مجاہد بریلوی کو پہلی بار انڈس ٹی وی پر ٹاک شو کرتے دیکھا۔ ان وقتوں میں دوچار ہی اینکر ہوا کرتے تھے۔ بریلوی صاحب پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک کی طرف سے آئے۔ ترقی پسند حلقوں میں ان کی پہچان تھی۔ بھلے وقتوں کی نشانیاں سنبھالے بیٹھے ہیں‘ مروت‘ تعلق کی پاسداری اور چھوٹے بڑے کا احترام۔ لگ بھگ تین سال روزنامہ 92 نیوز میں کالم لکھا۔ اب ایک بار پھر الیکٹرانک میڈیا پر جلوہ گر ہیں جو وقت بچ رہتا ہے اس میں اپنا میگزین ’’رہبر‘‘ کے نام سے نکالتے ہیں‘ نامور کہانی کار الیاس سیتاپوری مرحوم کی ہونہار صاحبزادی زنوبیا الیاس مجاہد بریلوی صاحب کی معاونت کرتی ہیں۔ مجاہد بریلوی صاحب کا ادبی حوالہ ان کا وہ قابل قدر تصنیفی کام ہے جو انہوں نے شاعر عوام حبیب جالب کی شخصیت اور شعری اوصاف کے ضمن میں کر رکھا ہے۔ بہت سے غالب شناس ہیں، اقبال شناس ہیں ،جالب شناسی پر مجاہد بریلوی کو آپ سند قرار دے سکتے ہیں ۔ ان کی کتاب ’’جالب جالب‘‘ کا پہلا ایڈیشن فروری 2014ء میں شائع ہوا۔ حال ہی میں اس کا ساتواں ایڈیشن ملا۔ فہمیدہ ریاض کا لکھا دیباچہ اور مجاہد بریلوی کا پیش لفظ جالب کی شخصیت کے ان پہلوئوں کو دکھاتے ہیں جو صرف کوئی محرم ہی دیکھ سکتا ہے۔ کتاب میں حبیب جالب کے کوائف مختصراً مگر جامع انداز میں پیش کئے گئے ہیں۔ ضلع ہوشیارپور پنجاب میں 1928ء کو پیدا ہونے والے جالب کا پہلا شعر کوائف میں شامل ہے: وعدہ کیا تھا آئیں گے امشب ضرور ہم وعدہ شکن کو دیکھتے وقت سحر ہوا جالب نے 1963ء میں نظم ’’دستور‘‘ کہی۔ نظم کیا تھی بغاوت کا منتر تھا ، گرفتار ہو گئے۔ 1967ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی صدارت میں چھ ستمبر کو نظم پڑھی اور پھر حراست میں لے لئے گئے۔ 1970ء میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑا اور پیپلز پارٹی کے امیدوار سے ہار گئے۔ 12 مارچ 1993ء کو وفات ہوئی۔ جالب کی انقلابی شاعری‘ گرفتاریاں‘ سیاسی سرگرمیاں اور گھر کے مسائل ساتھ ساتھ پروان چڑھے۔ جالب کی شخصیت‘ نظریات اور شعر کو سمجھنے کے لیے مجاہد بریلوی صاحب کے جمع کردہ شخصی کوائف رہنمائی کا کام دیتے ہیں۔ نوجوان مجاہد بریلوی کراچی میں حبیب جالب کے ساتھی اور شریک بزم ہوا کرتے۔ یہ عقیدت بھرا تعلق بہت سے برسوں پر محیط رہا۔ اس تعلق نے مجاہد بریلوی کو فکری طور پر متاثر کیا لیکن ایک اہم صلاحیت یہ پیدا ہوئی کہ مجاہد بریلوی کو جالب کی اکثر نظموں اور شعروں کا پس منظر معلوم ہوگیا۔ ’’ایوبی آئین ممتاز قانون ساز میاں منظور قادر نے ترتیب دیا تھا۔ ایک بار منظور قادر نے عاصمہ جہانگیر کے والدملک غلام جیلانی کو اپنے ہاں بلایا اور بے چینی سے ٹہلتے ہوئے کہا: ملک صاحب اب ہمارا آئین نہیں چلے گا۔ وہ ایک نوجوان شاعر نے نظم لکھ دی ہے: ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا‘ میں نہیں جانتا ’’بھٹو صاحب کے اقتدار سے محروم ہونے کے چند دن بعد میٹروپول ہوٹل میں ایک تقریب تھی۔ جالب جیسے ہی مائیک پر آئے ہر طرف سے آوازیں آنے لگیں۔ ’’لاڑکانے چلو والی نظم سنائیں‘‘ جالب صاحب نے بڑے غصے سے ڈانٹتے ہوئے کہا‘ بھٹو جیل میں ہے‘ ان کی بیوی اور بیٹی مصیبت میں ہیں۔ میں حکمرانوں کے خلاف اس وقت شعر پڑھتا ہوں جب وہ اقتدار میں ہوں۔‘‘ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جالب کو گرفتار کر کے بدنام زمانہ میانوالی جیل میں ڈال دیا گیا۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نے بلا کر کہا ’’جالب صاحب یہاں آپ کو قلم ملے گا نہ کاغذ۔ آپ کی شاعری بھی آپ کے ساتھ بند رہے گی۔ جالب نے عمدہ جواب دیا: میری شاعری کو قلم اور کاغذ کی ضرورت نہیں ہوتی یہ بڑی سادہ اور آسان ہوتی ہے۔ میں اپنا شعر تمہارے حوالدارسنائوں گا‘ یہ باہر جا کر شہر کے چوک میں سنائے گا‘ وہاں سے یہ شعر سفر کرتا ہوا لاہور پہنچے گا اور پھر سارے پاکستان میں پھیل جائے گا۔‘‘ قومی ترانے کے شاعرحفیظ جالندھری نے ایک بار جالب سے کہا کہ میں ایوب خان کا مشیر ہو گیا ہوں۔ وہ مجھ سے فلاں مشورہ مانگتا ہے۔ میں یوں بتاتا ہوں۔ اس پر جالب کی نظم ’’مشیر‘‘ تخلیق ہوئی۔ چین اپنا یار ہے اس پہ جاں نثار ہے پر وہاں ہے جو نظام اس طرف نہ جائیو اس کو دور سے سلام دس کروڑ یہ گدھے جن کا نام ہے عوام کیا بنیں گے حکمران تو یقیں ہے ،یہ گمان اپنی تو دعا ہے یہ صدر تو رہے سدا میں نے اس سے یہ کہا بریلوی صاحب کراچی ہی نہیں لاہور اور دیگر شہروں میں جالب کے دوستوں سے واقف ہیں۔شاعر عوام کی خدمات احترام کرنے والے حکمران رہے نہیں ، مجاہد بریلوی عوام کی جانب سے اپنے عظیم دوست کو متعارف کروا کر فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