔ کوئی ایسی راہ ضرور نکالنی چاہیے جس سے ماحول پر غیر ضروری بوجھ کم ہو اور فطرت کو سانس لینے کا موقع ملے۔