اسلام آباد(خبر نگار)سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور دیگر کی آئینی درخواستوں کی سماعت آج تک ملتوی کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ کیا صدر مملکت کے خلاف پٹیشن قابل پزیرائی ہے ؟جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10رکنی فل کورٹ بینچ کے روبرو دلائل دیتے ہوئے سندھ بار کونسل کے وکیل رضا ربانی نے موقف اپنایا کہ ججوں کے خلاف انکوائری کا واحد فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے ،ایف آئی اے ،ایف بی آر اور آئی ایس آئی کو جج کے خلاف انکوائری کا نہیں کہا جاسکتا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال اٹھایا کہ استغاثہ کا حاصل کردہ مواد صدر مملکت کو بھیجا گیا اور صدر نے معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا ،تو کیا لگائے گئے الزامات کا جواب نہیں آنا چاہئے ؟کیا جج کے خلاف ریفرنس دائر کرنے اور نوٹس جاری کرنے کے طریقہ کار کو چیلنج کرنے سے الزامات ختم ہوجائیں گے ؟کیا ججوں کے مواخذے کے معاملے میں صدر کا کردار ربڑ اسٹمپ کا ہے ؟ اگر جج کو ہٹانے کے معاملے میں صدر کا کردار ربڑسٹمپ کا ہے تو پھر یہ خطرناک صورتحال ہوگی کیونکہ صدر مملکت انتظامیہ کا حصہ نہیں، ان کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے توعدلیہ کی آزادی کو تحفظ فراہم کرتی ہے ۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 209میں صدر کو صوابدیدی اختیار دیا گیا ہے ۔ رضا ربانی نے کہا کہ یہ صوابدید محدود ہے ۔جسٹس بندیال نے کہا کہ جج کی مدت ملازمت محفوظ نہیں توعدلیہ کی آزادی نہیں رہے گی،عدلیہ کی آزادی مقدس ہے ۔رضا ربانی نے کہا کہ ججوں کے مواخذے کے معاملات میں انتظامی اختیار کو قبول کیا گیا تو عدلیہ کی آزادی کا مقصد فوت ہوجائے گا، آزاد عدلیہ کے بغیر ملک ایک بنانا ریپبلک بن جائے گا،وقت کیساتھ صدر کے اختیارات کو محدود کیا گیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا بادی النظر میں صدر کو ٹھوس مواد فراہم کیا گیا، مواد قانونی طریقے سے جمع کیا گیا یا نہیں یہ الگ معاملہ ہے ،سپریم جوڈیشل کونسل خود بھی مواد اکٹھا کرنے کا کہہ سکتی ہے ۔ عدالت کے استفسار پر رضا ربانی نے بتایا کہ وہ آج اپنے دلائل نمٹا دیں گے ۔