فضائی آلودگی کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے اور ہم بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ہم جس نام نہاد ترقی پر بہت نازاں تھے وہ ہماری جان کے درپے ہے۔ بڑی بڑی‘ چوڑی چوڑی سڑکیںاورموٹر گاڑیاں دیکھ کر خوش تھے۔لیکن یہی چیزیں ہوا میں زہر گھولنے کی بڑی وجہ بن چکی ہیں۔آدھی فضائی آلودگی موٹر گاڑیوں کے دھویںاور پچیس فیصد کارخانوں سے نکلنے والے دھویں کی وجہ سے ہے۔یہ ترقی ہماری جان پہ بھاری ثابت ہورہی ہے۔گزشتہ ہفتہ پنجاب کے بڑے شہروں میں اسکول بند کردیے گئے کہ بچوںکو زہریلی ہوا میں بیمار ہونے سے بچایا جاسکے۔ہدایت دی گئی کہ بچے جب اسکول آئیں تو منہ پر ماسک پہن کر آئیں۔ ہر برس لاکھوں لوگ اس مسموم ہوا میںسانس لینے سے بیمار پڑتے ہیں اور سینکڑوں لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔اگر کوئی تحقیق کی جائے تو پتہ چلے گا کہ آلودہ ہوا پاکستان میں اموات کی ایک اہم وجہ ہے۔دنیا کے چند آلودہ ترین شہر ہمارے ملک میں ہیں ۔ لاہور‘ کراچی اور فیصل آباد سر فہرست ہیں۔ پھر بھی لوگ روزگار کی خاطر یہاں رہنے پر مجبور ہیں۔ گندی ہوا میںموجود بہت باریک باریک ذرات سانس کے ذریعے پھیپڑوں اور دل تک پہنچ جاتے ہیں۔سائنسی اصطلاح میں انہیں’ ’پرٹی کلیٹ میٹر ‘کہا جاتا ہے۔جب بڑے شہروں میںآبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ ٹریفک کے مسائل پیدا ہورہے تھے تو سمجھدار لوگوں نے مشورہ دیا تھا کہ سڑکیں چوڑی اور بڑی کرنے کا فائدہ نہیں ہوگا۔ اس مسئلہ کا اس حل پبلک ٹرانسپورٹ اور ماس ٹرانزٹ ہے۔ کسی نے سُن کر نہیں دیا۔ جب لاہور میں فلائی اووراور سڑکوں کے اُوپر پل بنا کر میٹرو منصوبے شروع کیے گئے تو بعض ماہرین نے ان کی شدید مخالفت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیاکے کئی ملکوں میں ایسے منصوبوں کو ختم کیا جارہا تھا اور جہاں ایسی تعمیرات کی گئی تھیں انہیں توڑاجا رہا تھا کیونکہ ان سے آلودگی بہت زیادہ ہوگئی تھی۔ لیکن کسی نے اُن کی ایک نہیں سنی۔سابق وزیراعلی پرویزالٰہی کے دور میں فرانس کی ایک مشہور زمانہ کمپنی سسٹرا نے لاہور میں ماس ٹرانزٹ کا مطالعہ کرکے ایک پلان دیا جس کے مطابق شہر میں زیر زمین سرنگیں کھود کر چارمیٹرو ٹرینیں چلائی جانی تھیں۔ اس منصوبہ سے ٹریفک کے مسائل بھی حل ہوجاتے اور زمین کے نیچے ہونے کی وجہ سے ہوا بھی گندی نہ ہوتی۔ ایشیائی ترقیاتی بنک نے اس منصوبہ کو فنڈز فراہم کرنے کی منظوری دے دی لیکن حکومت تبدیل ہوگئی۔ ایک شو باز وزیراعلی تشریف لائے۔ انہوں نے کہا کہ زیرزمین کام سے تو واہ واہ نہیں ہوگی۔ کام تو وہ ہے جو زمین کے اُوپر ہو‘ نظر آئے۔ میٹرو بس ‘اورنج ٹرین کے منصوبے سڑکوںکے اُوپر سڑکیں‘ ٹریک بنا کرمکمل کیے گئے۔ فضا خراب کرنے میں جو رہی سہی کسر تھی وہ بھی پوری کردی گئی۔کوئی ان وزیراعلیٰ سے حساب لے کہ آج لاہور میں سموگ سے جو لاکھوں لوگ بیمار پڑ رہے ہیں اس کی ذمہ داری اُن پر بھی عائد ہوتی ہے۔اپنی سیاست چمکانے کو انہوں نے شہریوں کی زندگی داو پر لگادی۔ صاف ہوا میں سانس لینا ‘صاف پینے کا پانی دستیاب ہونااور صحت مند زندگی گزرانا بنیادی انسانی حقوق ہیں۔ کوئی شخص اپنے کاروبار یا کسی اور غرض سے کسی اور شخص کی صاف ہوا نہیں چھین سکتا۔ یہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری میں شامل ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا کرے کہ شہری صحت مند زندگی گزار سکیں‘ ان عوامل کو دور کرے جن سے شہریوں کی صحت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ دنیا بھر میں ماحول کے تحفظ کے قوانین دو بنیادی اصولوں کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں۔ ایک اُصول تو یہ ہے کہ جو شخص یا ادارہ آلودگی پیدا کرنے کا ذمہ دارہے وہی اس کی قیمت بھی ادا کرے۔ دوسرا اُصول یہ ہے کہ جب کوئی شخص یا ادارہ کوئی ایسا کام کرے جس کی وجہ سے آلودگی پھیلنے کاامکان ہو تووہ پہلے سے حفاظتی اقدامات کرنے کا پابند ہے جیسے کارخانوں کو اپنی چمنیوں میں ایسے آلات نصب کرنے کو کہا جاتا ہے جن سے نکلنے والے دھویں میں سے خطرناک کیمیائی مادوں کو فلٹر کرلیا جائے تاکہ وہ فضا میں نہ جا سکیں۔ ہمارے ملک میں ماحول کے تحفظ کے قوانین موجود ہیں لیکن ان پرنہ تو پُوری طرح عمل جاتا ہے نہ کروایا جاتا ہے ۔ان قوانین کی سنگین خلاف ورزی کی جاتی ہے جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ ہمارے عوام آلودہ ہواکی بھاری قیمت ادا کررہے ہیں۔ہر سال اربوں روپے سانس اور دل کی بیماریوں کے علاج معالجہ پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ دنیا کے کئی ملکوں میں ہوا کی آلودگی سے صحت کو پہنچنے والے نقصانات پر لوگ ہرجانہ طلب کرنے عدالتوں کا رخ کررہے ہیں۔ پیرس میں پچاس سے زیادہ افراد نے اپنی حکومت پر مقدمے دائر کیے ہوئے ہیں کہ آلودہ ہوا سے ان کی صحت کو جو نقصان پہنچا ہے حکومت انہیں اسکا ہرجانہ ادا کرے۔ ہمارے ملک میں ڈاکٹر عام طور سے کہتے توہیں کہ فضائی آلودگی سے بیماریاں پھیل رہی ہیں لیکن اپنے تشخیصی نسخہ میں اس کا ذکر نہیں کرتے کہ کوئی مریض یہ نسخہ عدالت لیجائے اور ہرجانہ طلب کرے۔ حالات جس تیزی سے خراب ہورہے ہیں اس میں ڈاکٹروں کواپنے تشخیصی نسخوں میں فضائی آلودگی کا ذکر کرنا چاہیے۔ حکومت کی لاپرواہی کا یہ عالم ہے کہ اس آلودگی کو ختم کرنے کو سنجیدہ اقدامات کرنا تو دُور کی بات ہے آج تک اس بارے میں کوئی قومی منصوبہ تک نہیں بنایا گیا کہ زیادہ متاثرہ بڑے شہروں کی ہوا کو آلودگی سے پاک کرنے کی خاطرکیا کیا اقدامات کیا جائیں۔ عام انسان ‘ عام شہری کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں۔ کوئی ارب پتی سیاستدان بیمار پڑ جائے تو قومی بحران پیدا ہوجاتا ہے‘ سارے وسائل اس کی صحت یابی کے لیے مختص کردیے جاتے ہیں۔ اگراب بھی بڑے شہروں میں ٹرانسپورٹ کے طوفان پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے توگاڑیوں سے نکلنے والا زہر ہمیں معذور‘ اپاہج اورمفلس بنادے گا۔ کیا ہم اپنے شہروں میں ہر سال میں ایک دن ایسا مناسکتے ہیں جو موٹرگاڑی فری ہو؟ ایک ایسا دن جب لاہور اور کراچی میں کوئی کار‘ موٹر سائکل‘ رکشہ‘ ٹیکسی سڑک پر نہ آئے۔ صرف پبلک ٹرانسپورٹ چلے‘ ایمبولینس یا بائسیکل۔ اس دن ہم نوٹ کریں کہ شہر میں سموگ کی سطح کتنی ہے۔اس دن ہم کیسے کھُل کر سانس لے سکتے ہیں اور ہمارے بچے آنکھوں میں جلن کے بغیر کھیل کود سکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے ہمیں یہ دن اتنا اچھا لگے کہ ہم آہستہ آہستہ پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کااستعمال کم کردیں۔