جس دن شیواجی اور اس کا نو سالہ بیٹا شام بھوجی، آگرہ میں اورنگزیب عالمگیر کے شاہی مہمان خانے سے پنڈتوں کے قافلے میں ایک فقیر کا روپ دھار کر نکلا تھا، اس دن کو آج کا جدید ہندو قوم پرست ایک ''عظیم اور مقدس فرار'' کا نام دیتا ہے۔ 22 جولائی 1666ئ، دراصل یہ وہ دن تھا جب ہندوستان پر ہندو مذہب کی بالادستی کی جنگ کا نظریاتی آغاز ہوا۔ پورے ہندوستان پر ہندو اقتدار کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ جزیرہ نمائے ہند کبھی بھی ایک ہندو حکمران کے زیرنگیں ایک متحد مملکت کے طورپر نہیں رہا۔ اورنگزیب عالمگیر وہ واحد مسلمان حکمران ہے جس کی سلطنت کی وسعت میں پورا ہندوستان شامل تھا۔ اورنگزیب عالمگیر کا مزار آج بھی دکن کے شہر اورنگ آباد کے پڑوس میں واقع اجنتا اور ایلورا کی غاروں کے قریب آباد شہر ''خلد آباد ''میں واقع ہے۔ اس کا اورنگ آباد کا قلعہ اپنی ہیبت و جلال کے ساتھ آج بھی دکن کی سرزمین پر موجود ہے۔ مرھٹے دکن کی اس سرزمین کا خود کو وارث سمجھتے تھے۔ مورخ انہیں جنوبی ایشیا کا منگول کہتے ہیں۔ایسے ظالم حکمران جو اپنی رعایا سے زبردستی چوتھ (پیداوار کا چوتھا حصہ) وصول کرتے تھے۔ لیکن اورنگزیب عالمگیر نے جب دکن فتح کیا تواس نے اس ''چوتھ'' کی جگہ ہندو رعایا پر ''جزیہ'' نافذ کردیا۔ مرہٹوں کے ہاتھ سے چوتھ کی وصولی نکلی تو انہوں نے اسے ہندو مذہبی مزاحمت میں بدل دیا اور برصغیر پرایسے ہندو سیاسی راج کا نعرہ بلند کیا جس میں منوسمرتی کے قوانین کا نفاذ ہوگا۔ 1707ء میں اورنگزیب کی وفات کے بعد جب مغل اقتدار طوائف الملوکی کا شکار ہوا تو مرہٹوں نے علاقوں پر علاقے فتح کرنا شروع کر دیے۔ شیواجی کے ساتھ ان جنگوں میں ایک اور کردار ابھر کر سامنے آیا جسے 1740 ء میں پیشوا یعنی وزیراعظم مقرر کیا گیا اس کا نام بالاجی باجی راؤ تھا۔ اسے نانا صاحب کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ مرہٹوں،خصوصاً شیواجی اور باجی راؤ دونوں کا ایک خواب تھا کہ پورے ہندوستان کو ہندو مذہب کی بالادستی میں لایا جائے اور وہ سمجھتے تھے کہ مرہٹے ہی اس شبھ کام کے لیے دیوتاؤں کا انتخاب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بنگال اور جے پور کی ہندو ریاستوں سے بھی لڑے اور انہیں شکست دی جو مسلمان حکمرانوں سے اتحاد رکھتی تھیں۔ بالاجی باجی راؤ نے نظام حیدرآباد سے بھی لڑائی کی اور اس سے جاگیریں بطور تاوان لے کر صلح کرلی۔ 1760ء میں ہندوستان کا بیشتر علاقہ مرہٹوں کے زیر نگیں آگیا۔ اس وقت کے نقشے کو کھول کر دیکھا جائے تو ایک حیرت کا سامنا ہوتا ہے۔ مرہٹوں کی 1760 ء کی یہ سلطنت ٹھیک پاکستان کی موجود سرحد سے شروع ہوتی تھی اور بنگال تک جاتی تھی جہاں انگریز حکمران تھے اور نیچے ٹیپو سلطان کی آزاد حکومت میسور میں قائم تھی۔ یعنی تاریخ میں اللہ نے پاکستان کے موجودہ حصے کو مرہٹوں کے مرکزی اقتدار سے بھی دور رکھا۔ مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی دلی کے قلعے میں ایک علامت بنادیا گیا تھا اور پورے ہندوستان میں یہ نعرہ گونجتا تھا۔ شاہ عالم از دلی تا پالم (پالم وہ جگہ ہے جہاں اس وقت دلی کا ائیرپورٹ ہے)۔ پیشوا بالا جی باجی راؤ نے اپنا پڑاؤ لال قلعے کے سامنے اس مقام پر بنایا جو آج نئی دلی کہلاتا ہے۔ مرہٹوں کے اقتدار کے بعد ایک مذہبی بحث شروع ہو گئی۔ برہمن ہندو مذہب کا وہ تصور سامنے لے آئے جس کے تحت حق حکمرانی صرف اور صرف راجپوتوں کا حق ہے اور کسی دوسری جاتی (ذات) کے آدمی کو حکومت کا حق نہیں۔ بالاجی باجی راؤ تمام راجپوت راجوں کے پاس گیا اور انہیں مسلمانوں کے مقابلے میں ایک اتحاد بنانے اور ایک شخص پر متحد ہونے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی، مگر اسکی کوشش بے سودرہی۔ راجپوت مہاراجے اپنی نسلی برتری اور اختلاف میں الجھے رہے، جسکے نتیجے میں ناکارہ مغل بادشاہ ہی لال قلعے میں بیٹھا علامتی طور پرخود کو شہنشاہ ہند کہلاتا رہا۔ ایک ایسا بادشاہ جس کی دیوار کے باہر مرہٹوں کا اقتدار مستحکم تھا۔ ہندوتوا یا ہندو قوم پرستی کی بنیاد پر ہندوستان پر منوسمرتی کے قوانین کے نفاذ کا یہ خواب عین ممکن تھا جلد پایہ تکمیل پر پہنچ جاتا، لیکن برصغیر پاک وہند میں اللہ نے ایک ایسی شخصیت کو پیدا فرمایا جس کے خاندان نے کئی نسلوں تک اسلام کی آبیاری کی۔ شاہ ولی اللہ۔ ایک نابغہ روزگار شخصیت۔ انہوں نے مسلمانوں کی اس زبوں حالی سے نجات کے لئے خراسان (افغانستان)کے مکین احمد شاہ ابدالی کو خط لکھا کہ اگر اس نے آکر مرہٹوں کو شکست نہ دی تو پھر شاید اس دھرتی پر اسلام کا نام لینا بھی مشکل ہو جائے۔ احمد شاہ ابدالی وہ بطل حریت ہے جس نے خراسان (موجودہ افغانستان) کو ایک متحدہ ملک کا درجہ دیا، ورنہ پہلے یہ علاقہ کبھی مغلوں اور کبھی ایرانی صفویوں اور قا چاروں کے ماتحت چلا آرہا تھا۔ 14 جنوری 1761ء میں پانی پت کی مشہور لڑائی ہوئی جسے پانی پت کے میدان کی تیسری لڑائی کہا جاتا ہے۔ پورے ہندوستان سے ہندو مذہب کے لڑاکے، دھرم کی اس اہم یدھ (لڑائی) میں شامل ہونے کے لئے پانی پت پہنچے۔ ساواوشنو راؤ باہو مرہٹوں کا سپہ سالار تھا۔ برصغیر کی یہ پہلی لڑائی ہے جس میں ہندو افواج اپنا مذہبی نشان ترشول اٹھا کرمیدان میں نکلی تھیں اور انہوں نے ذاتوں اور علاقوں کے جھنڈے نہیں اٹھائے تھے۔ احمد شاہ ابدالی کیساتھ دو ہندوستانی پشتون نواب بھی شامل ہو گئے، روہیل کھنڈ کا حاکم نجیب الدولہ اور اودھ کا نواب شجاع الدولہ۔ ان دونوں نے مشرق کی جانب سے پانی پت کا محاصرہ کیا اور احمد شاہ ابدالی مغربی سرحد سے صرف 32 ہزار فوج لے کر میدان میں اترا۔ جبکہ مقابلے میں مرہٹوں کا چار لاکھ افراد کا لشکر تھا۔ مرہٹوں کے پاس اپنے دور کی بہترین فرانسیسی بندوقیں اور توپیں تھیں اور انہوں نے برطانوی جرنیلوں کی راہنمائی میں ایک منظم فوج ترتیب دی تھی۔ ہندوستان کی تاریخ میں مدتوں بعد یہ منظر سامنے آیا تھا کہ ہندو اور مسلمان دونوں ایک دوسرے سے مذہب کی بنیاد پر لڑ رہے تھے۔ ورنہ اس سے پہلے یہ عالم تھا اکبر کا جرنیل ہندو مان سنگھ تھا اور رانا پرتاب سنگھ کا جرنیل مسلمان محمد خان سوری۔ اس عظیم معرکہ حق وباطل میں احمد شاہ ابدالی فتح یاب ہوا اور مرہٹوں کا ہندتوا کے قیام کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ احمد شاہ ابدالی واپس خراسان لوٹ گیا، جہاں اس نے ایک ایسی افغان حکومت کی بنیاد رکھی جو اس وقت سے لے کر آج تک ناقابلِ شکست اور عالمی قوتوں کا قبرستان ہے۔ بالاجی باجی راؤ پانی پات کے لیے کمک لے کر راستے میں تھا کہ اسے 24 جنوری 1761 ء کو بدترین شکست کی خبر ملی۔ جنگ میں اس کا اپنا بیٹا وشواس راؤ بھی مارا گیا تھا۔ تاریخ اس کے بعد اس کی کوئی خبر نہیں دیتی بس پانچ ماہ بعد اس کی موت کا پتہ دیتی ہے۔ معرکہ پانی پت کے دس سال بعد ایک بار پھر کوشش کی گئی۔ مرہٹوں نے پھر علاقے فتح کرنا شروع کیے لیکن اب انگریز برصغیر کو فتح کرنے آچکے تھے اور 1857 ء میں انہوں نے پورے ہندوستان پر یونین جیک کا پھریرا لہرا دیا۔ برصغیر پر ہندو مذہبی حکمرانی کا ایک سو سال پرانا خواب تمام پنڈتوں کے ذہنوں میں انگریز کے آنے تک تازہ تھا۔ انہیں وہ دن آج بھی یاد تھا جب انہوں نے 1674 ء میں شیواجی کو تاج پہناتے ہوئے عظیم ہندو سلطنت کا اعلان کیا تھا۔ اس تقریب میں پچاس ہزار پنڈت، برہمن اور دھرم سیوک جمع ہوئے تھے۔ گنگا سے پانی لا کر اسے نہلایا گیا تھا اور سات قیمتی دھاتوں میں تول کر غریبوں کو دان (خیرات) کیا گیا۔ انگریز کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد ہندوؤں میں اس خواب کو نظریاتی بنیادوں پر استوار کرنے کے کام کا آغاز سوامی دیانند نے کیا۔ اس نے ممبئی میں 10 اپریل 1875 ء کو آریہ سماج نامی تنظیم بنائی جس کا مقصد ہندو مذہب اور ہندوستان کی تطہیر تھا۔ جدید تاریخ میں پہلی دفعہ ہندو قوم اور ہندو قوم پرستی کے نام پر ایسی تنظیم بنائی گئی۔ سوامی دیانند وہ پہلا شخص تھا جس نے ہندو ویدوں سے یدھ (مقدس جنگ) کے اشلوک نکال کر انہیں مسلح ہونے کی ترغیب دی۔ 1889 ء میں لاچیت رائے نے کانگریس کے اخبار ''ہندوستان رویو'' میں ایک مضمون لکھا جس میں وہ لکھتا ہے کہ ''ہندو بذات خود ایک قوم ہے، کیونکہ یہ ایک ایسی تہذیب کی علامت ہیں جو سو فیصد ان کے مذہب کی پیداوار ہے''۔ آریہ سماج دراصل ہندو مذہب اور ہندوستان کی پوترتا (purification) یعنی تطہیر کی تحریک تھی جس نے ہندتوا کے تصور کو پہلی نظریاتی تحریکی بنیاد فراہم کی۔ (جاری ہے)