اگرچہ ہیگ کی عدالت نے چار ماہ کے عرصے کے ا ندربھارتی جاسوس کلبھوشن کیس کافیصلہ سنانے کااعلان کرتے ہوئے عدالت برخواست کی لیکن دیکھنایہ ہے کہ کیاسچ مچ ہیگ کی عدالت کلبھوش کیس میں مجرم کوقرارواقعی سزاسناکر انصاف برمبنی فیصلہ سناتی ہے یاویسے ہی اس نے اپنے آپ کو’’عالمی عدالت انصاف کانام دیاہوا ہے‘‘ ۔بین الاقوامی عدالتِ انصاف کی نیدرلینڈز میں جاری انڈین جاسوس کلبھوشن یادیوکے مقدمے کی سماعت18 فروری سے شروع ہوئی اور چاردن لگاتارجاری رہنے کے بعد 21فروری جمعرات کو پاکستان کی طرف سے وکیل خاور قریشی کے جوابی دلائل اور وضاحتوں پر اختتام پذیر ہوئی اورہیگ کی عدالت نے کیس پر فیصلہ محفوظ کرلیاہے۔اسے سوئے اتفاق ہی کہاجاسکتاہے کہ جس دن اس کیس کی سماعت شروع ہونے والی تھی توعین اسی دن پاکستان کے ایڈ ہاک جج تصدق حسین جیلانی کی طبیعت ناساز ہوگئی جس کی وجہ سے وہ بینچ کا حصہ نہیں بن سکے۔ہندوستان نے بین الاقوامی عدالتِ انصاف سے استدعا کی تھی کہ پاکستان میں جاسوسی کے الزام میں موت کی سزا پانے والے کلبھوشن کی سزا معاف کرنے کا حکم دیا جائے۔عدالت میں اس کیس کی سماعت دونوں ملکوں کے میڈیا نے کور کی۔ سماعت کے دوران دونوں ملکوں کا ایک دوسرے کے ساتھ رویہ سرد رہا۔جب پاکستان کے اٹارنی جنرل انور منصور خان نے بھارتی وکیل ہریش سالوے سے ہاتھ ملانے کی کوشش کی توبھارتی وکیل نے ان سے ہاتھ نہیں ملایابلکہ دست بستہ ہوکرہندوانہ طرزعمل اختیارکرلیا۔ ہندوستان کی طرف سے وکیل ہریش سالوے اپنے دلائل لکھ کر لائے تھے جو انھوں نے عدالت کے سامنے پڑھے۔ اس بیان کے متن کے مطابق، انڈیا کا زیادہ تر زور ویانا کنونشن اور اس کی شِق 36کی تشریح پر تھا۔شِق 36کسی ایک ملک کے شہری کو دوسرے ملک میں گرفتار ہونے کی صورت میں سفارتی مشاورت کی اجازت دیتی ہے۔ یعنی سفارت خانے کے حکام اس کو مل سکتے ہیں اور خط و خطابت بھی کرسکتے ہیں۔ ہندوستان کا موقف یہ رہا ہے کہ کوئی بھی ملک ایسا کرنے کا پابند ہے کیونکہ یہ قانون سب کے لیے یکساں ہے اور اس کا جاسوس ہونے یا نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ویانا کنونشن پر دونوں ملکوں نے اتفاق کرتے ہوئے دستخط کیے ہوئے ہیں۔ہندوستان نے اس بات پر بحث کی کہ پاکستان نے ان کی سفارتی مشاورت کی درخواست رد کر کے ویانا کنونشن 1963ء کی نفی کی ہے۔سماعت کے دوران انڈین وکیل نے پاکستانی وکیل کے لہجے پر اور ان کے الفاظ کے چنائو پر بھی اعتراض کیا۔دوسرے دن دلائل کا آغاز پاکستان کے اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کیا۔ انھوں نے پاکستان میں انڈیا کی طرف سے1971ء سے لے کر موجودہ دور تک ہونیوالی مداخلت کے بارے میں بات کی۔ انھوں نے کہا کہ مداخلت کے تانے بانے انڈین انٹیلیجنس ایجنسی را سے ملتے ہیں۔