ایک قومی لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ فوجی قیادت، صوبائی حکومتوں، ذمہ دار اپوزیشن لیڈروں اور ماہرین سے مسلسل مشورہ۔ ملک بھر میں آگہی کی ایک بھرپور مہم۔ صرف صفائی،مزاحمت بڑھانے والی خوراک اور احتیاطی تدابیر سے ممکنہ تباہی کی سطح بہت کم ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ کورونا وائرس پہلی بلا نہیں جو بنی آدم پہ اتری ہے۔ٹی وی دیکھنے اور اخبار پڑھنے والے سب لوگ جانتے ہیں کہ کب کب کہاں کہاں طاعون اور ہیضہ پھیلتا رہا۔پولیو، چیچک، ایڈز اور ایبولا ابھی کل کی بات ہیں۔ بعض سے انسان نے چھٹکارا پا لیا۔ بعض سے نجات کے مرحلے میں ہے۔ کورونا وائرس کی ویکسین بھی ایجاد کر لی جائے گی۔ اسرائیل، آسٹریلیا اور برطانیہ سے دعوے تو اب بھی سامنے آئے ہیں مگر مصدقہ ایک بھی نہیں۔ کہا گیا کہ گرما کا سورج اس ہلاکت خیز جرثومے کو ہلاک کر دے گا۔ سائنسدان اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ قابلِ فہم یہ ہے کہ مرض آسانی سے دریافت کیا جا سکتاہے۔ دس سیکنڈ تک سانس روکا جائے تو اندازہ ہو جاتاہے کہ پھیپھڑوں میں خرابی ہے یا نہیں۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ بہت تیزی سے پھیلتا ہے۔ ایک سے دس، دس سے سو، سو سے ہزار، ہزار سے لاکھ۔ خوش قسمتی سے اموات کی شرح کم ہے۔ بہت چھوٹے بچّے یا چالیس سے اوپر کے لوگ شکار ہوتے ہیں، دو فیصد۔ سب سے اہم بات یہی ہے کہ وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر مہم کی ضرورت ہے۔ چین کا کامیاب ماڈل ہمارے سامنے ہے۔ شہر انہوں نے بند کر ڈالے۔ سبھی کا معائنہ کیا۔ جہاں جہاں، جس جس کے علاج کی ضرورت تھی، ہمدردی اور چابک دستی سے اہتمام کیا۔ چند ہفتے بعد ہی بچنے والوں کی تعداد مبتلا ہونے والوں سے بڑھ گئی۔ ایران اور اٹلی کے سانحے تساہل اوربے حکمتی کا نتیجہ ہیں۔آغازِ کار میں چینیوں کوبھی مغالطہ ہوا۔ تشخیص کرنے والے سائنسدان کو گرفتار کر لیا گیا۔یہ قابلِ فہم ہے کہ تب یقین کرنا بہرحال مشکل تھا۔ جیسے ہی قیادت کو سنگینی کا ادراک ہوا، بہت تیزی کے ساتھ بڑے بڑے عارضی ہسپتال بنا دیے گئے۔ عمارتیں استوار کرنے میں چینیوں کا اندازِ کار یہی ہے۔ ہزاروں برس کا وہ تجربہ رکھتے ہیں۔ آپ کسی افریقی ملک میں کسی وسیع و عریض خالی قطعے پر چینیوں کو عمارت بناتے دیکھیں۔ ہفتے بھر میں اگر وہ مکمل ہو جائے تو تعجب کی اس میں کوئی بات نہیں۔ اب تو خیر یورپی، امریکی اور ترک بھی مقابل ہیں۔ ہفتہ بھر نہیں تو دو چار ہفتے میں تعمیر مکمل کر ڈالتے ہیں۔ نسخہ یہ ہے کہ دیواروں، چھتوں، کھڑکیوں اور چھت سمیت ہر چیز کارخانے میں پہلے سے ڈھالی جاتی ہے۔ پل اس طرح نہیں بنتے، جیسے ہمارے ہاں۔ ستون اور چھتیں فیکٹریوں میں ڈھالی جاتی ہیں۔ تیس برس پہلے ایک دن میں ایک کلومیٹر پر پل بنانے کے وہ قابل ہو گئے تھے۔ بنی بنائی چھتیں اور دیواریں پاکستان میں بھی مہیا ہیں اور پچاس برس سے۔ مگر ہماری المناک قدامت پسندی۔ رواج اور فیشن سے انحراف میں نکّو بننے کا خوف۔ اینٹوں سے ہم دیواریں بناتے ہیں اور کنکریٹ کی چھتیں۔ درمیانے طبقے کا کوئی بھی آدمی سادہ ٹائلوں اور اینٹوں کی بجائے خوبصورت پتھر کا فرش استوار کرتا ہے۔ عمر بھر کی پونجی اکثر مکانوں پہ اٹھتی ہے یا شادیوں پر۔وسیع و عریض خیمے، طرح طرح کے کھانے، زیورات، زرق برق لباس اور ہزاروں مہمان۔ بر صغیر کا مرض احساسِ کمتری اور اس کے نتیجے میں خودترسی ہے۔ یہ ملوکیت، ملّائیت اورجاگیردار ی کے اثرات ہیں۔ ضرورت کی تکمیل نہیں بلکہ شان و شوکت۔ آدمی اپنے زمانے میں زندہ رہتاہے اور قومیں بھی۔ ماضی میں جینا خطرناک ہے۔ زندگی کو مہنگا، مشکل اور پیچیدہ بنانے کا عمل۔ ایک صدی ہوتی ہے، جب اقبالؔ نے کہا تھا آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں ایران میں اس لیے وائرس تیزی سے پھیلا کہ مولوی صاحبان نے چھپانے کی کوشش کی۔اٹلی میں اس لیے کہ سیاحوں کی آمدرفت بہت ہوتی ہے۔ اطالوی قوم میں اہلِ ایشیا ایسی کچھ قدامت پسندی اور کاہلی پائی جاتی ہے۔ تیس پینتیس برس پہلے ہونے والے سروے بتایا کرتے کہ یورپ کی حد تک اٹلی کے مزدور کی کارکردگی سب سے کم اور کاروباری سب سے کم قابلِ بھروسہ۔ ایران اور روم کے عدمِ احتیاط کی سزا دوسری قوموں کو بھی بھگتنا پڑی۔ ہمارے لیے تو تہران ہی وبالِ جان ثابت ہوا۔ بروقت وہ اطلاع دیتے او رسرحد پر مریضوں کے لیے قرنطینہ کا اہتمام کر دیا جاتا تو متاثرین کی تعداد ددس فیصد سے بھی کم ہوتی۔ عالمی پریس اور ادارے حکومتِ پاکستان کے طرزِ عمل کو صحت مندانہ قرار دیتے ہیں۔ دوسرے ممالک کے مقابلے میں قدرے زیادہ مستعدی کا مظاہرہ۔ خاص طور پر سندھ میں، جن سے کوئی خاص امید کبھی وابستہ نہ تھی۔ یہ بحث الگ کہ نتیجہ کیا نکلا، وزیرِ اعلیٰ مراد علی شاہ بہرحال پہلے دن سے بھاگ دوڑ کرتے نظر آئے۔ رہنمائی اور معلومات فراہم کرنے کی حد تک ظفر مرزا کی بھی ستائش کی جانی چاہئیے۔ یہ سوچ کر آدمی لرز اٹھتا ہے کہ عامر کیانی ہی اب تک وزیرِ صحت ہوتے تو انجام کیا ہوتا۔ کم فہم لوگوں کو مناصب عطا کرنا ملکوں اور قوموں کی تباہی کو دعوت دینا ہے۔ خا ن صاحب تامل میں پڑے رہے۔ پیر کی صبح تک قوم سے خطاب نہیں کیا۔ نہ صرف خطاب کرنا چاہئیے بلکہ جنگی بنیادوں پر مہم کا آغاز۔ جیسا کہ بارہا بیان کیا، عمر فاروقِ اعظمؓ کے بارہ برسوں میں پانچ سال قحط کے تھے۔ امیر المومنین ؓنے خاندا ن کا راشن کم کر ڈالا تھا۔ قوت لا یموت، بس اتناکہ زندہ رہ سکیں۔ رنگ زرد اور جسم دبلے ہونے لگے۔ ایک دن امیر المومنینؓ اپنی پوتی کو پہچان نہ سکے۔ ایثار کیا، صدمے سے گزرے مگر آدھی دنیا کو بچا لیا۔ ایک قومی فنڈ قائم کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے پہلا عطیہ خود وزیرِ اعظم اور دوسرا چیف آف آرمی سٹاف اور پھر افواجِ پاکستان کے وابستگان کو دینا چاہئیے۔ ایثار کے معاملے میں کراچی کے کاروباری ہمیںہمیشہ پیش رہتے ہیں۔ لاہور،فیصل آباد، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات اور وزیرِ آباد میں بھی ایسے لوگ بہت۔اکتوبر 2005ء کے زلزلے اور 2009ء کے فوجی آپریشن میں قوم نے خیرہ کن تحمل کا مظاہرہ کیا۔ ضرورت پڑنے پرسرکاری اخراجات میں کفایت کی جا سکتی ہے، حتیٰ کہ نئے ٹیکس کا نفاذ بھی۔ انسانی زندگی کی حفاظت اہم ترین فریضہ ہے۔ فرمایا: جس نے ایک جان کو بچالیا،گویا اس نے تمام بنی نوع انسان کو بچایااور جس نے ایک آدمی کو قتل کیا گویا اس نے ساری آدمیت کو مار ڈالا۔ کسی گھر میں خدانخواستہ آگ بھڑک اٹھے تو زندگیاں بچائی جاتی ہیں۔ سازو سامان کی زیادہ پرواہ نہیں کی جاتی۔ جان ہے تو جہان ہے۔ ایک قومی لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ فوجی قیادت، صوبائی حکومتوں، ذمہ دار اپوزیشن لیڈروں اور ماہرین سے مسلسل مشورہ۔ ملک بھر میں آگہی کی ایک بھرپور مہم۔ صرف صفائی،مزاحمت بڑھانے والی خوراک اور احتیاطی تدابیر سے ممکنہ تباہی کی سطح بہت کم ہو سکتی ہے۔پس تحریر:ابھی ابھی امریکی حکومت نے خبر دی ہے کہ ایک مشہور کمپنی نے ویکسین بنا لی ہے۔ تین چار ماہ میں مریضوں تک پہنچ جائے گی۔