آج ایک بارپھرشیخ الہندکاموقف سرچڑھ کربول رہاہے اوربھارت کے پاس کردہ شہریت ترمیمی بل کے خلاف جامعہ ملیہ کے طلبہ برسراحتجاج ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ بھارت کے دار الحکومت نئی دہلی میں واقع ایک مرکزی یونیورسٹی ہے۔بنیادی طورپر 1920 ء میں برطانوی راج میں موجودہ دور کے اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں قائم کی گئی تھی۔ 1988 ء میں بھارتی پارلیمان کے ایک ایکٹ کے تحت جامعہ ملیہ اسلامیہ کو مرکزی یونیورسٹی کا درجہ ملا۔ اس کے بانیوں میں شیخ الہند مولانا محمودالحسن،مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان تھے ،ان حضرات کا خواب ایک ایسا تعلیمی ادارہ کا قیام تھا جہاں بالخصوص مسلمانوں کے لئے تعلیمی مواقع دستیاب ہوں اوریہ جامعہ ہزاروں طالبان جدید علوم کی تشنگی کا سامان فراہم کرے ۔ 1925 ء میں جامعہ ملیہ کو علی گڑھ سے قرول باغ، نئی دہلی میں عارضی طورپر منتقل کیا گیا۔یکم مارچ 1935 ء کو اوکھلا میں جامعہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اوکھلا جنوبی دہلی کا کا ایک غیر رہائشی علاقہ تھااور اسے باضابطہ طورپر ایک قومی یونیورسٹی کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ 1988 ء میں جامعہ کو بھارتی پارلیمان کے جامعہ ملیہ اسلامیہ ایکٹ، (59/1988)کے تحت مرکزی یونیورسٹی کا درجہ ملا۔2006 ء میں سعودی عرب کے سلطان سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے جامعہ کو 3ملین ڈالر کا نذرانہ پیش کیا جس سے ڈاکٹرذاکر حسین کے نام پرایک بہت بڑی لائبریری کا قیام عمل میں آیا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے بانی حضرت شیخ الہند محمود حسن ریشمی رومال تحریک کے روح رواں اوربرٹش حکمرانوں کے خلاف آزادی ہند کے متوالے تھے جس کی پاداش میں انگریز سرکار نے انہیں کالے پانی کی سزا سناکر مالٹا کے قید خانہ میں بند کر دیا تھا۔حضرت شیخ الہند نے انگریزوں کو ہندوستان سے باہر نکالنے اور اسلام پر جاں نثار نوجوانوں کی فوج تیار کرنے کے لئے دلی میں نیشنل مسلم یونیورسٹی کی بنیاد رکھی تھی جو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نام سے پہچانی جاتی ہے ۔اس موقع پر شیخ الہند نے اپنے خطبہ صدارت میں کہا تھا۔ میں نے اس پیرانہ سالی اور علالت و نقاہت کی حالت میںجس کا آپ خود مشاہدہ فرمارہے ہیں آپ کی دعوت پر اس لیے لبیک کہا کہ میں اپنی ایک گم شدہ متاع کو یہاں پانے کا امیدوار ہوں۔ بہت سے نیک بندے ہیں، جن کے چہروں پر نماز کا نور اور ذکر اللہ کی روشنی جھلک رہی ہے لیکن جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدارا اٹھو اوراس امت مرحومہ کو کفار کے نرغہ سے بچا تو ان کے دلوں پر خوف و ہراس مسلط ہوجاتا ہے۔ خدا کا نہیں بلکہ چند ناپاک ہستیوں کا، اور ان کے سامان حرب و ضرب کا۔حالانکہ ان کو تو سب سے زیادہ جاننا چاہیے تھا کہ خوف کھانے کے قابل اگر کوئی چیز ہے تو وہ خدا کا غضب اور اس کا انتقام ہے۔اب جس وقت ملت اسلامیہ ہند اپنے سب سے برے دور سے گزر رہی ہے ۔ بھارت کی ہر حکومت نے طے کرلیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی پہلو سے مسلمانوں کو مضطرب اور بے چین کرتے رہیں گے ، کبھی کبھی تو وہ دبی راکھ سے چنگاری کرید کر لاتے ہیں اور مسلمانوں کے دلوں میں آگ لگا دیتے ہیں، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کے حوالے سے فروغ انسانی وسائل کی وزارت نے 5مارچ کو جو حلف نامہ داخل کیا اس کا مقصد یہی ہے، ویسے بھی یہ راگنیاں اس وقت زیادہ الاپی جاتی ہیں جب ملک میں کسی جگہ انتخابات کی آہٹ سنائی دیتی ہے، آنے والے چند مہینوں میں ملک کی پانچ ریاستوں میں الیکشن ہونے جارہے ہیں، ہندو ووٹ بنک کو مضبوط اور متحد کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمانوں کی دل آزاری کا کچھ سامان کیاجائے، کرب والم سے وہ چیخیں گے، چلائیں گے، جلسے جلوس ہوں گے، دھرنے مظاہرے ہوں گے، جتنی شدت کے ساتھ یہ کام ہوں گے اسی سرعت کے ساتھ ہندو ووٹ بی جے پی کے حق میں سمٹتا چلا جائے گا، یہ کہانی مسلسل دہرائی جارہی ہے، اور اس وقت تک اسی طرح دہرائی جاتی رہے گی، اس لئے بہتر تو یہ ہے کہ اس معاملے پر زیادہ اچھل کود نہ ہونی چاہئے، یوں بھی معاملہ کورٹ میں ہے، جہاں جلسے جلوسوں سے زیادہ ثبوت اور دلائل کام دیتے ہیں، فی الحال تو ملت اس پر بھی سرپیٹ رہی ہے کہ اتنا بڑا واقعہ ہوگیا، جامعہ ملیہ کا اقلیتی کردار خطرے میں پڑ گیا مگر جامعہ کی طرف سے کورٹ میں دفاع کے لئے کوئی وکیل تک پیش نہ ہوسکا، کہنے والے اسے لاپروائی بھی کہہ رہے ہیں، اور مجرمانہ غفلت بھی، جب کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس معاملے میں جو کچھ کیا گیا ہے وہ جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا ذکر آتا ہے تو انگریز استعمارکے خلاف تحریک آزادی کے پہلو سے جنم لینے والی تحریکِ ترکِ موالات کا خیال ضرور آتا ہے جس نے جدوجہد آزادی کو نیا رنگ اور نیا آہنگ دیا اور جس نے اس جد وجہد کے ذریعے حصولِ آزادی کے ہدف کو قریب تر لانے میںموثر کردار ادا کیا۔یہ فروری 1920ء کی بات ہے، کلکتہ کے ٹائون ہال میں تحریک خلافت کا جلسہ منعقد ہوا، اس کے صدر مولانا ابو الکلام آزاد تھے، جلسے میں اعلان کیا گیا کہ اب انگریزوں کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق باقی نہیں رہے گا، ستمبر 1920 ء میں کلکتہ ہی میں کانگریس کا جلسہ ہوا جس میں اس اعلان کی مکمل تائید کی، ان ہی کی رہ نمائی میں ترکِ موالات کا آغاز ہوا، اس تحریک کے اہم نکات یہ تھے کہ حکومت کے خطابات واپس کردئے جائیں، کونسلوں کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا جائے، سرکاری ملازمتیں چھوڑ دی جائیں، تعلیمی ادارے سرکاری امداد قبول نہ کریں، مقدمات سرکاری عدالتوں کے بجائے نجی پنچایتوں میں پیش ہوں، انگریزی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے، ان دنوں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی مالٹا کی جیل سے رہا ہوکر ہندوستان واپس تشریف لا چکے تھے، انھوں نے ترکِ موالات کی تائید میں قرآن وحدیث سے مستنبط دلائل سے مزین فتوے جاری کئے، ان فتووں کی گونج علی گڑھ میں بھی سنی گئی، جہاں سر سید کا قائم کردہ محمڈن کالج انگریزی حکومت کے سرمائے سے چل رہا تھا۔