کبھی اشرف قدسی نے کہا تھا: اعلان جہل کر تجھے آسودگی ملے دانشوری تو خیر سے ہر گھر میں آ گئی واقعتاً یہ جہالت عجیب چیز ہے اور یہ معمولی شے بھی نہیں کہ آخر اس کا علم سے مقابلہ ہے اور یہ ایسی کیفیت یا سطح ہے کہ اسے سمجھنے میں بعض اوقات علم بھی جواب دے جاتا ہے اور بے بس نظر آتا ہے۔ ان کے تو کیا کہنے جو جہالت کو علم سمجھتے رہے اور ابو جہل کہلائے۔ یہ بھی تو کہا گیا کہ علم حاصل کرنا اصل میں اپنی جہالت کو ختم کرنا ہے گویا جب علم کی روشنی آتی ہے تو اپنی جہالت ایکس پوز ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہ جاننے کا عمل بھی عجیب اور عجیب وارفتگی کا متقاضی ہے۔ خالد احمد نے کہا تھا: کھلا مجھ پر درِ امکان رکھنا مرے مولا مجھے حیران رکھنا یہ تو بڑوں کی بڑی باتیں ہیں میں بات کر رہا تھا جہالت کی۔ اس پر کسی نے گرہ لگائی تھی کہ Ignorance is blessingواقعتاً بعض اوقات یہ بات کتنی سچی لگتی ہے کہ سچ مچ آگہی مل جائے تو وہ سونے نہیں دیتی جبکہ جہالت جاگنے نہیں دیتی۔ حمید حسین صاحب بتانے لگے کہ جہالت کو ایک تو عام فہم معنوں میں لیا جاتا ہے کہ یہ لاعلمی ہے کہ کوئی انجان ہے مگر اس کے ایک اصطلاحی معنی یہ بھی ہیں اس میں ہٹ دھرمی آ جاتی ہے۔ جہالت یہ ہے کہ آپ اپنی ہی خواہشات کے اسیر ہو کر اپنے ہی عقل و دل سے زندگی کے فیصلے کریں۔ آپ اپنے طرز زندگی یا اپنے اسلوب حیات پر ڈٹ جائیں کہ اپنے آبائو اجداد کے دین کو کیسے ترک کر دیں۔ نیکی اور خیر اسی کو سمجھیں تبدیلی کو قبول نہ کریں کتنی قومیں اسی جہالت کے باعث برباد ہوئیں کہ انہوں نے اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں اور پیغمبروں کی بات ماننے سے انکار کر دیا یعنی انہوں نے حق اور دوسرے لفظوں میں اللہ کے کلام کو اور پیغام کی تنکیر کی ۔ وحی کے مقابلے میں اپنی سوچ اور اپنا استدلال۔ جہالت کی یقینا اپنی دلیلیں ہوتی ہیں یہ پورا ایک پیکیج اور سیٹ اپ ہوتا ہے جس کے لوگ اسیر ہوتے ہیں۔ عقل بھی بڑی تیزہے خود ہی جہالت کے بت تراشتی رہتی ہے۔ مثلاً دیکھیے جب رسول آئے تو اس عصر کے لوگ خاص طور پر اشرافیہ ان سے یہ سوال کرتی ہے کہ کیا خدا نے انہیں ہی پیغمبری کے لیے چنا تھا‘ بڑے بڑے لوگ کیا مر گئے تھے ان کے اپنے پیمانے اور اپنے ترازو تھے۔ اللہ اس سے بے نیاز ہے وہ جسے چاہے چن لے اور دیکھیے کے پہاڑ سے اونٹنی بھی نکل آئی مگر جہالت اڑی رہی۔ کسی رسول کو جادوگر کہہ دیا تو کسی کو کچھ۔ اکثر کو تو قتل ہی کر دیا۔ فرعون نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ کتنا رسوا ہوا مگر اس کا تکبر اور رعونت آڑے آئی یہی جہالت تھی جس نے سچ کو راستہ نہ دیا۔ آپ ذرا قوم لوط کا حال تو دیکھیں انہوں نے ایک غیر فطری عمل کو اپنایا اور رسولؐ کی بات بھی نہیں مانی۔ وہ اس عمل کو ٹھیک سمجھتے تھے۔ ایک غیر فطری عمل پر نازاں تھے۔ جہالت جہاں لاجواب ہوتی ہے تو طاقت استعمال کرتی ہے حضرت ابراہیمؑ کے ضمن میں کیا کیا گیا کہ انہیں اٹھا کر بھڑکتے الائو میں پھینک دیا گیا۔ایسا نہیں تھا کہ وہ سب کچھ سمجھتے نہیں تھے۔ حق کو پہچاننے سے قاصر تھے۔ وہ باخبر تھے مگر ان کا گھمنڈ انا اور شان و شوکت انہیں جھکنے نہیں دیتی تھی کہ ایک عام آدمی ان کا سارا طرز زندگی بدل کر رکھ دے اور ان کے آبائو اجداد کے طریقہ ہائے زندگی کو اکھاڑ پھینکے اور پھر یہ کہ جو علاقے کے سفید و سیاہ کے مالک تھے اور سب ان کو سلام کرتے تھے اب وہ اپنی بڑھائی اور برتری کی بنیاد کو کیسے ختم کر دیتے۔ طاقت ان کے پاس تھی ‘ طاقت کی اپنی زبان ہوتی ہے اپنے قانون ہوتے ہیں۔ آپ ذرا صلح حدیبیہ کو دیکھیں کہ انہوں نے معاہدہ میں کیا لکھوایا کہ حضور ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ اگلے سال حج کریں گے‘ہتھیار نہیں لائیں گے اور یہ کہ اگر ان کا کوئی شخص ان کے پاس آئے گا تو انہیں واپس کرنا ہو گا جبکہ کوئی مسلمان ان کے پاس آیا وہ واپس نہیں کریں گے۔ حتیٰ کہ جب حضورؐ نے دستخط کیے تو انہوں نے وہاں رسول اللہؐ نہیں لکھنے دیا بلکہ محمد بن عبداللہ لکھنے کو کہا۔ یہ سب کیا تھا؟ وہ سب کچھ جانتے اور پہچانتے تھے مگر اپنی طرز زندگی نہیں چھوڑ سکتے تھے چودہراہٹ کا مسئلہ تھا۔ زمانہ کوئی بھی ہو جہالت اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔ قدیم اور جدید میں آپ کو فرق نظر نہیں آئے گا۔ آپ دیکھتے نہیں کہ اسی طرح جہالت بزعم خویش اپنا آپ منوانے پر بضد ہے۔ کیا اسی لواطت کو اب مغربی ملکوں نے خاص طور پر امریکہ نے قانونی حیثیت نہیں دے دی۔ یہ ویٹو کیا ہے اور استثنیٰ کیا اس رویے میں انصاف کہاں ہے؟ وہی اشرافیہ جس پر کوئی حد لاگو نہیں ہوتی مشرقی تیمور بن سکتا ہے مگر کشمیر اور فلسطین کے ضمن میں دیکھیں تو جیسے وہ انسان ہی نہیں۔ دہشت گردی کی تعریف بھی وہ کریں گے۔ سب کچھ وہی بتائیں کہ اچھائی اور برائی کے کیا معیارات ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس ہو یا جوزف آپ اسے ہاتھ نہیں لگا سکتے کہ وہ امریکی ہے عافیہ صدیقی کو غیر انسانی سزائیں کیونکہ وہ مسلمان ہے۔ یہی جہالت ہے کہ جو انصاف کا قتل کرتی ہے۔ انسانی اقدار کی دھجیاں اڑاتی ہے اور اپنی دھونس جماتی ہے۔ بہرحال جہالت کا دور دورہ ہے حق کے ساتھ کھڑے ہونا دل گردے کا کام ہے۔ یہی جہالت کبھی آزادی اظہار کے نام پر کیا کیا گل کھلاتی ہے۔ اسے حجاب اچھا نہیں لگتا۔ ویسے جمہوریت پسند ہے اور فرد کو اپنے عمل کا اختیار دیتی ہے کیا تضاد ہے؟ گویا جہالت رویے کا نام ہے جس میں طاقت اور اختیار والے من مانی کرتے ہیں۔ دوسروں کو الو بنا کر بس اپنا الو سیدھا رکھتے ہیں۔ دو شعروں کے ساتھ اجازت: حاکم نے جو کہا وہی منقول ہو گیا قانون اس کے پائوں کی بس دھول ہو گیا ہم لوگ ظلم سہنے کے عادی ہوئے تو پھر ظالم کا ظلم کرنا بھی معمول ہو گیا