ڈاکٹر جمیل جالبی جن کا بیمار جسم بے حس و حرکت ایک مدت تک سانس کی ڈور سے بندھا رہا مگر اس طرح کہ چلنا پھرنا تو الگ‘ بات چیت کے بھی قابل نہ تھے‘ کبھی کبھی آنکھیں کھولتے تھے مگر اپنے اوپر جھکے ہوئے ملاقاتی کو پہچان نہ پاتے تھے۔ ان کے بڑے بیٹے خاور جمیل نے باپ کی تیمار داری میں کوئی کسر کمی نہ چھوڑی۔ جب بیماری نے شدت اختیار نہ کی تھی اور وہ ملنے ملانے کے قابل تھے تو ایک دوپہر میں ان کی خدمت میں عیادت کی غرض سے حاضر ہوا تھا‘ انہوں نے سر پر اونی ٹوپی اوڑھ رکھی تھی اور وہیل چیئر پہ طمانیت سے بیٹھے تھے۔ چہرے سے جھلکتی ہوئی سرخی صحت کا پیغام دیتی تھی مگر شاید یہ چراغ کی آخری لو تھی جو زندگی اور حرکت و حرارت کی صورت میں بھڑک رہی تھی۔ میں جب تک بیٹھا رہا‘ وہ کتابوں کی اور علم و ادب کی باتیں کرتے رہے۔ مجھ سے کسی کتاب کا ذکر سن کر انہوں نے اسے دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ مجھے اک ذرا تعجب بھی ہوا کہ صحت کے بجائے اب بھی کتاب ہی کی آرزو ہے۔ انہوں نے اپنی صحت یابی کی بابت کوئی بات نہ کی دعا کرنے کے لئے بھی نہ کہا جیسے اکثر بیمار لوگ لجاجت سے استدعا کرتے ہیں۔ میں اکثر سوچتا تھا کہ کیا ان کی زندگی سے کچھ سیکھا جا سکتا ہے؟ اور جو کچھ سیکھا جائے کیا ان پر اسی طرح عمل کیا جا سکتا ہے؟ اس کا ایک ہی جواب اندر سے ملا کہ ہرگز بھی نہیں۔ ہم اپنے ہیرو کی پوجا پاٹ کر سکتے ہیں‘ اس کی شان میں قصیدے تو پڑھ سکتے ہیں لیکن لاکھ چاہنے اور سر پٹخنے کے باوجود اس جیسے نہیں بن سکتے۔ اس لئے نہیں بن سکتے کہ ہم پہلے سے بنائے ہوتے ہیں۔ ہم جو کچھ بن چکے ہوتے ہیں‘ اس میں معمولی سی تراش خراش تو ممکن ہے لیکن اپنی شخصیت کو ڈھا کر اس کی جگہ ہم اپنی شخصیت کو اس نہج پر تعمیر کر ہی نہیں سکتے جیسا ہم کرنا چاہتے ہیں‘ ہر شخص اپنے ہی جیسا ہوتا ہے۔ وہ دوسرے کی طرح بن ہی نہیں سکتا۔ یہی آدمی کا نصیب ہے اور یہی اس کی مجبوری اور لاچاری ہے۔ میں نے آخری بار جالبی صاحب سے ملنے کی کوشش یہ سن کر کی تھی کہ کراچی یونیورسٹی میں خاور جمیل ان کے نام پہ ایک ریسرچ لائبریری اپنے خرچے پر بنوا رہے ہیں۔ اس کا سنگ بنیاد رکھے جانے کے موقع پر جالبی صاحب کو بھی ایمبولینس پر لایا جائے گا۔ یہ سن کر میں کیمپس کی طرف بھاگا۔ ٹریفک کے رش میں پھنس کر تاخیر سے پہنچا۔ لوگ جمع تھے اور ریفرشمنٹ سے لطف اندوز ہو رہے تھے لیکن جالبی صاحب کی ایمبولینس انہیں لے کر جا چکی تھی۔ مجھے افسوس ہوا لیکن پھر یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ اچھا ہی ہوا کہ حافظے میں ان کی بے بسی اور بے کسی کی کوئی تصویر محفوظ نہ ہوئی ورنہ بعد میں جب بھی انہیں یاد کرتا‘ یہی تصویر نگاہوں کے سامنے آ جاتی۔ اب تو میں انہیں سوچتا ہوں تو وہ سر پہ اونی ٹوپی پہنے دمکتے ہوئے مسکراتے چہرے کے ساتھ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ’’یہ کتاب میری نظر سے نہیں گزری۔ اس کی فوٹو کاپی ٹی سی ایس کر دینا‘‘ جالبی صاحب میرے محسن و مربی بھی تھے۔ اب سے پچیس تیس برس پہلے جب وہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنائے گئے تو میرے شعبے کا سلیکشن بورڈ ہوا جس کے سامنے میں لیکچرار کے امیدوار کی حیثیت سے پیش ہوا۔ میرے ان سے مراسم قائم ہو چکے تھے لیکن میرے ضمیر نے گوارا نہ کیا کہ ان سے مل کر اپنی تقرری کے سلسلے میں کوئی درخواست کروں۔ انہوں نے سلیکشن بورڈ کے سامنے مجھے پا کرکوئی حیرت ظاہر نہ کی۔ ممکن ہے کسی ذریعے سے انہیں معلوم ہو گیا ہو۔ بورڈ میں قدرت اللہ شہاب ‘ ادا جعفری کے میاں نور الحسن جعفری‘ ڈان کے ایڈیٹر احمد علی خاں جیسی شخصیات تھیں۔ انٹرویو اچھا ہوا۔ اسی دن مجھے پتا چل گیا کہ بورڈ نے میرا انتخاب کر لیا ہے۔ سوچا جالبی صاحب کو فون کر کے شکریہ ادا کردوں لیکن اس کی بھی توفیق نہ ہو سکی۔ لیکچرار ہونے کے فوراً بعد ہی انہوں نے افسر تعلقات عامہ کااضافی چارج بھی مجھے دے دیا۔ اسی طرح مجھے انہیں بہت قریب سے دیکھنے اور برتنے کا موقع ملا جسے میں تفصیل سے ان پر اپنے لکھے ہوئے خاکے میں بیان کر چکا ہوں۔(یہ خاکہ میری کتاب ’’اوراقِ ناخواندہ‘‘ میں شامل ہے) افسوس کہ جب یہ خاکہ چھپا تو وہ لکھنے پڑھنے کی دنیا سے عملاً دور جا چکے تھے۔ زندہ موجود توتھے لیکن جیتے جاگتے انسان کی طرح نہیں‘ ایک ذمہ داری بن کر جو ان کے اہل خانہ نبھا رہے تھے۔ یہ بھاری آزمائش تھی جس سے کئی سال ان کا گھرانہ نبرد آزما رہا۔ اس کا تجزیہ میرا معمولی ذہن کبھی نہ کر سکا کہ اس کرب و اذیت سے انہیں اور ان کے گھرانے کو کیوں گزرنا پڑا۔ خدا کی مصلحت وہی جانے۔ میں تو یہ جانتا ہوں کہ انہوں نے اپنی صحت اور اپنی زندگی ساری کی ساری علم و ادب کی نذر کر دی۔ کوئی واحد مقصد جو مقناطیس کی طرح انہیں اپنی طرف کھینچتا تھا تو وہ یہی خدمت تھی جو وہ علم و ادب کی کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کتابوں پر کتابیں لکھیں اور کئی کام تو ایسے کیے جو نہ کسی نے پہلے کیے تھے اور نہ بعد میں شاید ہی کوئی کر سکے۔ مثلاً چار جلدوں میں وہ بھی ہزار ہزار صفحات کی‘ انہوں نے ’’تاریخ ادب ‘‘اردومرتب کی۔ اردو ادب کی بہت سی تاریخیں لکھی گئی ہیں لیکن ایسی تاریخ کا لکھنا کسی سے بھی ممکن نہ ہوا۔ یہ اب بھی اردو زبان و ادب کی سب سے اچھی اور مستند تاریخ ہے۔’’پاکستانی کلچر‘‘ ان کی ایسی فکر انگیز کتاب ہے جس سے علمی حلقوں میں کلچر کی بحث چھڑی اور اسی کتاب سے اہل علم کو اس موضوع میں دلچسپی پیدا ہوئی اور بہت سی کتابیں لکھی گئیں لیکن ’’پاکستانی کلچر‘‘ جیسی ہوش مندانہ اور بصیرت افروز کتاب پھر بھی نہ لکھی جا سکی۔جالبی صاحب اردو زبان کا دامن وسیع کرنا چاہتے تھے اس کے لئے انہوں نے مغربی زبان و ادب سے ایسے جواہر پاروں کو اردو میں منتقل کیا جس سے اردو کے علمی سرمایے میں بیش بہا اضافہ ہوا۔ ٹی ایس ایلیٹ پر وہ ایک مستقل کتاب کے مولف و مترجم ہیں۔اس کتاب میں انہوں نے ایلیٹ کی سوانح و شخصیت پر معلومات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اس کے منتخب مضامین کے ترجمے بھی کئے۔ ان کا ایک اور کارنامہ ’’ارسطو سے ایلیٹ تک‘‘ جس میں انہوں نے مغرب کی ڈھائی ہزار سالہ فکر کو نہایت منظم و مرتب طریقے سے اردو میں منتقل کیا۔ جب وہ مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشیں بنائے گئے تو انہوں نے ’’قومی انگلش اردو ڈکشنری‘‘ اپنی نگرانی میں مرتب کرائی۔ ایڈیٹر کی حیثیت سے وہ راتوں کو جاگ جاگ کر کام کرتے رہے اور ایک ایسی ڈکشنری دے گئے جو ہر گھر اور ہر دفتر کی ضرورت بن گئی۔ ان کا ادبی رسالہ ’’نیا دور‘‘ جو برسوں تک پابندی سے چھپتا رہا۔ جدید اردو ادبی رسائل میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ جالبی صاحب کی زندگی پر غور کرتا ہوں تو جو بات ابھر کر سامنے آتی ہے وہ وقت کا مفید اور بامقصد استعمال۔انہوں نے اپنی زندگی کا کوئی لمحہ ضائع نہیں کیا۔ علمی کاموں کے لئے وہ صحت کا خیال رکھنا ضروری سمجھتے تھے تو ہر روز چھڑی تھامے لمبی سیر پہ جانا ان کا معمول تھا۔ لکھنے پڑھنے کے وقت میں وہ کسی کی مداخلت قبول ہی نہ کرتے تھے۔ کام ان کے لئے عبادت کا درجہ رکھتا تھا۔ چاہے کام دفتر ہی کا کیوں نہ ہو۔ وہ دوستوں اور عزیزوں کا وسیع حلقہ بھی رکھتے تھے اور ان کے لئے بھی وقت نکالتے تھے۔ انہوں نے جوکامیابیاں حاصل کیں اس میں اعتدال و توازن سے سارے معاملات کو نبھانے کا فن شامل ہے۔ ہاں میں اسے فن ہی کہوں گا۔ فن جو حسن سے آراستہ ہوتا ہے۔ زندگی گزارنا بھی ایک فن ہے اسی سے زندگی خوبصورت ہو جاتی ہے۔ جالبی صاحب نہیں رہے تو یہ کوئی ایسی بات نہیں جو پہلی بار پیش آئی ہو۔ ہر صاحب کمال کواپنے کمالات دکھا کر دنیا سے رخصت ہو جانا ہے۔ شخصیت فنا ہونے والی ہے لیکن کمال فنا نہیں ہوتا۔ اگر معاشرے میں اسے سراہنے کی صلاحیت ہو۔