وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار کا یہ اقدام قابل تعریف ہے کہ انہوں نے راجن پور ، حافظ آباد اور پاکپتن کیلئے تین یونیورسٹیوں کی منظوری دی اور اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ ان یونیورسٹیوں کیلئے ابتدائی طور پر فنڈز بھی جاری کر دیئے ہیں۔ پاکپتن یونیورسٹی کا نام بابا فرید کے نام پر رکھا جا رہا ہے جو کہ بہتر ہے۔ میں نے پاکپتن یونیورسٹی کیلئے بیسیوں کالم لکھے، میری یہ دلیل ہوتی کہ ننکانہ صاحب یونیورسٹی بن سکتی ہے تو پاکپتن میں بابا فرید یونیورسٹی کیوں نہیں؟ اس سلسلے میں میں نے لکھا تھا کہ بابا گورو نانک، بابا فرید کے عقیدت مند تھے اور ہم مسلمانوں کیلئے یہ بات کسی اعزاز سے کم نہیں کہ سکھ مذہب کا پیشوا مسلمانوں کے ایک روحانی پیشوا کا عقیدت مند ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ بابا فرید کے اشلوک سکھوں کی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب کا حصہ ہیں۔ خوشی ہے کہ ہماری درخواستوں کو شرف پذیرائی حاصل ہوا اور بابا فرید یونیورسٹی بننے جا رہی ہے۔ یونیورسٹی آف حافظ آباد یہ بھی بہت اچھا قدم ہے اور اس کا نام بھی خوبصورت ہے۔ اسی طرح راجن پور کی یونیورسٹی کو بھی یونیورسٹی آف راجن پور ہونا چاہئے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس یونیورسٹی کا نام کوہ سلیمان یونیورسٹی رکھا جا رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ نام میں کیا رکھا ہے اصل بات کام سے ہے۔ یہ بھی درست ہے مگر کوئی نام اگر کسی مخصوص نقطہ نظر اور تفریق کے حوالے سے سلیکٹ کیا جائے تو نا مناسب ہے، اداروں کے نام میرٹ پر ہونے چاہئیں جیسا کہ چاکر خان کے نام سے ڈی جی خان میں انسٹیٹیوٹ بنایا گیا، وہاں میرٹ حضرت سخی سرور کا ہے۔ انسانی خدمت کے حوالے سے چاکر خان کی خدمات کا مجھے علم نہیں البتہ حضرت سخی سرور کی عظیم خدمات ہیں اور پوری دنیا میں ان کے چاہنے والے اور ان کے ماننے والے کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ اسی طرح راجن پور میں بننے والی یونیورسٹی کا نام یونیورسٹی آف راجن پور بہتر ہے بصورت دیگر ضلع راجن پور سے تعلق رکھنے والے کسی بزرگ کے نام پر بھی اس کا نام ہو سکتا ہے۔ راجن پور کا ذکر چلا ہے تو اس خطے کے مشاہیر کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا اور میں یہ بھی عرض کروں کہ اس علاقے میں بڑے بڑے سردار، جاگیردار، تمندار موجود ہیں اور وہ انگریز دور تے آج تک بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوتے آرہے ہیں مگر میں اُن کا نام نہ لوں گا کہ انسانی خدمت کے حوالے سے ان کا کوئی کارنامہ نہیں۔ اور اگر سچ پوچھئے تو وسیب کے لوگوں سے غیر انسانی سلوک کے ان کے تذکرے جگہ جگہ پڑھنے کو ملیں گے۔ میں بتانا چاہتا ہوں کہ عظیم حریت پسند مولانا عبید اللہ سندھیؒ کا ایک تعلق راجن پو رکی تحصیل جام پور سے بھی ہے کہ آپ کی پیدائش 10 مارچ 1882ء موضع چلیا والی ضلع گوجرانوالہ میں ہوئی۔ اُن کا تعلق سکھ مذہب سے تھا۔ ابھی سندھی صاحب کی پیدائش سے چار ماہ قبل والد کا انتقال ہو گیا۔ دادا نے پرورش کی دو سال بعد وہ بھی فوت ہو گئے۔ والدہ کوٹلہ مغلاں تحصیل جام پور کی رہنے والی تھیں۔ اسی بناء پر وہ واپس آگئیں اور تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رہا اور مولانا سندھی نے مڈل سکول جام پور سے نمایاں پوزیشن میں مڈل کا امتحان پاس کیا۔ یہ ایک بہت بڑا حوالہ ہے کہ انگریز سامراج سے جو ہم نے آزادی حاصل کی اُس میں مولانا عبید اللہ سندھی کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ ان کے نام سے یونیورسٹی بنا دی جائے تو یہ بہت بڑا کام ہو گا۔ راجن پور کی دیگر شخصیات میں ایک نام ایٹمی سائنسدان اور ماہر تعلیم ڈاکٹر محمد عبداللہ خان کا ہے۔ موصوف اگست 1921ء میں محمد خمیسیٰ کے گھر جام پور میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ہوت بلوچ قبیلے سے تھا۔ بچپن میں والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا غریبی اور یتیمی کے حالات میں ہمت نہ ہاری اور تعلیم جاری رکھی۔ 1947ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم ایس سی (کیمسٹری) کی ڈگری اور گولڈ میڈل حاصل کئے۔ 1949ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں لیکچرر تعینات ہوئے۔ 1954ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور برطانیہ میں 1955 تا جون 1967ء تک بطور سائنسدان تحقیقی کارنامے سر انجام دیئے۔ ان کے سائنسی کارناموں کو آج بھی یاد رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح جسٹس محمد منیر خان کا تعلق بھی ضلع راجن پور سے تھا وہ 1920ء میں کوٹلہ نصیر میں پیدا ہوئے۔ اُن کے فیصلوں کو آج بھی یاد رکھا جاتا ہے۔ راجن پور کے مشاہیر میں ایک نام سید نور علی ضامن حسینیؒ کا ہے ۔ آپ 23 اکتوبر 1906ء کو سید غلام مہدی کے گھر داجل میں پیدا ہوئے۔ حسینی صاحب کی پیدائش سے 4 ماہ پہلے ان کے والد نابینا ہو گئے۔ گھر کی ذمہ داری دادا کے ناتواں کاندھوں پر آن پڑی مگر سال بعد وہ بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ عسرت کے ان حالات میں سید نور علی ضامن حسینی نے تعلیم حاصل کی۔ انجینئر بنے ایس ڈی او، ایکسین ، ایس ای حتیٰ کہ وہ مغربی پاکستان کے ایڈیشنل چیف انجینئر کے عہدے پر پہنچے اور اس دوران آبپاشی کے بہت بڑے پراجیکٹ ان کے ہاتھوں سے مکمل ہونے کے علاوہ رحیم یار خان سمیت بہت ساروں کی ٹائون پلاننگ بھی ان کے حصے میں آئی۔ عمر کے آخری حصے میں وہ بھی نابینا ہو گئے مگر انہوں نے اپنی بصیرت سے معارف سرائیکی کے نام سے ایک کتاب لکھی جو آج ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی سرائیکی کے نصاب میں شامل ہے۔ ذکر چلا ہے تو راجن پور کے بارے میں عرض کروں کہ قصبہ راجن پور کی بنیاد 1732ء میں اس علاقے کے بزرگ مخدوم شیخ راجن نے رکھی۔ راجن پور کے قریب عالمی شہرت یافتہ صوفی شاعر خواجہ فرید کا قصبہ کوٹ مٹھن ہے۔ اس قصبے میں دیگر صوفی بزرگ خواجہ خدا بخش کوریجہؒ ، خواجہ دُر محمد کوریجہؒ و دیگر بزرگوں کے مزارات بھی موجود ہیں۔ اسی طرح خواجہ فریدؒ کے مرشد حضرت خواجہ فخر جہاںؒ کا مزار بھی کوٹ مٹھن میں ہے۔ آپ کا نام غلام فخر الدین اور لقب فخر جہاں ہے، آپ فارسی زبان کے شاعر تھے اور اوحدی تخلص کرتے تھے۔ 1819ء میں آپ کی ولادت اور 1883ء میں وصال ہوا۔ آپ حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے مرشد اور بڑے بھائی تھے۔ آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔ میں نے چند شخصیات کا ذکر کیا ہے، اگر ہم تلاش کریں تو ایسی سینکڑوں شخصیات موجود ہیں ۔ اُن کے کارناموں کو اجاگر کرنے کیلئے اداروں کے نام انہیں شخصیات کے نام پر ہوں تو بہتر ہے۔ سابق ڈپٹی کمشنر راجن پور غازی امان اللہ نے اس حوالے سے بہت کام کیا تھا۔ آج وہ ریٹائرڈ ہو چکے ہیں مگر وسیب کے لوگ اُن کو آج بھی یاد کرتے ہیں۔