الحاج خالد ندیم رحمۃ اللہ علیہ ایک نیک طینت اور صوفی منش شخصیت کے مالک تھے ۔آپ کے والد گرامی حاجی عبد العزیز قادری رحمۃ اللہ علیہ اور والدہ ماجدہ محمد بی بی بھی انتہائی صالح شخصیات تھے ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ 6اکتوبر 1949ء کو لائلپور فیصل آباد میں حضرت بابا لسوڑی شاہ سرکار رحمۃ اللہ علیہ کے مزار سے متصل اپنے آبائی گھر میں پیدا ہوئے ۔آپ کی پیدائش سے قبل آپ کے والدین عمرہ شریف کی سعادت حاصل کرنے کے لیے بحری جہاز کے ذریعے حجاز مقدس پہنچے ، مدینہ منورہ میں قیام کے دوران آپ کی والدہ ماجد ہ نے خواب میں امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیدہ خاتون جنت سلام اللہ علیہا کے مزارات کی زیارت نصیب کی اور انہوں نے دیکھا کہ سیدہ خاتون جنت سلام اللہ علیہا کے مزار پاک سے ایک ہاتھ رونما ہوا جس میں دوعدد کھجوریں تھیں ۔ اور کھجوریں آپ کی والدہ کو عطا کی گئیں ۔او ر ایک نداسنی کہ تمہارے ہاں دواولادیں ہونگی ایک بیٹا جن کا نام خالد ندیم ہو گا اور دوسری بیٹی ہو گی ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بچپن سے نیک طبیعت کے حامل تھے ۔ قادری صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دینی تعلیم اپنے دادا جی اور حافظ منظور حسین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ (مدفون جنت البقیع)سے حاصل کی۔ اور پھر حافظ منظور حسین نقشبندی مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے دست اقدس پہ بیعت کی اورروحانی فیوض وبرکات حاصل کیں ۔ اپنے پیر ومرشد کی تعلیمات اور شریعت مطہرہ پر ساری زندگی کاربند رہے ۔ آپ نے گورنمنٹ ہائی سکول فیصل آباد (موجودہ جی سی یونیورسٹی)سے ابتدائی تعلیم کا آغاز کیادوران تعلیم آپ انتہائی ذہین ترین طالبعلم شمار کیے جاتے تھے ۔میٹرک کے امتحا نات میں انگریز ی کے پرچہ میں نگران نے آپ کو کہا کہ آپ نقل سے پیپر کررہے ہیں تو نگران نے پیپر سنانے کا مطالبہ کیا تو انہوں نے مکمل پیپر کے جوابات انہیں سنا کر حیران کردیا جو آپ کی خداداد صلاحیتوں اور محنت کا واضح ثبوت ہے ۔اور آپ نے گورنمنٹ کالج سے ایف ا ے کا امتحان اعلی نمبروں سے پاس کیا ۔ اپنے آبائی کاروبا ر بان اور سوتر سے عملی زندگی کا آغار کیا ۔سلسلہ عالیہ چشتیہ سے گہری وابستگی کی بنا پراپنے سٹور کانام حضرت خواجہ خواجگان ،ہند الولی حضرت خواجہ محمد معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت سے اجمیر بان سٹور منتخب کیا اور زندگی کی آخری سانس تک اسی کام سے منسلک رہے ۔دوران طالبعلمی آپ رحمۃ اللہ علیہ ہاکی کے بہترین کھلاڑی تھے نامور ہاکی پلیئر منظور الحسن سمیت ملکی نامور کھلاڑیوں کے ساتھ آپ کو کھیلنے کا موقع ملا جو اس دور میں بہت بڑا اعزاز تھا ۔اور بہت سے نامور کھلاڑیوں سے ان کے گہرے مراسم تھے ۔ آپ کے قریبی دوست اور درویش الحاج حافظ محمد صدیق صاحب دامت بر کاتہم العالیہ بیان کرتے ہیں کہ حاجی صاحب بچپن سے باقاعدہ پنجگانہ نماز اور نماز تہجد ادا فرمایا کرتے تھے ۔ ان کی زبان پہ ہمیشہ ذکرالہی اور درود شریف جاری و ساری رہتا ۔اپنے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے اوراد وظائف کو باقاعدگی کے ساتھ پڑھتے تھے ۔آپ ساری زندگی اللہ تعالی کی عبادت وریاضت ،امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت اور اہل بیت اطہار ،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اولیاء کرام سے گہری محبت وعقید ت فرماتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے صوفیاء کرام کے مزارات پہ حاضری دیناان کامعمول تھا ۔ انہوں نے اپنی زندگی میں 26 عمرے اور امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سے بارگاہ اقدس میں حاضری کا شرف حاصل کیا ۔خفیہ انداز سے صدقات وخیرات کرتے ۔ صوفیاء کرام کی مجالس میں باقاعدگی کے ساتھ حاضر ہوتے ، ظاہر ی طور پر شریعت مطہرہ کی مکمل پابندی فرماتے تھے ۔ عبادات انتہائی خشوع و خضوع سے بجا لاتے اور زندگی میں عاجزی و انکساری ان کا نمایاں وصف تھا۔ پروگرام صبح نور کو بطور وظیفہ سماعت فرماتے ۔ والدین کا حددرجہ احترام کیا کرتے تھے اور خصوصا والدہ محترمہ کوبوسہ دیا کرتے تھے اور اکثر والدہ ماجدہ شکایت کرتیں کہ جب آپ میرے قدموں کو بوسہ دیتے ہیں تو آپ کی داڑھی مبارک میرے قدموں پہ لگ جاتی ہے ۔تو آپ کہتے کہ اس سے میرے دل کو سکون ملتا ہے ۔ اپنے بہن بھائیوں اور رشتہ داروں کے ساتھ ایک مثالی حسن سلوک کرتے تھے ۔بچوں کی تعلیم کے معاملے میں انتہائی حساس اور ذمہ دارباپ کا کردار ادا کیا ۔یہ وجہ ہے کہ آپ کے چار وں بیٹے اور دونوں بیٹیاں حافظ قرآن ہیں ۔ آپ اپنی اولاد کو امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت وعشق ،اہل بیت اطہار ،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اولیاء کاملین کی محبت کے درس دیتے تھے ۔یہ وجہ ہے کہ آپ کی اولاد میں ان عظیم نفوس قدسیہ سے محبت و عقید ت کا عکس نظر آتا ہے ۔ رمضان المبارک کے آغاز میں اپنی بیٹی کو مخاطب کرکے کہا کہ اس دنیا میں میرا وقت مکمل ہوچکا ہے اور بالاخر ایک ماہ بعد پانچ جون 2020ء کو اپنے خالق حقیقی کے اذن پر لبیک کہتے ہوئے اس دنیا فانی سے رخصت ہوگئے ۔آپ کی نماز جنازہ میں مذہبی ،سماجی اور کاروباری شخصیات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