سب کے لہجے اکھڑے ہوئے ہیں، خطے میں ہر کوئی پریشان دکھائی دے رہا ہے۔وجہ کیا ہے؟ گذشتہ ایک صدی سے امریکہ دنیا کے لاتعداد ممالک سے دم دبا کر بھاگا ہے، لیکن ان تمام ملکوں کے پڑوسی ممالک میںکبھی اضطراب اور بے چینی دیکھنے میں نہیں ملی۔ افغانستان میں ایسا کونسا آتش فشاں ہے جو امریکہ کے چلے جانے کے بعد اچانک لاوا اگلنے لگے جائے گا۔ یہی تو وہ لاواہے جو ایک جہنم کی آگ کی صورت ہے جو میرے اللہ نے ان تمام لوگوں کے لیئے اسی دنیا میں سلگا رکھی ہے جو کسی بھی خطے میں اسلام اور اس کے قوانینِ شریعت کی بالادستی کی تھوڑی سی بھی روشنی کو اپنے لیئے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔خوف کی ایک لہر ہے جو حکمرانوں سے لے کر سول سوسائٹی کے پروردہ نمائندوں اور مغربی افکار کی چکاچوند میں چندھیائے ہوئے دانشوروں تک سب میں نظر آرہی ہے۔ یہ لوگ اپنے اندر کے خوف اور دیوالیہ پن کی بنیاد پر افغانستان کی عوام کو طرح طرح کے مشورہ دے رہے ہیں۔ کسقدر عجیب بات ہے کہ جو چیز وہ خود اپنے لیئے پسند نہیں کرتے، اسے افغانستان میں امن و خوشحالی کے نسخے کے طور پر تجویز کرتے ہیں۔ عمران خان کی ’’سیاسی بصیرت‘‘ کے کیا کہنے۔ کیا وہ اس بات پر راضی ہو ں گے کہ پاکستان میں استحکام لانے کیلئے پی ٹی آئی، مسلم لیگ (نون)، پیپلز پارٹی اور دیگر تمام جماعتیںمل کر ایک وسیع البنیاد حکومت قائم کریں تاکہ پاکستان میں ترقی کا پہیہ آگے بڑھے اور نفرتیں ختم ہوں۔انہیں یہ مشورہ دوتو وہ ایک دم غصے سے لال پیلے ہوکر اپنی مشہور عام گردان شروع کر دیں گے ، ’’یہ این آر او مانگتے ہیں‘‘، ’’میں این آر او نہیں دوں گا‘‘، ’’یہ بددیانت چور اور کرپٹ ہیں، میںان کے ساتھ حکومت میں نہیں بیٹھوں گا‘‘۔ لیکن افغانستان کے بارے میں انہیںوسیع البنیاد حکومت بنانے کا مشورہ دیتے ہوئے ایک لمحہ دیر نہیں لگتی۔ یہ مشورہ صرف ایک وزیر اعظم عمران خان ہی نہیں دے رہے، ہر ملک کی سیاسی قیادت کی زبان پر جاری ہے۔ وہ تبصرہ نگار، جس نے افغانستان کی مٹی کو دور سے بھی نہیں دیکھا، جسے افغانستان میں آباد اقوام کے ماضی کا علم ہے اور نہ ہی ان کی موجودہ معاشرتی، قبائلی اور مذہبی اقدار کا کچھ اندازہ ہے ،وہ بھی اُچھل اُچھل کر افغانستان کے بارے میں مشورے دے رہا ہے۔ ان سیاسی رہنماؤں اور دانشوروںکو اس وقت ایک وسیع البنیاد افغانستان کی تجویز یاد نہ آئی۔ جب بیس سال پہلے اکتوبر 2001ء میں امریکی اور نیٹو افواج، جنرل دوستم اور شمالی اتحادکے بھارتی خفیہ روابط،ایرانی پاسداران کی حزبِ وحدت کے ساتھ عسکری تعلق کی بیساکھیوں پر سوار ہو کر افغانستان پر چڑھ دوڑیں تھیں۔ ان عالمی قوتوں کا ایک ہی نعرہ تھا کہ جو افغان گروہ ہمارے ساتھ مل جائے گا، صرف اسے ہی افغانستان میں رہنے کا حق ہے، باقی سب ’’دہشت گرد‘‘ ہیں، ہم انہیں کچل کر رکھ دیں گے۔ پرویز مشرف، زرداری، نوازشریف اور عمران خان کے بیس سالوں میں کبھی کسی ایک شخص کو بھی افغانستان میں’’وسیع البنیاد‘‘ حکومت کے الفاظ یا د نہ آئے۔ امریکہ، نیٹو اور سی آئی اے کے دسترخوانوں کی روٹیاں توڑنے والے حامد کرزئی ہوں،اشرف غنی، عبد اللہ عبداللہ یا کوئی اور، ان سب کو دنیا کے ہر ملک کے دارالحکومت میں پذیرائی ملتی رہی۔ انہیں افغان جمہوری الیکشنوں کا منتخب نمائندہ بنا کر عزت دی گئی۔ حالانکہ ان کی کل ’’اوقات‘‘ یہ تھی کہ اگر نیٹو افواج افغانستان چھوڑ دیتیں تو وہ ایک گھنٹے کیلئے بھی وہاں نہ رہ پاتے۔ ان کی اسی ’’اوقات‘‘ کا اندازہ، صرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب طالبان کے ساتھ افغانستان سے نکلنے کیلئے مذاکرات شروع ہوئے تو اشرف غنی سمیت تمام امریکی ’’وفاداروں‘‘ کو ان مذاکرات میں دروازے کے چوکیدار کے طور پر بھی مدعو نہیں کیاگیا۔ کتنے بدقسمت تھے یہ ’’امریکی وفادار‘‘ جنہوں نے امریکہ اور نیٹو افواج کے کہنے پر اپنے افغان بھائیوں کا بیس سال تک خون بہایا، لیکن جاتے ہوئے انہیں مشورے کے قابل بھی تصور نہ کیا گیا۔ تاریخ کروٹ لے رہی ہے، ایک نیا سورج طلوع ہو رہا ہے۔ ماوراء النہر کے علاقے ،جن میں رسول اکرم ﷺ کے دور میں ،موجودہ ازبکستان، تاجکستان اور جنوب مغربی قازقستان شامل تھے، فارس ِقدیمی جس میں موجود ایران کا فرات کے کناروں تک کا علاقہ شامل تھا، قدیم سندھ جس میں جہلم تک پاکستان کا علاقہ شامل تھااور ہند جس میں بھارت کا شمال مغربی خطہ آتا ہے، اس بڑے خطے کے عین وسط میں سید الانبیائﷺکی بشارتوں کی امین سرزمین افغانستان جسے اس دور میں ’’خراسان‘‘کہتے تھے، وہاں اب ایک ایسی طاقت کے اقتدار کا سورج طلوع ہونیوالا ہے جو تمام جدید اندازوں کے اعتبار سے، پوری دنیا کی اجتماعی عسکری قوت اور دنیا بھر کی فوجی ٹیکنالوجی کو ذلت آمیز شکست دے کر خالصتاً اللہ پر توکل کی قوت کے سہارے برسرِ اقتدار آنے والی ہے۔ اقتدارِ کے بعد،ان بندگانِ خدا کا اعتماد دیدنی ہوگا۔ ماوراء النہر اور خراسان یہ دو علاقے ہی تو ہیں جہاں سے احادیث کے مطابق لشکر ملحمۃ الکبریٰ کے لیئے روانہ ہوں گے۔تاریخی طور پر یہی خطہ تھا جس نے سندھ اور ہند پر اپنی بالادستی ہمیشہ قائم رکھی۔ شہاب الدین غوری اور داتا گنج بخش کا خطہ ۔پانی پت کی آخری لڑائی بھی اپنے دور کی جدید ٹیکنالوجی کی چالیس ہزار برق رفتا رافغانوں کے ہاتھوںذلت آمیزشکست کا نوحہ ہے۔ اس لیئے کہ اس جنگ میں بھی احمد شاہ ابدالی کا مقصد صرف اور صرف مسلمانان ِہند کو بڑھتے ہوئے ہندو اقتدار سے نجات دلانا تھا،’’ نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی‘‘۔ دنیا میں اسوقت دو سو کے قریب ممالک ہیں۔ جن ممالک میں جمہوریت ہے ،انکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس کی اکثریت ہے وہ حکومت کرے، خواہ بھارت یا اسرائیل کی مسلمان اقلیتیں ظلم سہیں۔ جن ملکوں میں پارٹی طاقت یا فوجی آمریت ہے، خواہ چین میں ایک پارٹی حکومت ہو یا مصر کی فوجی آمریت، وہاں بھی کوئی وسیع البنیاد حکومت کی بات نہیں کرتا۔ لیکن افغانستان میں طالبان سے دنیا بھر کے دو سو ممالک، پڑوسی حکمران اور عالمی طاقتیںاتنی خوفزدہ ہیں کہ ہر روزان سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے وہ تمام گروہوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں۔ جوں جوں وقت گذرتا جارہا ہے، افغانستان میں 1995ء والی تاریخ ایک بار پھر تیزی سے رقم ہو تی جارہی ہے۔وہ دن جب بغیر ایک قطرہ خون بہائے افغانستان کے عوام طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال رہے تھے۔ آج بھی ویسا ہی منظر ہے۔ اس لیئے کہ خودافغان قوم سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ انہیں امن، سکون، اطمینان کون دے سکتا ہے۔ چالیس سالوں میں اس قوم نے ٹھونک بجا کر دیکھ لیاہے کہ صرف اور صرف طالبان انہیں امن دے سکتے ہیں۔ روزانہ ایک نئے ضلع کی فوج طالبان کی ’’امارات اسلامی افغانستان‘‘ میں رضاکارانہ طور پرشامل ہو کر اعلان کرتی ہے کہ ہمارے نجات دہندہ صرف اور صرف طالبان ہی ہیں۔ اسوقت جو ذوق و شوق افغانستان میں نظر آرہا ہے، آج سے ٹھیک 26سال بھی پہلے ایسا ہی ولولہ نظرآتا تھا جب خانہ جنگی میں ڈوبے افغانستان کو طالبان نے امن کا تحفہ بخشاتھا۔اسوقت دنیا بھر کی عالمی طاقتیں انہیں خونخوار نظروں سے دیکھ رہی تھیں اور افغانستان پر حملے کے طریقے ڈھونڈ رہی تھیں۔لیکن آج اس وقت میں بہت بڑا فرق ہے۔ 1995ء میں جو عالمی قوتیں افغانستان کو خونخوار نظروں سے دیکھتی تھیں، آج وہی عالمی طاقتیں شرمندگی کے عالم میںاپنا سامان سمیٹے، شکست کا بدترین داغ لیئے افغانستان سے پسپا ہو رہی ہیں۔ تاریخ کروٹ لے رہی ہے۔ خطے میں ایک ایسی قوت کا ظہور ہو رہا ہے جس نے پوری دنیا کی متحدہ عسکری قوت اور جدید دنیا کی مشترکہ ٹیکنالوجی کو شکست دی ہے۔بقول اقبالؒ جہانِ نو ہو رہا ہے پیدا، وہ عالمِ پیرمر رہا ہے جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا تھا قمار خانہ