ساتھ ہی انھوں نے بلوچستان اور کراچی میں ہونے والے بم دھماکوں کے حوالے سے بھی بیانات سامنے رکھے۔ اٹارنی جنرل نے پاکستان کی انڈیا سے متعلق عمومی قانونی پوزیشن بیان کی۔ پاکستان کی طرف سے وکیل خاور قریشی نے کہا کہ اگر شِق 36کو جاسوسی کے زمرے میں دیکھا جائے تو سفارتی مشاورت رد کرنے کا جواز بنتا ہے یعنی سفارت خانے تک ان کی رسائی روک سکتے ہیں۔ساتھ ہی خاور قریشی نے موقف کی وضاحت کے لیے بین الاقوامی وکیلوں کی شِق 36کے بارے میں آرا اور قانونی زاوئیے سلائیڈ پریزینٹیشن کے ذریعے پیش کیے جبکہ کچھ باتیں انھوں نے زبانی کیں۔ اس دن قابلِ غور بات خاور قریشی کا لہجہ تھا، جو پوری سماعت کے دوران برجستہ تھا۔ خاور قریشی نے کہا کہ اول توہندوستان نے پاکستان کے سوالات کا تحریری جواب نہیں دیا ہے اور بھارت ’’نان سینس‘‘باتوں کی طرف عدالت کو متوجہ کرکے پاکستان کی طرف سے کیے گئے سوالات کا جواب نہیں دینا چاہتا۔اس دن کی اہم پیش رفت اس وقت ہوئی جب ہندوستان کی طرف سے مقرر کردہ نمائندے ڈاکٹر دیپک مِتل نے کہا کہ اگر اس کیس کی سماعت پاکستان کی کسی روایتی عدالت یا سول عدالت میں رکھی جائے تو بھارت کو منظور ہوگا۔ اس بیان کو پاکستان کی طرف سے جیت کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔آخری دن وکیل خاور قریشی نے سلائیڈز کا سہارا لیتے ہوئے اپنا بیان سامنے رکھا۔سماعت میں پاکستان کی طرف سے یہ موقف سامنے آیا کہ اس کیس کے حقائق دیکھتے ہوئے کلبھوشن کو سفارتی سروسز نہیں دینی چاہئیں۔ دیکھاجائے تو عالمی عدالت میں ہندوستان کازوراس بات پررہاہے کہ کلبھوشن کویہ عدالت رہائی لیکن اگروہ اسے رہائی نہ دلواسکے تو پھراسے فوجی عدالت سے سنائے جانے والی سزائے موت کے فیصلے کو کالعدم قرار دلوائے اور اگر یہ بھی نہیں کرواسکتی تو صرف ریویو کرنا کافی نہیں ہے،تو پھر سے ٹرائل کا آرڈر سیویلین عدالت میں دلوائیںکیونکہ بقول ہندوستان کے کلبھوشن کے حوالے سے پاکستان کی ملٹری عدالت ایک منصفانہ فیصلہ نہیں کرسکتی۔اس سے پتاچلتاہے کہ ہندوستان خوب جانتاہے کہ بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج کا’’بیٹا‘‘بھارتی نیوی کا حاضرسروس کمانڈرکلبھوشن کن کن جرائم میں ملوث ہے اوراسے کس نوعیت کی سزامل سکتی ہے ۔اس سے قبل4اکتوبر 2018ء کوہیگ کی عالمی عدالت میں اس کیس کی سماعت ہوئی تھی۔اسوقت عالمی عدالت نے کہا تھا کہ وہ فروری2019 ء میں پاکستان میں جاسوسی کے الزام میں سزائے موت کے منتظر کلبھوشن یادیوکے مقدمے کی سماعت کرے گی۔جب بھارت کلبھوشن کاکیس عالمی عدالت میں لے گیاتوپاکستان نے کہا تھا کہ اس کے پاس راکے جاسوس کلبھوشن کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود ہیں اور امید ہے کہ وہ مقدمہ جیت لے گا۔خیال رہے کہ ہندوستان نے 8 مئی 2018ء کو دی ہیگ میں واقع عالمی عدالتِ انصاف سے رجوع کرتے ہوئے اس معاملے میں مداخلت کی درخواست کی تھی۔