آج سے ٹھیک اٹھارہ سال قبل، گیارہ ستمبر 2001 کو جب دو طیارے دنیا کے معاشی دارالحکومت کی علامت ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرائے، تو اس کے بعد اس دنیا میں صرف اسلحہ و بارود کی جنگ کا آغاز نہیں ہوا بلکہ دنیا کے ہر خطے میں لاکھوں مضامین اور ہزاروں کتابیں ایسی لکھی گئیں جو مسلمانوں کے فلسفہ جہاد، قرآن و حدیث میں قتال کی اہمیت اور اسلامی تاریخ کے بڑے بڑے معرکوں کی ایک منفی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرکے مسلمانوں کو ایک خوںریز قوم اور اسلام کو ایک خون آشام مذہب ثابت کرتی تھیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آسٹریلیا کے دور دراز کھیتوں میں کام کرنے والے چرواہے سے لے کر نیویارک کی ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ میں کام کرنے والے ایک سرمایہ دار تک سب کے دلوں میں یہ تصور مضبوط ہوگیا کہ اکیسویں صدی کے امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ مسلمان ہیں اور سب سے خطرناک آئیڈیالوجی اسلام ہے۔ ان لکھنے والوں کی اکثریت میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جو بات کو ذرا بدل کر کسی طرح مسلمانوں اور اسلام کو تھوڑا سا نرم خو یا امن پسندہی بتانے کی کوشش کرتا۔ یہ سب ایک مقصد کے تحت کیا گیا کیونکہ دنیا میں کوئی بھی جنگ معاشرتی، علمی اور نظریاتی بنیادوں پر قائم کی گئی نفرت کے بغیر نہیں لڑی جاسکتی۔ حتی کہ قبائل کے درمیان بھی جو جنگ ہوتی تھی اس میں بھی مخالف قبیلے کی منفی خصوصیات پر کہانیاں مرتب ہوتیں، ہجو لکھی جاتیں۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تو افغانستان میں ذلت آمیز خاتمہ کب کا ہو چکا ہے،لیکن گیارہ ستمبر کے بعد مسلمانوں کے مقابلے میں علمی، فکری اور میڈیا کے محاذ پر جو جنگ شروع کی گئی تھی اس کی کوکھ سے جو اسلام فوبیا پھیلا وہ آج کی سب سے بڑی نظریاتی حقیقت ہے۔ اس اسلام فوبیا کی شکار دنیا میں جب بھارت اگست 2019ء میں صدیوں پرانی کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد کا آئینی ڈراپ سین کرتا ہے تو مغرب کا دانشور اور ادیب پکار اٹھتا ہے کہ یہ زمین کے ٹکڑے کی جنگ نہیں بلکہ مودی کا اس آئینی دفعہ کو ختم کرنا دراصل ہندوؤں کی مسلمانوں پر بالادستی کی علامت ہے۔ دنیا پوری اس سچ سے واقف ہے،لیکن حیرت کی بات ہے کہ جس برصغیر کے مسلمانوں پر اب اس بالادستی کی مہر ثبت ہو رہی ہے انہیں اندازہ تک نہیں کہ اصل جنگ کیا ہے۔ اس کا آغاز کب سے ہوا اور اس کی نظریاتی آبیاری کب،کس نے کی، یہ کیا مقاصد رکھتی ہے۔ گذشتہ ایک ڈیڑھ ماہ سے روز مضمون لکھے جاتے ہیں، ٹاک شوز ہوتے ہیں، لیکن کوئی تبصرہ نگار'' کشمیر بنے گا پاکستان'' یا کشمیریوں کی ''حق خود ارادیت'' کے نعروں اور جذباتی کیفیت سے آگے ہی نہیں نکلتا۔ یہ وہ کھوکھلا پن ہے کہ اگر کچھ دنوں کے لیے میڈیا خاموش کر دیا جائے، لیڈروں کی زبانیں چپ ہوجائیں تو لوگ پھر سے اپنے کاروبار زندگی میں مشغول ہو جائیں گے۔ یہ ہے وہ المیہ کہ جس کا پوری امت مسلمہ آج شکار ہے۔ طالبان افغانستان میں پوری دنیا کی عالمی طاقتوں کو شکست دے چکے ہیں، لیکن نظریاتی محاذ پر پوری امت مسلمہ یہ جنگ ہار چکی ہے۔ مسلمانوں پر،گذشتہ اٹھارہ سالوں کی اس یلغار کی بنیاد پر پانچ سو سالوں کا علمی کام ہے، جس نے مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان اٹھارہ سالوں کی میڈیا بدست نظریاتی یورش اور دھاوا اس قدر شدید تھا کہ اس نے پوری امت کے مسلمانوں کو معذرت خواہانہ اور مرعوب مقام پر لاکر کھڑا کردیا ہے۔ کسی نے بھی ان اٹھارہ سالوں میں بحیثیت مسلمان اپنا دفاع نہیں کیا بلکہ پوری امت کی تاریخ اور اس کے رویے پر نفرین بھیج کر خود کو مغربی سیکولر اور لبرل انداز کے مطابق پر امن عالمی شہری بننے کی مسلمانوں کو راہ دکھائی۔ غزوہِ ہند، جہاد ہند یا ہند سے جنگ ایک ایسا ولولہ ہے کہ جس کا نعرہ گذشتہ بیس سالوں سے بڑے زوروشور سے لگایا جارہا ہے۔ لیکن نعرہ لگانے والوں کے دامن میں رسول اکرم ﷺ کی احادیث اور کچھ صوفیاء کی پیشگوئیوں کے سوا کچھ نہیں۔ کیا تم بھارت سے اس لیے جنگ کرنا چاہتے ہو کہ اس نے کشمیر پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے؟، اگر وہ قبضہ چھوڑ دے تو کیا مقصد پورا ہوجائے گا۔ بھارت تمہارا دشمن اس لیے ہے کہ اس نے تم سے مشرقی پاکستان کو جدا کیا اور تم گزشتہ پینتالیس سالوں سے بدلے کی آگ میں جل رہے ہو؟ اگر آپ نے بھارت سے خالصتان علیحدہ کروالیا تو پھر کیا سینے کی آگ ٹھنڈی پڑ جائے گی۔ کیا اس قسم کی بے شمار جنگوں کا کوئی تعلق اور واسطہ اس دعوت سے ہے جو رسول اکرم ﷺ لے کر اس دنیا میں آئے اور جس کے لیے انہوں نے ان تمام بادشاہوں کو خطوط لکھے جو شرک اور گمراہی کا شکار تھے اور پھر تمام عمر غزوات میں شریک ہوکر ثابت کیا کہ غزوہ یا قتال کا مقصد علاقوں کی فتح نہیں بلکہ نظریات کا غلبہ ہے۔ شرک کا خاتمہ اور اللہ کے دین کا نفاذ ہے۔ جو پیغمبرؐ اپنی زندگی کے آخری آٹھ سال یعنی 2 ہجری سے 9 ہجری تک، 28 غزوات میں حصہ لے، جن میں نو غزوات میں باقاعدہ قتال کرے،کیا وہ ہند سے لڑنے والے لشکر کو جنت کی بشارت صرف زمین کے ٹکڑے کے حصول کے لئے دے گا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے اوراب تو وقت بھی یہ ثابت کرتا چلا آ رہا ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں جو جنگ اب برپا ہونے جارہی ہے اس کی نظریاتی بنیادیں دن بدن گہری سے گہری ہوتی چلی جارہی ہیں۔ بلکہ اب یہ مکمل طور پر دو واضح نظریات یا آئیڈیالوجیز کی جنگ بن چکی ہے۔ لیکن ہمارا المیہ وہی ہے کہ ہم میں سے کوئی نہیں ہے جو اس نظریاتی جنگ کی جڑیں تلاش کرے اور بتائیے کہ رسول اکرمﷺ نے غزوہ ہند کے لشکر کو خوشخبری دی تھی، وہ کس بڑے مقصد کے لئے دی تھی۔ ہندوتوا کی جڑیں ہندوستان میں بہت پرانی ہیں لیکن مسلمانوں کا پانچ سو سالہ اقتدار ایک ایسا بھاری پتھر تھا جس نے اس پودے کو زمین سے باہر نہیں نکلنے دیا۔ 22 جولائی 1666ء وہ دن ہے جو جدید ہندو بنیاد پرستی اور اور ہندوتوا کے ماڈرن تصور رکھنے والے لوگوں اور اسی جنگ کے دعویداروں کے لئے بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ اورنگزیب عالمگیر ہندوستان پر برسرِ اقتدار تھا اور اس دور میں جنوب میں مرہٹہ جنگجو شیوا جی اپنی فوج، گوریلا لڑائی کی تکنیک اور فرانسیسی اسلحے کی مدد سے ہندوستان کے علاقوں پر علاقے فتح کئے جا رہا تھا۔ اسی دوران اسے اورنگزیب عالمگیر کی جانب سے دربار میں آنے کا ایک دعوت نامہ موصول ہوا۔ وہ 12 مئی کو اپنے بیٹے شام بھوجی کے ساتھ تقریبا ایک ہزار سپاہیوں کو لے کر آگرہ میں داخل ہوا۔ اس دن اورنگزیب عالمگیر کی پچاسویں سالگرہ کا جشن منایا جارہا تھا۔ شیواجی نے دربار میں داخل ہو کر آداب کیے اور تحائف بادشاہ کی نظر کئے۔ اورنگزیب کی فوج میں اکبر اور شاہجہان سے کہیں زیادہ راجپوت ہندو کمانڈر تھے جو مرہٹوں کے خلاف لڑتے تھے۔ اورنگزیب نے شیواجی کو بھی کمانڈر بن کر قندھار کے محاذ پر لڑنے کے لیے جانے کو کہا۔ اسے ایک شاندار محل رہنے کو دیا جس میں اس کے ایک ہزار افراد رہ سکتے تھے۔ شیواجی نے وعدہ کر لیا اور منصوبہ بندی کے لئے مہلت مانگی۔ شیواجی نے کچھ دن کھانا نہ کھا کر ایک بیمار کا روپ دھارا اور اورنگزیب سے کچھ دیر کیلئے اپنے علاقے میں جانے کی اجازت مانگی جو اسے دی گئی۔ لیکن اس نے اپنی واپسی کیلئے 22 جولائی 1666 کا انتظار کیا اور جب اورنگزیب شکار کے لئے روانہ ہوا تو وہ اپنے تمام ایک ہزار ساتھیوں سمیت وہاں سے ایک خاص بہروپ میں بھاگ نکلا اور اپنے علاقے میں پہنچ کر اس نے پورے بھارت کو ہندو راج کے تحت لانے کا اعلان کیا۔ اس کے نزدیک بھارت ایک ہندو دھرتی تھی جہاں صرف اور صرف ہندو جاتی کو ہی رہنے کا حق حاصل ہے۔اورنگزیب کے جانے کا انتظار اس لئے کیا کہ اس نے آگرہ سے نکلتے ہوئے ہندو برہمنوں، پنڈتوں اور راجپوت سرداروں کا ایک اجلاس بلایا۔ ان پنڈتوں میں سب سے اہم کردار کیوندر پرمانند گووند نیواسکر بھی شریک تھا جو اس سے پہلے بھارت میں تمام مقدس مقامات یعنی کاشی، پیراگ اور بنارس کا دورہ کرکے آیا تھا۔ اس نے شیواجی کو ایک فقیر کا لباس پہنایا، تمام پنڈت اس کے اردگرد ہوئے اور وہ آگرہ سے ایک خالص مذہبی بن باس یاترا کے عالم میں نکل گیا۔ 22 جولائی 1666ء دراصل بھارت کو غیر ہندوؤں سے پاک کرنے، منوسمرتی کے قانون کو نافذ کرنے اور دیوتاؤں کی عالمی حکومت یعنی ہندوتوا کے قیام کی تحریک کے آغاز کا دن تھا۔(جاری ہے)