انگلستان کے بادشاہ جارج پنجم کو گھڑ سواری کا بہت شوق تھا، فرصت کے اوقات میں وہ اپنے پسندیدہ سفید گھوڑے پر سوار ہوتے اور دریائے ٹیمز کے کنارے پہنچ جاتے، دوسرا شوق انہیں ننھے منے بچوں سے دوستی کرنے کا تھا، ٹیمز کے کنارے وہ گھوڑے کو دوڑاتے رہتے جب تھک جاتے تو گھوڑے کو کسی سمت کھڑاکرکے وہ دریا پر سیر کے لئے آنے والے بچوں سے باتیں کرتے، انہیں نظمیں اور کہانیاں سناتے اور پھر واپس گھوڑے پر محل لوٹ جاتے، جارج پنجم کی یہی واحد تفریح تھی ،وہ کہا کرتے تھے کہ گھڑ سواری، اور بچوں سے دوستی ان کی ساری تھکاوٹ دور کر دیتی ہے، ایک دن جارج پنجم دریائے ٹیمز کے کنارے چہل قدمی کر رہے تھے کہ انہوں نے آٹھ ،نو سال کے ایک بچے کو دیکھا جوزمین پر لیٹا ہوا اسکول کی کاپی پر کچھ لکھ رہا تھا، جارج پنجم اس بچے کے سرہانے جا کر کھڑے ہوگئے اور اس سے پوچھا،، کیا کر رہے ہو؟ بچے نے جواب دیا،، ہوم ورک کر رہا ہوں، ٹیچر نے کچھ سوالات لکھوائے تھے ان کے جواب لکھ رہا ہوں،،، جارج پنجم نے کاپی اس بچے کے ہاتھوں سے لے کر سوالوں کے جواب خود لکھ دیے اور اس بچے سے کہا کہ ،،میں تمہارا دوست ہوں،اس لئے آج تمہارا ہوم ورک میں نے مکمل کر دیا ہے، بچے کے چہرے پر چمک آئی، وہ خوش ہوا اور جارج پنجم کا شکریہ ادا کیا، انگلستان کے بادشاہ کو بچے کو خوش دیکھ کر دلی طمانیت کا احساس ہوا اور وہ بائے بائے کہہ کر اپنے گھوڑے پرسوار ہوا اور محل کی جانب واپس لوٹ گیا اگلی شام پھر جارج پنجم دریا کنارے معمول کے مطابق ٹہل رہا تھا کہ اچانک اسے پھر وہی بچہ نظر آیا، بچہ گذشتہ روز کی طرح زمین پر لیٹا ہوا ہوم ورک مکمل کرنے میں مصروف تھا، اس کا چہرہ آج بھی کاپی پر جھکا ہوا تھا، جارج پنجم پھر اس کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اور اسے اپنی جانب متوجہ کرتے ہوئے بولا،،، کیا تمہارا دوست آج بھی تمہاری مدد کرے؟ بچہ سہم کر کھڑا ہوگیا، کاپی جو اس کے ہاتھ میں تھی،اس نے اپنی پشت کی جانب چھپا لی اور جارج پنجم سے کہنے لگا،،،،،،،، نہیں نہیں آج نہیں، کل تم نے جو جوابات لکھ کر دیے تھے وہ سارے غلط تھے، ٹیچر نے سزا کے طور پر مجھے ایک گھنٹہ دھوپ میں کھڑے رکھا۔ ٭٭٭٭٭ آج تو پستول کی نوک پر لوٹا جاتا ہے،اخبارات اور چینلز میں لاکھوں کے اشتہارات چھپوا کر نام نہاد ہاؤسنگ سوسائٹیز میں آسان اقساط پر سستے پلاٹس اور مکانات کا جھانسہ دیکر لوگوں کو عمر بھر کی کمائی سے محروم کیا جاتا ہے، ایسے ہی دو آرٹسٹ ہمارے علاقے میں بھی تھے، دونوں جگری یار تھے، جونا اور بیبا۔ چھوٹے موٹے جرائم بہت کرتے تھے،لیکن بظاہر بڑے باادب، جونا اور بیبا کے گھروں میں فاصلہ صرف ایک گلی کا تھا،وہ دونوں صبح سویرے شکار کی تلاش میںنکل جاتے کوئی نہ کوئی بے وقوف انہیں مل ہی جاتا، سیانے کہتے ہیں کہ قدرت نے ہر فراڈیے کی قسمت میں سینکڑوں سادہ لوحوں کے نام لکھے ہوتے ہیں، بیبے کا گھر ہمارے گھر کے قریب تھا، ایک دوپہر جب میں رات کی ڈیوٹی کے باعث دوپہر کو سویا ہوا تھا، گلی میں کسی کا دروازہ لگاتار کھٹکھٹائے جانے پر جاگ گیا، گلی میں دیکھا تو ایک آدمی بیبے کے گھر کے باہر کھڑا تھا،,,بھائی، گھر میں کوئی نہیں ہوگا، تم نے میری نیند خراب کردی، اس شخص نے جواب دیا,, جی گھر پر ہی ہیں ، کئی دنوں سے چکر کاٹ رہا ہوں،کوئی دروازہ نہیں کھولتا،،میرے استفسار پر اس آدمی نے جو کہانی سنائی وہ آپ بھی سن لیں،، میں گلبرگ کے علاقے میں آٹے اور چینی کا ڈپو چلاتا ہوں، بیبا اور اس کا دوسرا ساتھی جونا میرے ڈپو پر آئے، ان کے پاس ایک پوٹلی تھی،تھوڑی دیرادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے ، پھر ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھیلی میری جانب بڑھاتے ہوئے بولے،چاچا،اس کا وزن کر دو،تھیلی ایک سیر وزنی نکلی ( اس وقت تک کلو میں تول نہیں ہوتا تھا) پھر بولے اب اس تھیلی کو کھولو بھی، تھیلی میں پیتل کے 1280پیسے تھے،ایک آنہ کے چار اور ایک روپے کے 64پیسے ، 1280 پیسوں کی کل مالیت تھی20 روپے،اب ان دونوں نے مجھ سے پوچھا ،، چاچا، کیا تم جانتے ہو آجکل پیتل کا کیا بھاؤ ہے؟ میں نے کہہ دیا کہ 40 روپے کلو،،کہنے لگے چاچا تم تو بہت ہشیار ہو، اس کا مطلب ہوا یہ کہ اگر پچاس ہزار روپوں کے ایک پیسہ والے سکے ہوں تو انہیں پیتل کے بھاؤ بیچ کر ایک لاکھ روپے حاصل کئے جا سکتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے شاہ عالم مارکیٹ کے دکانداروں سے بات کر رکھی ہے، وہ ہمیں تھوڑا سا منافع لے کر پیتل کے پیسے فراہم کر دیں گے، وہ دونوں مسلسل کئی روز تک میرے پاس آتے رہے اورایک دن لالچ میں آکر میں نے انہیں 20ہزار روپے دیدیے، پھر وہ کبھی واپس نہیں لوٹے،اب مجھے انکے گھروں کا بھی پتہ چل گیا ہے لیکن میرے ہاتھ نہیںآ رہے۔ کئی دنوں بعد راہ چلتے میری جونے اور ببیے سے ملاقات ہوئی تو اپنی عمر سے بڑے ہونے کے باوجود انکی سرزنش کی،وہ بے شرموں کی طرح ہنستے ہوئے مجھے ایک ٹی اسٹال پر لے گئے اور کہنے لگے یہ تو کچھ بھی نہیں ہم تمہیں اس سے بھی بڑی اپنی ایک اور واردات کا احوال سناتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ داتا دربار بازار کے قریب فٹ پاتھ پر ایک طوطا فال نکالنے والا بیٹھتا ہے ، ہم کئی دن اس کی روزانہ کمائی کا مشاہدہ کرتے رہے، وہ رات کو ستراسی روپے گھر لے کر جاتا تھا، دو ڈھائی ہزار ماہانہ سے کم نہ تھی اس کی آمدن، ہم نے اس کے پاس بیٹھنا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ دوستی کر لی۔طوطا فال نکالنے والے نے ہم دونوں کو بتایا کہ اس کے بچے مہنگے نجی اسکول میں پڑھ رہے ہیں، یہ انکشاف سامنے آتے ہی ہم نے ’’اپنا منصوبہ‘‘ تشکیل دیدیا، طوطا فال نکالنے والے کو ہم نے سمجھانا شروع کیا، چاچا جب تمہارے بچے اعلی تعلیم حاصل کرکے بڑے آدمی بن جائیں گے تو دنیا کو اپنے باپ کے بارے میں کیا بتایا کریں گے؟ کیا وہ لوگوں سے کہا کریں گے کہ ان کا باپ زمین پر بیٹھ کر طوطا فال نکالا کرتا تھا؟ فال نکالنے والا ڈر گیا، اس نے تو اس پہلو پر کبھی سوچا ہی نہ تھا، گھمبیر صورتحال سے نکالنے کے لئے ہم نے اس سے مدد کا وعدہ کیا، دو دن بعد پھر اس کے پاس پہنچ گئے، چاچا مبارک ہو تمہارا مسئلہ حل ہو گیا ہے، ایک افسر نے وعدہ کیا ہے کہ تمہیں سرکاری ٹھیکیداری کا لائسنس بنا دے گا، تم ایک اور کمائی بھی شروع کر سکو گے اورگھر کے باہر اپنے نام کے ساتھ ٹھیکیدار لکھ کر نیم پلیٹ بھی لگا سکو گے، تمہارے محلے دار اور رشتے دار تمہاری بہت عزت بھی کریں گے، افسر کو رشوت دینے کے لئے طوطا فال والے سے دس ہزار روپے ہتھیا لئے گئے ,پھر ہم نے اسے پہلا ٹھیکہ بھی دلا دیا ، دوہزار رشوت کے عوض، اسے مینار پاکستان پر رنگ روغن(سفیدی) کرنے کا ٹھیکہ دیا گیا اور اسے یہ بھی بتایا کہ تم وہاں کا م شروع کراؤ، سرکار ایک ہفتے بعد ٹھیکے کی پہلی قسط ادا کر دے گی۔ طوطا فال نکالنے والا ایک ریہڑے پر سفیدی کے ڈرم لادے مینار پاکستان پہنچ گیا، اس کے ساتھ آٹھ دس قلعی گر بھی تھے، جب ریہڑے سے سامان اترنا شروع ہوا تو مینار پاکستان کے چوکیدار جمع ہو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیا اتاررہے ہو یہاں؟۔۔۔۔۔ جی سفیدی کرنے کا ٹھیکہ ملا ہے مینار پاکستان کی،،،،،،، اوئے ماما ، یہ تو سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے، یہاں سفیدی کیسے کروگے؟