جناب عمران خان کا طرزِ سیاست بڑا دلچسپ ہے۔ بعض لوگ اسے پیچیدہ سمجھتے ہیں مگر دراصل یہ اندازِ حکمرانی بڑا سادہ ہے۔ اپنے اعتراض کریں یا نہ کریں اپنی کابینہ کے لوگ دبی زبان میں فریاد پیش کریں یا اپوزیشن نالائقی کے علی الاعلان طعنے دے، خان صاحب ایک تابڑ توڑ جواب دے کر مخالفین کی زبانیں گنگ کروا دیتے ہیں۔ اپنے ہوں یا ’’پرائے‘‘ سب یک زبان ہیں کہ پنجاب میں گورننس نام کی کوئی شے نہیں، ترقیاتی کام نہیں ہو رہے، کئی ماہ سے لاہور اور دوسرے شہروں میں ڈینگی نے اودھم مچا رکھا ہے۔ لاہور شہر میں بھی کراچی جیسے سٹریٹ کرائم ہو رہے ہیں اور اپنی سکیورٹی رکھنے والی اعلیٰ سے اعلی سوسائٹیوں میں بھی چوریاں ہی نہیں ڈاکے بھی پڑ رہے ہیں۔ کبھی ڈاکٹر اور نرسیں ہڑتال کر کے سڑکوں پر ہوتے ہیں کبھی کلرک اور کبھی بیچارے نابینا۔ ایک نہیں کئی آئی جی بدلے گئے اور ایک چیف سیکرٹری نہیں کئی بدلے گئے اور تقریباً ہر محکمے کے کئی کئی سربراہ تبدیل کر دیئے گئے۔ اس سب کچھ کے جواب میں لوگ توقع کر رہے تھے کہ اتنی خراب کارکردگی پر جناب خان صاحب پنجاب میں کوئی جرأت مندانہ انتظامی نہیں سیاسی فیصلہ کریں گے۔ خان صاحب فرماتے ہیں کہ بزدار کا کام اچھا ہے، اس کی تشہیر کریں۔ وہ خاموشی سے کام کر رہے ہیں پتا نہیں چلتا مافیا کیوں پیچھے پڑا ہوا ہے۔ انہیں اپنی دکانیں بند ہونے کا ڈر ہے۔ عمران خان کو شاید معلوم نہیں کہ جناب عثمان بزدار کا بلا ناغہ روزانہ کی بنیاد پر ایک فلسفیانہ و ناصحانہ بیان اخبارات کے صفحہ اوّل کی زینت بنا ہوتا ہے۔ ایک ہفتے تک عدالت عظمیٰ کے سامنے قانونی سقم ہی نہیں بلنڈرز والی سمریاں اور نوٹیفکیشن پیش کیے گئے جنہیں عدالت نے مسترد کر دیا اور حکومتی قانون دانوں کی ڈگریوں کی چھان بین کے لیے کہا۔ مگر داد دیجئے خان صاحب کے ہمت و حوصلے کی کہ کسی طرح کی ندامت کا اظہار کرنے کے بجائے انہوں نے کہا کہ قانونی ٹیم کی کارکردگی قابل تعریف ہے۔ 15ماہ زور لگانے والی مافیا ناکام ہو گئی حالانکہ عدالتِ عظمیٰ کی کارروائی اور حکومتی ڈرامے کے دوران اپوزیشن تو چپ چاپ دیوار سے لگی کھڑی رہی۔ اسی طرح دنیا مہنگائی کے ہاتھوں مرچلی ہے۔ صرف ٹماٹر ہی نہیں ہر شے ہر بندے کی پہنچ سے باہر ہے سوائے چند امیروں کے، مگر خان صاحب ببانگ دہل فرماتے ہیں کہ ہماری معاشی ٹیم نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے مگر اپوزیشن نہیں سمجھے گی۔ ایک طرف پریس کانفرنس میں خان صاحب جناب عثمان بزدار کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں اور دوسری طرف ان پر یا ان کے صلاحیت پر خود اعتماد نہیں کرتے۔ واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ پنجاب حکومت کا ڈیلی بزنس بھی اسلام آباد کے ریموٹ کنٹرول سے چلتا ہے۔ ایڈمنسٹریشن کسی کمپنی کی ہو، کسی ادارے کی ہو یا کسی صوبے کی اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایڈمنسٹریٹر پر ادھورا اعتماد بے اعتمادی کے مترادف ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی کے خیبرپختونخوا میں گزشتہ ٹرم کے ایک کولیشن پارٹنر نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ ہم اُس وقت کے وزیر اعلیٰ جناب پرویز خٹک سے کسی منصوبے یا پراجیکٹ کی اصولی منظوری لے لیتے تھے مگر جب عملاً نوٹیفیکیشن جاری نہ ہوتا تو ہمیں بتایا جاتا کہ جناب عمران خان نے ابھی اس کی منظوری نہیں دی اور اکثر اوقات یہ منصوبہ خان صاحب اور ان کے ماہرین کے غور و فکر اور ریموٹ کنٹرول حکمرانی کی بھینٹ چڑھ جاتا۔ بزرگوں سے سنا ہے کہ آدمی سے بات اس کے میلانِ طبع اور اس کے پسندیدہ شعبے کے حوالے سے کرو۔ اس لیے میں کسی اور شعبے کی نہیں کرکٹ کی مثال دوں گا کہ اگر کسی کرکٹ ٹیم میں دو تین اچھے بلے باز ایک دو اچھے بائولر اور بہترین وکٹ کیپر ہوں اور سارے کے سارے اپنی اپنی جگہ خودمختار ہوں اور جو کپتان ہو وہ بے اختیار ہو تو آپ اندازہ لگا لیں کہ بغیر کپتان کے اس ٹیم کے جیتنے کے کتنے امکانات ہوں گے۔ واقفانِ حال کا یہ کہنا ہے کہ عثمان بزدار نے بڑی محنت اور صلاح مشورے سے اپنے با اعتماد افسران کی جو ٹیم اکھٹی کی تھی جناب عمران خان کے فرمان کے ذریعے اسے تتربتر کر دیا گیا ہے۔ جناب عثمان بزدار کے لیے ہم عزت و احترام کے جذبات رکھتے ہیں مگر وہ رائٹ مین فار دی رائٹ جاب نہیں۔ پنجاب 12کروڑ افراد پر مشتمل پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ یہ جسدِ وطن کا دھڑکتا ہوا دل ہے۔ اتنے بڑے صوبے کی حکمرانی کے لیے بہت سی صفات کا ہونا ضروری ہے۔ جناب بزدار کی شرافت اپنی جگہ مگر ان کے اندر وہ صفات بڑی حد تک ناپید ہیں اور اوپر سے انہیں خان صاحب کی طرف سے مکمل کیا جزوی اعتماد بھی حاصل نہیں۔ پنجاب میں لوگ شہباز شریف اور چودھری پرویز الٰہی کی وزارت عظمیٰ کی کارکردگی کو یاد کرتے ہیں۔ کام انہوں نے بھی بیورو کریسی سے ہی لیا تھا۔ مگر کام لینے والوں کے اندر اپنا وژن بھی تھا، ان کی سیاسی شخصیت بھی تھی، ذاتی وجاہت بھی تھی اور پھر کام لینے کا طریقہ اور سلیقہ تھا اور سب سے بڑھ کر انہیں آزادی عمل اور فیصلہ سازی کا مکمل اختیار بھی تھا۔ اہلِ فکر و نظر سے یہ بھی سنا ہے کہ غلطی کا سبب خارج میں نہیں داخل میں تلاش کرو۔ تا ہم جناب عمران خان کی افتادِ طبع ایسی ہے کہ اوّل تو وہ کسی غلطی کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور اگر غلطی مان بھی لیں تو بلاتاخیر اس کا الزام اپنے سیاسی مخالفین پر دھر دیتے ہیں۔ جناب حامد خان نہایت واجب الاحترام قانون دان اورپی ٹی آئی کے بانی رکن ہیں۔ دو تین روز قبل انہوں نے حقیقت حال بیان کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کوئی عام سی سیاسی جماعت نہیں تھی۔ یہ اصلاحات کا پروگرام لے کر اٹھی تھی۔ ہمارے منشور میں انتخابی اصلاحات، تعلیمی اصلاحات، پولیس اصلاحات، لینڈ ریفامز وغیرہ شامل تھیں مگر اب یہ جماعت ایک عام اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی بن چکی ہے۔ اس غلطی کو تسلیم کرنے یا اس کی اصلاح کی طرف توجہ دینے کے بجائے خان صاحب نے جناب حامد خان کی بنیادی رکنیت معطل کر دی ہے اور انہیں شوکاز نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔ جناب عمران خان فخریہ کہا کرتے ہیں کہ ہم نے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے کے لیے 22برس جدوجہد کی ہے۔ کیا 22برس میں خان صاحب پنجاب جیسے مردم خیز صوبے میں دوچار افراد بھی ایسے تیار نہیں کر سکے جو وزارت اعلیٰ کے منصب کے اہل ہوں اور اس ذمہ داری کو کما حقہُ نبھا سکیں۔ یہ شعر بھی لگتا ہے خان صاحب کا سیاست میں ماٹو ہے۔ چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے خان صاحب ہر دم رسہ پیکار رہنے اور مخالفین کو للکارنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ یہی ماٹو شاید انہوں نے عوام الناس کے لیے پسند کر لیا ہے۔ خلق خدا نہ صرف پنجاب بلکہ سارے پاکستان کے اندر دشواریوں میں گھری ہوئی ہے۔ یہ کروڑوں انسانوں کا مسئلہ ہے جسے خان صاحب اپوزیشن کا مسئلہ قرار دے کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ آٹے کی قیمت ناقابل برداشت ہو، سبزی، دالیں اور دودھ تک کی خریداری عوام الناس کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہو مگر خان صاحب اور ان کے وزراء اس قیامت سے آگاہ نہیں جو عوام پر ٹوٹ پڑی ہے۔ پنجاب میں پولیس اور بیورو کریسی کی نئی ٹیم کے لیے ہم نیک خواہشات رکھتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ انہیں ہمت اور توفیق دے تا کہ وہ خدمت خلق کر سکیں تاہم ایڈمنسٹریشن کا کلیہ یہی ہے کہ بہترین ٹیم کے ساتھ ساتھ بہترین کپتان کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