اسلام آباد (خبرنگار) سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس عدالت عظمی میں چیلنج کردیا۔ آئین کے آرٹیکل 184/3کے تحت دائر پٹیشن میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف مس کنڈکٹ کے الزام میں سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر صدارتی ریفرنس کو غیر شفاف،بدنیتی پر مبنی اور غیر قانونی قرار دیا اور سپریم جوڈیشل کونسل کو مزید کارروائی سے روک دیا جائے ۔ جمعہ کو دائر کی گئی آئینی درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ کے خلاف دائرکئے گئے ریفرنسز بد نیتی پر مبنی ہیں۔ کسی بھی جج کو اپنے خودمختار اہلخانہ کے غیر ملکی اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنا لازم نہیں ،حکومت کی جانب سے دائر ریفرنس براہ راست عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہے ۔ درخواست سینئر وکلا حامد خان اور صلاح الدین احمد خان نے تیار کی۔ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ فاضل جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی شفاف اندازمیں نہیں چل رہی ،تاثر ابھر رہا ہے کہ بیرونی دباؤ پر کارروائی آگے بڑھائی جارہی ہے ۔ درخواست میں عدالت کے سامنے 35سوالات اٹھائے گئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ کیا کسی انٹیلی جنس ادارے یا فوج پر عدالتی تنقیدکسی جج کو ہٹانے کیلئے بنیاد بن سکتی ہے ؟درخواست میں فیض آباد دھرنا کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حکم اور اس پر تحریک انصاف کی دائر نظرثانی درخواست کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔درخواست کے مطابق حکومتی ریفرنس کامیاب ہوتا ہے تو اعلیٰ عدلیہ کی آزادی پر تباہ کن اثرات ہونگے ۔ درخواست میں کہا گیا ہے اسلام آباد اور کراچی بارزکی وہ درخواستیں بھی ابھی تک سپریم کورٹ میں سماعت کیلئے مقرر نہیں کی گئیں جن میں جسٹس صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کی استدعا کی گئی ہے ۔ بہتر ہوگا فل کورٹاوپن سماعت کرے تاکہ خدشات کو رد کیا جاسکے ۔ریفرنس کا درخواست گزار وحید ڈوگر حکومتی حلقوں کا آلہ کار ہے جبکہ اس نے اپنی شکایت کے ساتھ ٹھوس دستاویزی ثبوت فراہم نہیں کئے ۔ یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے ایف آئی اے اور ایف بی آر نے کس اختیار کے تحت عام شہری کو جج کی ذاتی خفیہ دستاویزات فراہم کیں ؟ خدشہ ہے کہ ان معلومات کو بلیک میل کرنے کا ذریعہ بنایاجاسکتا ہے ۔درخواست میں کہا گیا ہے وزیر اعظم کی تجویز پر صدر کی طرف سے جج کے خلا ف شواہد اکٹھے کرنے کا حکم آنا چاہیئے تھا جو نہیں دیا گیا۔