ہدایت درکار ہے ہر لمحہ اور ہر جگہ پر انسان کو اور ہدایت کی ضرورت سے انکار کرنا گویا فطرت کی بنیادی اقدار کا منہ چڑانا ہے۔ روز اول ہی سے انسان اور انسانی معاشرے کی مصلحین اسی ہدایت کی شفاف روشنی کی تلاش میں ہیں۔ عقل ناقص کو چراغ راہ کرتے ہیں اور کبھی جذبات کی قوت کو اپنی منزل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ عقل و جذبات کے توازن کے لیے اس انسان ضعیف البنیان کے لیے کوئی مستحکم ترازو ہے اور نہ ہی کوئی معتدل معیار طبیعت ہے، اسی بے بنیاد وجود اور لڑکھڑاتے فکر کے ساتھ یہ انسان معاشروں کو بلند انسانی معاشرہ بنانا چاہتا ہے لیکن کیسے ممکن ہے کہ وہ خالق عقل و جذبات کی صدائے ہدایت سے دور رہ کر انسانیت کے دستور کی فہم بھی پا سکے اور کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنی محدود اور فنا پذیر حیات کو لا محدود کائنات کی بے کرانی کے موافق کر سکے۔ ایک وسیع کائنات جس کی کامل خبر سے بھی بے بہرہ ہے۔ یہ انسان اس کی حیات سے پہلے بھی عدم تھا اور حیات کے بعد بھی عدم ہے۔ وجود کی حقیقت اور وجود کائنات کا تسلسل پھر اس وجود کی رنگینیاں انسان اور انسان کی تاریخ کو اپنے جذب و کشش کے دائرے میں گرفتار کئے ہوئے تھے۔ انسان اپنی پیدائش میں ضعیف تھے۔ اپنی فطرت میں جلد باز ہے۔ بنانے والے نے اسے اپنی مخلوقات میں احسن تقویم بنایا اور اسے اپنی نہایت کا حقدار ٹھہرایا۔ ذرا شعور بیدار ہو جائے تو اپنی ذات پر اتنا بھروسہ کرتا ہے کہ اپنے سوا اسے کچھ نظر نہیں آتا اور مایوسی میں گھر جائے تو نجات کی امید سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ یہی اس کی حیات کے مثبت و منفی اثرات اس کی منزل بلند کی راہ میں دائمی رکاوٹ ہیں۔ بکھرے افکار اور غیر مرتب جذبات سے اپنی ذات و صفات کو غیر متوازن رکھنا ہی اسے لطف حیات کا دستور جاوداں نظر آتا ہے۔ اسی لیے اپنے خالق، رازق، مالک اور دائمی منعم کو بھول جاتا ہے۔ مگر اس انسان کے دائمی منعم اور مالک حقیقی نے اس کی حیات کو ثمر بار بنانے کے لیے زندگی کے ہر مرحلے پر روشنی کا اہتمام خاص اور اتنا خوبصورت بلیغ انتظام کیا ہے کہ دل کی ہر دھڑکن میں روشنی پر پروانہ وار نثار ہونے کی تمنا کرے۔ اس روشنی کا ذکر خالق وحدہ لا شریک نے کتاب آخر میں فرمایا کہ ’’حقیقت یہی ہے کہ تمہاری جانب ایک عظمت والا نور آ گیا اور ایک حقیقت عیاں کتاب آ گئی ہے۔ یہ من جانب اللہ نور کیا ہے۔ ایک وجود روشن ہے جس کی مثال مخلوقات میں عنقا ہے جس کی نظیر کارخانہ تخلیق میں نہ کبھی تھی۔ نہ ہے اور نہ ہوگی۔ ؎ صفحہ دھر پہ صورت گر قدرت نے امیر ان کی تصویر وہ کھینچی کہ قلم توڑ دیا مصور حقیقی کا دعویٰ ہے کہ وہ اللہ ہے اور دعویٰ کی ایزادیت یہ ہے اللہ نورالسموت والارض۔ زمین و آسمان کا نور اللہ تعالیٰ ہے۔ کائنات کے آفاق پر اسی مصور حقیقی کے انوار نے تخلیقات کی دھنک سے حسن و خوبی کے بساط بچھائی ہے۔ زمان و مکان کی روشنی کا اہتمام بھی اسی مصور حقیقی ہی کی توجہات اور عطائے بے پایاں کا محتاج ہے۔ پھر کرم بالائے کرم یہ ہوا کہ اپنی بارگاہ خاص سے اپنے محبوب ترین رسولؐ کو بھیجا۔ کائنات کے ہر ذرے کو تابناکی عطا فرمانے کے لیے سراج منیر یعنی وہ چراغ جسے اللہ نورالسموات والارض نے تجلیات ذات سے روشن کیا اور پھر تمام مخلوقات کی روشنی کا اہتمام اس سراج منیر سے وابستہ کردیا۔ اب کائنات کا سبب اول اور مقصود کائنات اسی سراج منیر یعنی حضور محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس ہی قرار پاتی ہے۔ حقیقت تسلیم کرنے میں ذرا پس و پیش ہوتی ہے تو انسان کو خواہ مخواہ تجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔ آسان زندگی کا راز تو اعتبار اور اتباع ہی میں پوشیدہ ہے ۔اعتبار اور اتباع کا سب سے بڑا مرکز اور علامت بلند حضور محمد مصطفی ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ یہ ذات بلند اور یہ نام رفیع اللہ تعالیٰ کے ذاتی نام اقدس کے ساتھ ہی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور اس نام رفیع کا نام خداوند کے ساتھ ہونا ایمان کا دستور نامہ ہے۔ ذرا توجہ فرمائیے کہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے جو کلمات بطور اقرار و تسلیم ادا کئے جاتے ہیں۔ وہ یہی ہیں نا لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ یہی اقرار و تسلیم ایمان ہے اور یہی کلمہ طیبہ اعتبار عمل ہے۔ اسی کا نام عقیدہ ہے اور اسی عقیدے کے ثمرات نجات اور فوز عظیم ہے۔ حضور سید کونین ﷺ کی تخلیق، ولادت، بعثت، تبلیغ اور تعلیم ایمان و عمل کی ابتدا اور انتہا کو اتنی یقینی قوت فراہم کرتی ہے کہ انسان کو اپنی خدائی نیابت کا یقین ہو جاتا ہے۔ ذات مصطفی ﷺ تخلیقات خداوندی کا سرنامہ ہے۔ ہدایت آسمانی کا سب سے بلند سراپا اسی سرکار کریم ﷺ کی ذات حمیدہ صفات ہے۔ اہل علم، صاحبان تحقیق، معرفت حقیقی کے علمبردار اور بحر اخلاقیات کے شناور اس امر مسلم پر متفق ہیں کہ انسانیت کا سب سے بڑا رہبر اور نجات کا سب سے عظیم سہارا وہ وجود اقدس ہے۔ جسے خالق اعظم نے ’’لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوہ حسنہ۔ کہ تمہارے لیے محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات پاک ہی ہے سیرت و کردار کا حسن و جمال رکھ دیا گیا ہے۔‘‘ آج کا مقدس و معتبر دن اپنے بے نور چراغوں کو ضیاء دینے کا یوم مبارک ہے۔ آج کا روز سعید اپنی اندھیر کائنات کو نور عزم سے آراستہ کرنے کا وہ یقینی موقع ہے کہ جب مقدروں کو بلندی عطا کی جاتی ہے۔ ولادت مصطفی ﷺ کے موقع پر کائنات میں تبدیلیوں کی ہوائیں چلنے کا آغاز ہو گیا تھا اور خدائی انعامات کے وعدوں کے ایفا کا سلسلہ قائم ہو گیا تھا۔ ولادت کی برکات ہر اس راسخ العقیدہ مسلمان کو نصیب ہوتی ہیں اور اس کے سیرت و کردار میں یہ روشنی انقلابی طریقے پر اترتی ہے۔ انسان اور انسانی سماج کو کامل توازن اور خوبصورت اعتدال کے ساتھ منزل بلند تک رسائی حضور سید عالمین ﷺ کی برکت ہی سے نصیب ہوئی۔ انسانی معاشرے کو جس بلند ترین فراست سے مثالی معاشرے کا رنگ انسانیت عطا فرمایا اس کی نظیر پوری تاریخ انسانیت میں نظر نہیں آتی۔ روحانیت کی بلندی اتنی کہ سفر معراج نے کائنات کے ظاہر و باطن کے حقائق کو طشت ازبام کردیا۔ مادی اور روحانی علوم کے پیاسے اسی سفر مبارک کے چشمہ فیض رساں سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ اپنے خالق کی معرفت کے روشن راستے بھی اسی معجزے کی برکت سے کشادہ پاتے ہیں۔ امیر ملائکہ جبرائیل سید البشر ﷺ کے ہم رکاب ہیں۔ کرہ ارضی کے اختتام پر افلاک کی رفعتوں کو چشم زدن میں عبور کرنا اور پھر وقت کی تقسیم سے ماورا کائنات کا مشاہدہ کرنا نصاب معرفت کا عرفانی نوشتہ ہے۔ یہ تو کمال بشریت ہے جیسے اقبال نے بیان کیا ؎ سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی ؐ سے مجھے کہ عالم بشریت کی زد میں گردوں ورنہ حقیقت کیا ہے؟ حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے فرمایا کہ ہماری حقیقت سے سوائے رب وحدہ لاشریک کے کوئی اور واقف ہی نہیں۔ مادی حیات میں غلبہ حق کے لیے کفار سے پنجہ آزمائی ہوئی تو تاریخ بتاتی ہے کہ جنگ میں بھی غلبہ امن کو بہرحال ترجیح دی گئی ہے۔ دور سعید میں کل 82 معرکے ہوئے۔ حق غالب اور باطل مغلوب رہا۔ جانی نقصان کی تعداد 1018 ایک ہزار اٹھارہ ملتی ہے۔ 259 شہید ہوئے اور 759 واصل فی النار ہوئے۔ تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب، پرامن انقلاب،فلاح انسانیت کا انقلاب۔ بدقسمتی اور حرماں نصیبی یہ ہے کہ اس امت کا استاذ، ناصح، مصلح اور خود مادی مزاحمت کی خطرناک زد میں ہے۔ تعلیمی ادارے براہ راست انسانیت سوز سرگرمیوں کو فروغ دے رہے ہیں۔ مغرب سے فکری خیرات کے خوگر تعلیمی اداروں میں ہولی اور دیوالی کی تقریبات ہوتی ہیں۔ کوئی پوچھنے والا بھی نظر نہیں آتا، مسلمانوں کے ممالک میں کفار کی خوشی کے لیے حکمران سے لے کر پابند رسوم عام شہری بھی اپنے دین کی زریں روایات کو فراموش کر رہے ہیں، اب یاد نبی ﷺ کے چراغ مدہم کرنے کے شعوری اور لاشعوری اقدامات کو ترقی کا نام دیا جاتا ہے۔ فقیر راقم ایک مطالبہ ارباب بست و کشاد سے کرتا ہے کہ ملی ثقافت کو ممتاز کرنے کے لیے اور احساس دین و ملت اجاگر کرنے کے لیے حکم جاری کیا جائے کہ ہر سرکاری یا غیر سرکاری ادارہ میلاد النبی ﷺ کی تقریبات ضرور منعقد کرے۔ اسی دن خاص طور پر ہر تعلیمی ادارے میں تقریبات ہوں۔ اگلے روز چھٹی کی جائے۔ عادت ہے اور بری عادت ہے ہماری اجتماعی کہ ہم چھٹی کا دن تو راحت و آرام میں گزارتے ہیں۔ امتیازی تعطیل کے مقاصد ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ آج کا دن یوم تشکر ہے۔ روز انبساط ہے کہ میلاد النبی ﷺ کی برکات سے اپنے باطن کے اندھیروں میں چراغ ایمان و یقین روشن کرتے ہیں۔