اگلے دن بھی وہ قبر پر موجود تھا۔ لوگوں نے اسے ہٹانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ نہ اٹھا۔ تھک ہار کر گائوں والوں نے فیصلہ کیا کہ اسے قبر پر ہی کھانے پینے کا سامان دیا جایا کرے۔ ایک عجیب بات یہ تھی کہ وہ ہر رات بارہ بجے سے کچھ منٹ پہلے قبر سے اٹھتا اور زمیندار کے گھر میں داخل ہو جاتا۔ ٹھیک بارہ بجے وہ اس مقام پر ہوتا جہاں اس کا مالک اور زمیندار چائے پیا کرتے۔ کچھ دیر بعد وہ وہاں سے اٹھتا اور واپس قبر پر پہنچ جاتا۔ کتنی ہی سردیاں اور کتنی ہی گرمیاں اس نے کھلے آسمان تلے قبر پر گزاریں اور آخر ایک دن وہ مر گیا۔ گائوں والوں نے اس کی قبر بنائی اوروہاں یادگار نصب کر دی۔ حال ہی میں ایک کتے کی ویڈیو دیکھی جو مالک کی قبر پر انسانوں کی طرح ہچکیاں لے لے کر رو رہا تھا۔ ہچکیاں لیتے لیتے اس کی گھگھی بندھ گئی۔ کوئی بھی آنکھیں بند کر کے یہ ویڈیو دیکھتا تو یہی سمجھے گا کہ کوئی آدمی ہے جس کی روتے روتے گھگھی بند ہو گئی ہے۔ ٭٭٭٭٭ جانوروں میں ہم مرغی کو سب سے حقیر اور عقل سے بالکل خالی سمجھتے ہیں اور ساتھ ہی یہ خیال بھی کرتے ہیں کہ اسے دکھ تکلیف کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ایک صاحب نے مرغا پال رکھا ہے اور اسے کتے یا بلی کی طرح پیار کرتے ہیں۔ یہ صاحب صبح نوکری پر چلے جاتے ہیں اور شام کو پانچ بجے کی بس سے واپس آتے ہیں۔ بس سٹاپ ایک چوراہے پر ہے۔ چوراہے سے وہ گلی نکلتی ہے جس میں ان کا گھر ہے۔ گھر سے چوراہا سو گز کے فاصلے پر ہے۔ بس ٹھیک پانچ بجے آتی ہے۔ پانچ بجنے میں ایک منٹ ابھی باقی ہوتا ہے کہ مرغا گھر سے نکلتا ہے اور بس سٹاپ کا رخ کرتا ہے۔ جونہی بس آتی ہے‘ مرغا دوڑکر‘ اڑتا ہوا مالک کے گلے سے جا چمٹتا ہے اور پروں کو اس کے گرد بازوئوں کی طرح حمائل کر دیتا ہے۔ کبھی بس پہلے آ جائے تو مالک مرغے کے پہنچنے سے پہلے گلی میں داخل ہوتا ہے لیکن مرغا اسے دور سے دیکھ لیتا ہے اور بے تابی سے دوڑ لگاتا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ مرغوں میں شعور نہیں ہوتا۔ آسٹریلیا میں ایک خاتون نے اپنی مرغی کو پنجوں سے پیانو بجانا سکھایا ہے۔ ایک بڑے کانسرٹ ہال میں جب مرغی نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا تو ہزاروں کا مجمع ششدر رہ گیا‘ کچھ کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے‘ کچھ پتھر کی طرح ساکت ہو گئے۔بڑی دیر کے بعد تالی بجانے کا ہوش آیا۔ جانوروں کو وقت کا پورا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ گلی کے کتے بلیوں کو روزانہ کھانا دیں اور وقت مقرر کر لیں۔ فرض کیجئے آپ شام چھ بجے انہیں کھانا دیں گے دو ہی روز بعد یہ جانور پورے چھ بجے مقررہ جگہ پر موجود ہوں گے۔ ایک منٹ پہلے نہ ایک منٹ تاخیر سے۔ وہ ’’گھڑی‘‘کہاں سے دیکھتے ہیں؟ گھڑی تو ایک طرف رہی وہ دنوں کا حساب بھی جانتے ہیں۔ ایک بہت ہی معروف اور کلاسیکل واقعہ روس کا ہے جہاں ایک ماہر حیوانیات نے اچانک دیکھا کہ ایک بلی کہیں سے آئی اور ہسپتال کی عمارت کی دیوار کے پاس آ کر رک گئی۔ پھر اس نے چھلانگ لگائی اور ایک کھڑکی میں گھس گئی۔بات آئی گئی ہو گئی یہ پیر کی شام تھی ماہر حیوانیات کو حیرت ہوئی کہ اگلے پیر کو وہی بلی پھر آئی اور کھڑی میں داخل ہو گئی۔ ماہر حیوانیات گھنٹہ بھر رکا رہا۔ گھنٹے بھر بعد بلی باہر آئی اور واپس ادھر کو چلی گئی جدھر سے آئی تھی۔ اس سے اگلے پیر بھی یہی تماشا ہوا اور پھر اس سے اگلے پیر بھی۔ تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ بلی دو فرلانگ کی دوری سے آئی ہے اور ہسپتال میں کچھ نرسوں کو منگل کی چھٹی ہوتی ہے چنانچہ وہ پیر کی رات‘ ڈیوٹی سے آف ہونے کے بعد موسیقی کی دھن پر ناچتی تھیں اور گاتی تھیں۔ بلی ان کا گانا سننے اور ناچ دیکھنے آئی تھی۔ اتفاق سے اس نے یہ منظر دیکھا ہو گا اور پھر اگلے دن بھی آئی ہوگی اور کچھ دنوں کے بعد اسے پتہ چلا ہو گا کہ یہ تماشا ہفتے میں صرف ایک روز پیر کی رات ہوتا ہے۔ اس بلی کے شوق کو اپنی جگہ رکھیے یہ دیکھیے کہ اسے نہ صرف وقت کا علم تھا بلکہ دنوں کا حساب بھی جانتی تھی۔ خدا کی یہ مخلوق اپنی روزی روٹی اور زندگی کے لیے انسانوں کی محتاج اور ان کے رحم و کرم پر ہے۔ جانوروں پر رحم کرنا روح کی خوراک ہے اور ہر مذہب کی تعلیم۔ ہمارے عقیدے میں پل صراط کا تصور ملتا ہ جسے یاد کرنے والے ہی جنت میں داخل ہوں گے۔ اسی طرح کے ملتے جلتے ایک پل کا ذکر ہندوئوں کے عقیدے میں بھی ہے۔ اگرچہ بہت پرانی کتابوں میں مذکور ہونے کی وجہ سے یہ تقریباً متروک ہو گیا ہے۔ ان کتابوں میں لکھا ہے کہ دنیا کے خاتمے کے بعد سورگ (جنت) پہنچنے کے لیے ہر آدمی کو ایک پل عبور کرنا ہو گا۔ اس پل کے اوپر وہ سارے جانور گائے‘ بھینس‘ بکری ‘ اونٹ ‘ کتا ‘ بلی حتیٰ کہ پرندے بھی کھڑے ہوں گے جن سے اس آدمی کو زندگی میں کبھی واسطہ پڑا ہو گا۔ آدمی کو پل عبور کرنے کی اجازت دی جائے یا نہیں‘ اس کا فیصلہ یہ جانور ہی کریں گے۔انسانی آبادیوں میں موجود جانور انسانوں کی آزمائش ہیں۔ سب کا خالق یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ان جانوروں کو اس نے جس کا محتاج بنایا ہے وہ ان سے کیسا سلوک کرتا ہے۔(ختم شد)