پاکستان پہ کوئی ایسی مصیبت نہیں آپڑی، جس کا تدارک ممکن نہ ہو۔المیہ یہ ہے کہ ہوش مندی کا نام و نشان تک نہیں۔فقط ہیجان ہی ہیجان۔ اقتدار کے بھوکے باہم دست و گریبان۔کسی کو رک کر سوچنے کی فرصت نہیں۔کسی کو ادراک نہیں کہ مصائب آپڑیں تو ضرورت حکمت کی ہوتی ہے،چیخنے چلانے کی نہیں۔ یہ مشکلات اور دشواریاں نہیں جو بربادی کا باعث بنتی ہیں۔ آدمی پیدا ہی آزمائش کے لیے ہوا۔کھیت میں کام کرتا مزدورہو یا کھرب پتی۔کبھی نہ کبھی کوئی مسئلہ اسے آلے گا یا شاید کوئی آفت بھی۔انحصار اس بات پر ہوتاہے کہ اس مشکل سے وہ نمٹتا کیسے ہے۔ قومیں امتحان میں ڈالی جاتی ہیں اورقبیلے بھی۔قل آغا یاد آئے۔وسطِ ایشیا سے تعلق رکھنے والے اس قبیلے پر امتحان کے اتنے واقعات گزرے اور ایسے کڑے کہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ دریائے آمو کے پار وہ آسودگی کی زندگی جی رہے تھے کہ کمیونسٹ انقلاب نے آلیا۔ ہجرت کی اور چینی ترکستان جا پہنچے۔قرار کے چند ہی برس گزرے تھے کہ وہاں بھی کمیونسٹ مسلط ہو گئے۔وہ قبائلیوں سے زیادہ قبائلی تھے، ایک خاندان کی طرح بسنے والے۔ فیصلے جہاں مشورے سے ہوتے ہیں۔کمزوروں کی مدد کی جاتی ہے اور انصاف کے نظام پر سختی سے عمل درآمد۔سویت یونین کی افواجِ قاہرہ سے وہ کیا لڑتے۔کسی نہ کسی طرح دریا پار کیا اور پامیر پہاڑوں کی ویران بلندیوں پر آباد ہو گئے۔قبیلے کا ذریعہ آمدن مویشی پالنا تھا یا ان سے بنی ہوئی دستکاریاں۔انہی کا دودھ پیتے،انہی کا گوشت کھاتے۔دودھ سے گھی اور پنیر بناتے اور قریب کہیں بیچ آتے۔بیماروں،بوڑھوں اور مفلسوںکی مدد کا ایک نظام قائم تھا۔سال میں ایک بار کابل میں دربار سجتا توسردار کو مدعو کیا جاتا۔وہ پر امن شہری جو قانون کے پاسدارتھے اور ریاست کے لیے جنہوں نے کبھی کو ئی مسئلہ پیدا نہ کیا تھا۔اپنے ساتھ لائی گئی شاندار دستکاریاں بیچنے کے بعد وہ آسودہ ہوتا مگر قبیلے کے لیے مدد مانگنے یا کوئی فرمائش کرنے کی بجائے نہایت وقار کے ساتھ دربار میں وقت بتا کر پامیر لوٹ جاتا،جسے بامِ دنیا یعنی دنیا کی چھت کہا جاتا ہے۔ اللہ جانے قل آغا کے قبیلے سے کمیونسٹوں کو کیا پرخاش تھی کہ سال دو سال میں ایک بار ان پر حملہ کیا جاتا۔قل آغا نے ایک دن اپنے باپ کو بھیڑ کی کھال سے کوئی چیز بناتے دیکھا۔ایک چھوٹی سی مشک’’مجھے قتل کرنے کے لیے ان کی سب کوششیں ناکام ہو چکیں۔اب کی بار شاید وہ مجھے زہر دینے کی کوشش کریں‘‘اس نے اپنے جواں سال بیٹے سے کہا۔یہ زہر کا تریاق ہے۔حیرت انگیز طور پر ایسا ہی ہوا۔ایک دن آدھی رات کے بعد خاموشی سے وہ آئے۔تنی ہوئی بندوقوں کے ساتھ سردار کے خیمے میں گھسے اور زہر کا پیالہ آگے بڑھا دیا۔سردار نے زہر پیا اور اس کے بیٹے نے بھی۔کمیونسٹ فوجی لوٹ گئے۔باپ اوربیٹے کی موت اب یقینی تھی،جس کے بعد قبیلہ بکھر جاتا۔قل آغا نے تریاق والی مشک نکالی اور دو پیالے۔اپنے بیٹے سے کہا:جتنا زیادہ تم پی لو گے،اتنا ہی تمہارا بچ نکلنے کا امکان ہوگا۔پیتے پیتے ان کے پیٹ پھول گئے۔ کراہت ہونے لگی مگروہ پیتے ہی رہے،بچ نکلے۔ بوڑھے سردار کی صحت اگرچہ ٹوٹ گئی مگر قل آغا پوری طرح بحال رہا۔ سب سے بڑی یلغار 1980ء کے اوائل میں ہوئی،جب روسی فوج ان پر ٹوٹ پڑی۔تین دن تک قبیلہ ان سے نبرد آزما رہا لیکن پھر انہوں نے ہجرت کا فیصلہ کیا۔