مولانا فضل الرحمن کا دھرنا وہ اونٹ بن گیا ہے جسے خود بھی علم نہیں کہ اسے کس کروٹ بیٹھنا ہے۔کینہ شتر معروف ہے۔ اونٹ کبھی نہیں بھولتا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا اور موقع ملتے ہی حساب چکتا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔کوئی کچھ کہتا رہے مولانا فضل الرحمن کا دھرنا ان کے تئیں کامیاب ہی ہے۔ وہ اس وقت میڈیا اور حکومت کی توجہ کا مرکز ہیں۔ہم جیسے بیسیوں لال بھجکڑوں سمیت کسی کو معلوم نہیں وہ کیا کرنے والے ہیں اور غالبا انہیں بھی معلوم نہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جو ان کی طاقت بھی ہے اور کمزوری بھی۔ یہاں مولانا کو دیگر پہ یہ فوقیت حاصل ہے کہ ان کے پاس کھونے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔جس شخص کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہ ہو اس کے متعلق ذوالفقار علی بخاری تاریخی الفاظ کہہ گئے ہیں جنہیں کسی چپراسی نے دھمکی دی تھی کہ وہ انہیں بدنام کرکے رکھ دے گا اور وہ اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔متحدہ حزب اختلاف بٹی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس قدر کہ اس کے متعلق کوئی تردید کرنے کو بھی تیار نہیں۔ شب اول ، جب ابھی مولانا کا قافلہ راستے میں تھا، بلاول بھٹو خاموشی سے اسلام آباد آئے اور تقریر کرکے چلے گئے۔ہمیشہ کی طرح بے روح اور ضمیر کی آواز سے محروم تقریر۔ ان کے سامنے مدارس کے جوانوں کا جم غفیر تھا۔بھٹو کے نواسے نے کب سوچا ہوگا کہ اسے کبھی باریش ، ڈنڈا بردار شریعت کے علمبرداروں کے ہجوم سے خطاب کرنا پڑے گا۔جہاں اکا دکا امارات اسلامی افغانستان کے علم بھی لہراتے نظر آرہے ہوں گے۔ مجبوری بھی انسان سے کیا کیا کرواتی ہے۔ یہی ذوالفقار علی بھٹو تھے جن کے خلاف مخلوط اپوزیشن تحریک کو بڑی چابکدستی سے نفاذ نظام مصطفی کی تحریک میں بدل دیا گیا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام مذہب کے نام پہ جس شدت اور جذبے سے اکھٹے اور متحرک کئے جاسکتے ہیں ،کوئی دوسرا محرک کارگر نہیں ہوسکتا۔ اسی بھٹو کا نواسہ غالبا آنکھ بند کئے آموختہ دہرائے جارہا تھا لیکن اس وقت اس کی ذہانت کی داد دینی پڑی جب اس نے کہا کہ اس کے نانا نے قوم کو چار اصول دئیے تھے جن میں ایک تھا مساوات ہماری معیشت ہے۔ سوشلزم کا ترجمہ مساوات کرنا ڈکشنری سے زیادہ ماحول اور سیاست کی مجبوری معلوم ہوئی۔جب حالات ایسے ہوجائیں کہ نظریہ کو نظریہ ضرورت کے تحت توڑ مروڑکر قابل قبول بنانے کی شعوری کوشش کی جائے کیونکہ سامعین و حاضرین اسے ناپسند ہی نہیں کرتے بلکہ اس کے نام سے بدکتے بھی ہوں تو اسے سلیس اردو میں نازک صورتحال کہتے ہیں۔ اس نازک صورتحال سے ساری اپوزیشن دو چار ہے جسے یہی نہیں سمجھ آرہی کہ اسے کرنا کیا ہے۔ وہ مولانا کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہے اور مولانا ہیں کہ کچھ بتانے کو تیار ہی نہیں۔ دو دن کی مہلت کے بعد ان کا بلند آہنگ لہجہ جس میں وہ اداروں کو انگلی اٹھا کر وارننگ دیتے نظر آئے اچانک ہی سنگ سانگ ہوگیا ہے۔ نون لیگ اپنے ہی مسائل میں گرفتار ہے ۔ شہباز شریف نے اپنے گر د ایک محتاط دائرہ کھینچ رکھا ہے جس سے نکلتے وہ نظر نہیں آتے۔ اب مریم نواز کی ضمانت منظور ہوگئی ہے اور اہم بات یہ ہے کہ یہ ضمانت ان کے والد کی تیمارداری کے لئے منظور نہیں ہوئی یعنی وہ مولانا کے دھرنے میں شمولیت کے لئے بالکل آزاد ہیں۔ اسلام آباد میں مولانا نے ماحول بنانے کی پوری کوشش کی ہے۔مریم نواز اس سے یقینی طور پہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی لیکن چچا جان کوغالبا یہ گوارا نہیں ہوگا۔ اگر دونوں اسٹیج پہ اکھٹے ہو بھی گئے تو کیا وہ نون لیگ کے کارکنان کو اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت کریں گے؟برادر خورد کا ریکارڈ اس سلسلے میں کچھ قابل رشک نہیں ہے جب برادر کلاں اوراس کی دختر نیک اختر لندن سے گرفتاری دینے لاہور پہنچے اور ان کا قافلہ وہ امریکی بیڑا بن گیا جو کبھی نہیں پہنچا، ریگل چوک پہ کھڑا دھوپ سینکتا رہا۔ انہیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اہلیان لاہور اس وقت بھی نہیں نکلے جب انہیں نکلنا چاہئے تھایعنی جس وقت ان کا محبوب و مقبول قائد لندن سے کشتیاں جلا کر آرہا تھا اور اس وقت بھی نہیں جب ا س نے ووٹ کو عزت دو والے بیانیے کو سڑکوں پہ آزمانا چاہا تھا۔ وہ اب کس لئے نکلیں گے جبکہ نون لیگ کا مضبوط ووٹ بینک سمجھے جانے والے تاجر طبقے کے ساتھ، جو واقعتا موجودہ حالات میں حکومت کے لئے مسئلہ بن سکتا تھا، حکومت کامیابی کے ساتھ کم سے کم تین ماہ کے لئے معاملات نمٹا چکی ہے اور اب فوری طور پہ ان کے پاس حکومت کے خلاف سڑکوں پہ آنے کا کوئی جواز موجود نہیں۔ ویسے بھی کاروباری طبقے کو سیاست سے اسی وقت غرض ہوتی ہے جب تک سیاسی اشرافیہ اس کے مفادات میں پالیسیاں بناتی رہے۔کاروبار چلتے رہنا چاہئے۔ان کی بلا سے بوم بسے یا ہما رہے۔اب لے دے کر ایک مذہب کارڈ رہ گیا تھا ۔ مولانا فضل الرحمن نے اسے بڑی کامیابی سے کھیلا ہے۔ یہ فقرہ میں نے دل پہ پتھر رکھ کے لکھا ہے کیونکہ میرا موقف یہ ہے کہ عمران خان نے پہلے دن سے ہی ریاست مدینہ، اصول دین، اسلامی نظام انصاف اور خلفائے راشدین کو نمونہ حکمرانی بنا کر اور اقوام متحدہ میں مسئلہ ناموس رسالت پہ قابل تحسین خطاب کرکے اس کارڈ کی دھجیاں ہی بکھیر دی تھیں جس پہ لبرل طبقہ عمران خان سے انتہائی متنفر نظر آتا ہے۔ اسکے باوجود مولانا فضل الرحمن نے اپنے سادہ کارکنان جن کے لئے اپنے قائد کا فرمان الہامی درجہ رکھتا ہے، کے ذہن میں وہ کچھ بٹھا دیا ہے جسے ٹائم بم کہا جاسکتا ہے۔وہ پورے خلوص اور شرح صد ر کے ساتھ عمران خان کو یہودی ایجنٹ، گستاخ رسول اور گستاخ صحابہ سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے محترم قائد نے انہیں ایسا سمجھا دیا ہے۔اس ذہنیت کو موقع پہ استعمال کرنا مولانا صاحب کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور یہ وہ خطرناک کھیل ہے جس کا انجام بہر حا ل اچھا نہیں ہوگا۔ عمران خان 126 دن کا دھرنا دے کر حکومت میں آئے ۔ وہ دھرنے کی نفسیات جانتے ہیں اور ان کے کارکن بھی۔ انہیں پہلے دن سے معلوم تھا کہ یہ دو چار دن کی بات نہیں۔انہوں نے اپنا اسٹیمنا اور معمولات اسی طرح ترتیب دے رکھے تھے۔ دھرنا چار حلقوں سے شروع ہوا اور اس سے قبل تمام فورم آزمائے جاچکے تھے۔ پاناما پیپرز آنے کے بعد عمران خان نے اپنے کارکنوں کو کرپشن کے اعداد و شمار رٹانے شروع کردیے تھے۔ دھرنا قیامت تک تو رہنا نہیں تھا۔ آپ اسے فیس سیونگ کہیں یا کچھ اور، جے آئی ٹی پہ بات ٹل گئی تھی۔ اس دھرنے میں جس کے مطالبات مبہم ہیں، جس میں اپوزیشن بھی شریک نہیں، فیس سیونگ کے لئے کس واقعہ کی ضرورت پڑیگی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ شاید یہی اپوزیشن کے تذبذب کی وجہ بھی ہے کیونکہ مولانا کے پاس تو کھونے کیلئے کچھ نہیں ہے۔