عدالت نے 18مئی2018 ء کو اپنے ابتدائی حکم میں کہا تھا کہ اس معاملے کا فیصلہ آنے تک کلبھوشن کو پھانسی نہیں دی جا سکتی۔ واضح رہے کہ پاکستان کے خفیہ اداروں نے کلبھوشن کو3 مارچ 2016ء کو بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے گرفتار کیا تھا۔ کلبھوشن کو میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا تھا تواس نے اس امرکابھی اعتراف کیا کہ وہ انڈین نیوی کے حاضر سروس افسر ہیں اور جاسوس ہیں۔اپنے اعترافی بیان میں اس نے اپنے حاضر سروس نیوی افسر ہونے کا اعتراف کیا ۔ اس نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ وہ بھارتی خفیہ ادارے کے لیے کام کر رہا تھا اور بلوچستان کے علاقہ رشاخیل میں قائم پذیر تھا۔ اس کاکہناتھا کہ وہ بلوچستان کے دہشت گردوںکو مدد فراہم کر رہا تھا۔ جس کے بعداپریل 2017ء میں فوجی عدالت نے پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا مجرم قرار دیتے ہوئے اسے سزائے موت سنا دی تھی۔پہلے پہل ہندوستان کی وزراتِ خارجہ نے کہا تھا کہ بلوچستان میں گرفتار کیے گئے شخص کا انڈیا کی حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے اورپاکستان کے میڈیاپر کسی بھارتی شخص کوظاہرکرکے دکھانے کی ویڈیو جھوٹ پر مبنی ہے۔تاہم بعد میںہندوستان نے کلبھوشن کو اپنا شہری تسلیم کرتے ہوئے عالمی عدالتِ انصاف سے رجوع کیا۔چھ منٹ پر مشتمل ویڈیو میں کلبھوشن یادیو نے بتایا کہ اس نے انڈین خفیہ ادارے را کے لیے کام شروع کیا تھااور وہ کراچی اور بلوچستان میں را کی جانب سے بہت سی کارروائیاں کرتا چلاآیا ہے اور وہاں دہشت گردی کرتارہاہے۔اس نے بتایا کہ 3مارچ 2016ء کو پاکستانی حکام نے اسے اس وقت گرفتار کیا جب وہ ایران سے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا اور اس کا مقصد پاکستان میں داخل ہو کر ’’بی ایس این ‘‘بلوچ سب نیشنلسٹس کے دہشت گردوںسے ملاقات کرنی تھی جو آنے والے دنوں میں بلوچستان میں کوئی کارروائی کرنا چاہتے تھے۔بی جے پی کے ایک رکن سبرامینیم سوامی نے کہا ہے کہ اگر پاکستان نے کلبھوشن یادیو کو سزا موت دی تو بھارت کو بلوچستان کی علیحدگی کی حمایت شروع کر دینی چاہیے۔جبکہ ہندوستان کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کلبھوشن کو’’ انڈیا کا فرزند‘‘ قرار دیا اور پاکستان کی حکومت کو خبردار کیا کہ اگر کلبھوشن کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا تو پاکستان کو باہمی تعلقات پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں سوچ لینا چاہیے۔انسانیت کے ناطے پاکستان نے دسمبر 2017ء میں کلبھوشن یادیو کی ان کے اہلخانہ سے ملاقات بھی کروائی تھی جس کے لیے ان کی والدہ اور اہلیہ پاکستان آئے تھے۔