پیچیدہ پہاڑی راستوں سے گزرتے ہوئے انہوں نے پورا افغانستان عبور کیا۔حیرت انگیز طور پر راستے میں کوئی حادثہ پیش نہ آیا اور لگ بھگ دو لاکھ بکریوں کے ساتھ وہ چترال میں داخل ہو گئے۔ دنیا ابھی سکتے میں تھی۔مہاجرین کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا۔بیماری پھیلی اور بہت سے جانور مر گئے۔قبیلے کی حالت بگڑنے لگی۔ سردار نے اسلام آباد کا رخ کیا کہ اقوامِ متحدہ سے مدد مانگے۔بہت تھوڑی سی مدد ہی مل سکی۔ ایک دن اس نے ترک سفارت خانے پر دستک دی۔سفیر کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ کہا:میں ایک ترک ہوں اور میرا قبیلہ بھی۔تمہیں میری مدد کرنی چاہئیے۔ترک سفیر نے اس کی کہانی سنی اور دنگ رہ گیا۔کیسی ہولناک مصیبتوں سے وہ گزرا تھا۔اس کے باوجود کس وقار سے وہ بات کر رہا تھا۔ فوری طور پر اس نے استنبول سے رابطہ کیا۔جیسا کہ آزربائیجان کے واقعات سے آشکارہے،ترک اپنے ہم نسلوں کے بارے میں بڑے حساس ہیں۔جواب ملا:ان سے پوچھو،وہ کیا چاہتے ہیں۔سردار کا جواب حیران کن تھا:ہم اپنی وہی قدیم زندگی جینا چاہتے ہیں اور اپنے ہی قرینے سے مگر اب ترکی کے کسی جنگل میں۔ہمیں تو بسنے کے لیے تھوڑی سی جگہ چاہئیے۔کچھ دن بات چیت ہوتی رہی۔پھر فیصلہ صادر ہو گیا۔ استنبو ل کے قریب ترکی کے ایک جنگل میں بچے کھچے ان چند سو آدمیوں کے لیے پناہ کا بندوبست ہو گیا۔ طویل قامت قل آغااسلام آباد کے ہوائی اڈے پر سروقامت کھڑا تھا۔کچھ دیر میں اسے جہاز پہ سوار ہونا تھا۔اس کے پہلو میں ایک خنجر لٹک رہا تھا اور ایک پستول۔ خنجر خاندانی یادگار تھا اور پستول ایک جرمن محقق نے اسے تحفے کے طور پر دیا تھا۔قل آغاسے کہا گیا کہ اسلحہ جہاز میں نہیں لے جایا جا سکتا۔ اپنی ہمیشہ کی پروقار آواز میں اس نے کہا: ان دونوں چیزوں کو کبھی میں نے خود سے جدا نہیں کیا۔یاد نہیں پڑتا کہ کیا فیصلہ ہوا۔اسلحہ اس سے لے لیا گیا کہ استنبول میں لوٹا دیا جائے گایا اس کی شرافت پہ بھروسا کرتے ہوئے اس کے پاس رہنے دیا گیا۔ لگ بھگ پینتیس برس بیت چکے۔قل آغا کا قبیلہ ترک جنگل میں آسودہ ہے۔اسی طرح جانور پالتاہے،اسی طرح قضیے طے ہو تے ہیں۔ قبیلے میں کسی پر مصیبت آپڑے تو دادرسی کی جاتی ہے۔بغیر سود کے قرض دیا جاتاہے۔دودھ دوہا اور پیا جاتاہے۔باقی ماندہ سے پنیر بنا لیا جاتاہے۔گھریلو عورتیں وہی قدیم،شاندار دستکاریاں تخلیق کرتی ہیں،جو استنبول اور انقرہ کے بازاروں میں بھاری قیمت پاتی ہیں۔ہفتے میں ایک دن استنبول سے ایک بس آتی ہے کہ مسافروں کو شہر لے جائے۔ اپنی مصنوعات وہ بیچتے ہیں۔حکومت ان کے کسی معاملے میں مداخلت کرتی ہے اور نہ وہ حکومت کے کسی قصے میں۔ زمانہ گزرا،اب یہ بھی معلوم نہیں کہ قل آغا زندہ ہے یا قبیلے کی سرداری کسی اور کو سونپی جا چکی مگر یہ معلوم ہے کہ صبر اور استقامت نے فنا ہونے سے انہیں بچا لیا۔انہوں نے اپنا قدیم طرزِ زندگی برقرار رکھا اور شائستگی سے جیتے ہیں۔ وہ کبھی ہاتھ نہیں پھیلاتے۔خود ترسی کی نوبت کبھی نہیں آئی۔ پاکستان پہ کوئی ایسی مصیبت نہیں آپڑی،جس کا تدارک ممکن نہ ہو۔المیہ یہ ہے کہ ہوش مندی کا نام و نشان تک نہیں۔ فقط ہیجان ہی ہیجان۔ اقتدار کے بھوکے باہم دست و گریبان۔ کسی کو رک کر سوچنے کی فرصت نہیں۔ کسی کو ادراک نہیں کہ مصائب آپڑیں تو ضرورت حکمت کی ہوتی ہے، چیخنے چلانے کی نہیں۔