جولائی 2018 ء میں قومی انتخابات میں شکست کے فوری بعد جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے اسلام آباد میں کارکنوں کا ایک اہم اجلاس ایک ہوٹل میں طلب کیا تھا۔ اس اجتماع میں بعض مرکزی قائدین کے ساتھ اسلام آباد اور پنجاب کے صوبائی ذمہ دار بھی شریک تھے۔محفل میں موجود کارکنوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے خوب اپنے دل کی بھڑاس نکال لی ۔انھوں نے انتخابات سے چند مہینے قبل ایم ایم اے میں شمولیت پر ناراضی کا اظہار کیا۔ محفل میں موجود کارکن اس حد تک جذباتی ہوگئے تھے کہ وہ روتے ہوئے اپنا موقف بیان کر رہے تھے۔اگر چہ اس اجلاس میں موجود شرکاء کو یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ جماعت اسلامی نے ایم ایم اے سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ہے ،لیکن کارکنوں کی اکثریت ایم ایم اے میں شمولیت پر ناراض تھی۔قائدین اگرچہ کارکنان کے سوالات کے جوابات نہیں دے پارہے تھے ۔ انھوں نے ’’ مٹی پائو ‘‘ اور’’گڑھے مردے‘‘ دوبارہ نہ اکھاڑنے والی خاموش اختیار کر رکھی تھی۔اس اجتماع میں کارکنوں کی اکثریت نے مشورہ دیا کہ جماعت اسلامی کو اب اتحادوں سے نکل کراپنی سیاست کرنی چاہئے۔ انتخابات اپنے جھنڈے اور انتخابی نشانہ پر لڑنا چاہئے ،چاہے نتیجہ جو بھی ہو۔ اس جذباتی ماحول میں سب سے اہم جماعت اسلامی کے امیرسینیٹر سراج لحق کا انکشافات سے بھرا ہوا خطاب تھا۔یہ تقریر ریکارڈ نہیں کیا جا سکی اس لئے کہ ایساکرنے کی اجازت نہیں تھی ،لیکن اس تقریر میں سراج الحق نے اپنے کارکنان کو بتایا کہ مولانا فضل الرحمان نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ان سے جھوٹ بولا ہے ۔سچ ان سے چھپایاہے۔سراج الحق کے الفاظ یہ نہیں تھے مگر لب لباب اس کا یہی تھا کہ مولانا فضل الرحمان نے ہمیں اندھرے میں رکھا۔سینیٹر سراج الحق نے اس اجتماع میں اپنے کارکنان سے یہ انکشاف کیا کہ مولانا فضل الرحمان کو یقین تھا کہ انتخابات نہیں ہونگے ، اس لئے وہ انتخابی مہم چلانے میںنہ صرف غیر سنجیدہ تھے بلکہ انتخابی مہم چلا ہی نہیں رہے تھے۔سراج الحق نے اس محفل میں یہاں تک انکشاف کیاکہ 25 جولائی کو جب ووٹ ڈالے جارہے تھے اس دن بھی مولانا فضل الرحمان کو یقین تھا کہ انتخابات نہیں ہونگے۔امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق اپنے کارکنوں کو بتا رہے تھے کہ ہمارے ساتھ ہاتھ ہو گیا تھا۔لیکن اب ہم کچھ کر نہیں سکتے تھے، اس لئے کہ ایم ایم اے بن گئی تھی۔مولانا فضل الرحمان اتحاد کی سربراہی پر براجمان تھے ۔ٹکٹ تقسیم ہوگئے تھے۔ امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ ہو گئے تھے ۔لیکن ایم ایم اے کے سربراہ مو لانا فضل الرحمان کو یقین ہوتے ہوئے بھی ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔سراج الحق نے یہ نہیں بتایا کہ کس کے کہنے اور یقین دہانی پر مولانا فضل الرحمان کو ووٹ ڈالنے والے دن بھی یہ یقین تھا کہ انتخابات نہیں ہونگے ،لیکن اپنے کارکنوں کو وہ یہ ضرور بتا رہے تھے کہ ان کے ساتھ مولانا فضل الرحمان نے خیانت کی ہے۔یہی وجہ تھی کہ انتخابات کے فوری بعد جماعت اسلامی نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ انھوں نے ایم ایم اے سے راہیں الگ کیں۔ اکتوبر 2019ء میں مولانا فضل الرحمان نے جب وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف آزادی مارچ کا اعلان کیا تو انھوں نے ایک مرتبہ پھر جماعت اسلامی کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی ۔ ان کی خواہش تھی کہ کسی طرح دوبارہ جماعت اسلامی کو ایم ایم اے کا حصہ بنائیں۔جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ اور مرکزی نائب امیر میاں اسلم پر مشتمل وفد نے مولانا فضل الرحمان کی دعوت پر ان سے ملاقات کی ۔ اس ملاقات میں مولانا فضل الرحمان نے آزادی مارچ میں ان سے شمولیت اور ساتھ دینے کا مطالبہ کیا۔جماعت اسلامی کے وفد نے مولانا فضل الرحمان پرواضح کیا کہ اصل حزب اختلاف ہم ہیں۔مذہبی جماعتوں میں کسی پر بدعنوانی کا الزام نہیں۔اس لئے ان کو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے الگ ہوکر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ انتخابات کے بعد ہم نے حکومت کے خلاف تحریک شروع کردی ہے۔مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا اس لئے آپ ان دونوں سیاسی جماعتوں کے سہاروں کو چھوڑ کر ہمارا دیں۔جماعت اسلامی کے اس وفد نے مولانا فضل الرحمان کو یہ بھی بتایا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دونوں آپ کو میدان میں اکیلے چھوڑ دیں گے ، اس لئے ان پر نازاں ہونے کی بجائے ہمارا ساتھ دیں۔ مولانا فضل الرحمان نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو چھوڑنے سے انکار کیا اور یوں جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمان کی راہیں جدا ہوئیں ۔ آزادی مارچ سے قبل ان دونوں جماعتوں نے ان کے ساتھ بہت سارے وعدے وعید کئے تھے۔ایک دو، دن مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے آزادی مارچ کے شرکاء سے خطاب بھی کیا لیکن مارچ میں ان کے کارکنوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔بعد میں مولانا فضل الرحمان نے بھی اس کمی کو محسوس کیا۔ شکوہ اور شکایتیں بھی کی لیکن کچھ بن نہیں سکا۔حزب اختلاف کی موجودہ احتجاجی تحریک میں بھی جماعت اسلامی کی شمولیت نہ کرنے کی ایک بنیادی وجہ جہاں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے بے زاری ہے تووہاں گزشتہ انتخابات میں مولانا فضل الرحمان کا مشکوک رویہ بھی ایک رکاوٹ ہے۔پھر وہ اتحاد جس کے سربراہ مولا نا فضل الرحمان ہوں اس میں جماعت اسلامی کی شمولیت تقریبا ناممکن ہو گی، اس لئے کہ جماعت اسلامی کو یقین ہوگیا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے گزشتہ انتخابات میں ان سے سچ چھپایا ۔ ان کو استعمال کیا اور خود کسی کی اس یقین دہانی پرکہ انتخابات نہیں ہونگے، انتخابی مہم سے لاتعلق رہے جس کی وجہ سے ایم ایم اے کو شکست کاسامنا کرناپڑا۔جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمان انتخابی مہم چلاتے تو بعض نشستیں ایسی تھیںکہ جہاں سے وہ آسانی سے جیت جاتے۔