آذربائیجان کی فوجیں پچھلے ہفتے جب نگورنوکاراباخ کے اہم شہر شوشا میں داخل ہوگئیں ، تو ترکی کے دارلحکومت انقرہ کے نواح میں رہنے والی ایک ضعیف العمر آذربائیجانی خاتون زلیخا شاناراوف نے گھر کے اسٹور سے ایک پرانا زنگ آلود صندوق نکالا، جس کو اسکی فیملی نے ماضی میں کئی بار کوڑے میں پھینکنے کی کوشش تھی۔مگر بڑی بی کا اس بکس کے ساتھ ایسا جذباتی رشتہ تھا کہ و ہ آسمان سر پر اٹھا کر اسکو ناکام بناتی تھی۔ شوشا کے آزاد ہونے کی خبر نے اس عمر رسیدہ خاتون کو گویا پھر سے جوان کردیا ، اوراسنے پوری فیملی کو جمع کرکے اس صندوق کو کھولنے کا حکم دے دیا۔ اس چھوٹے سے بکس میں اس نے شوشا میں واقع اپنے مکان کی چابی حفاظت کے ساتھ رکھی تھی، جہاں سے اسکو 1992میں آرمینیائی قبضہ کے بعد بے سرو سامانی کی حالت میں بچوں کے ساتھ نکالا گیا تھا۔ ترکی کے انقرہ، عدبر اور آذربائیجان کے باکو اور دیگر علاقوں میں بسے ایسے ہزاروں مہاجر خاندا ن اب اپنے آبائی گھرو ں کو جانے کیلئے بے تاب ہیں۔ فی الحال دسمبر تک علاقوں سے آرمینیائی افواج کا انخلا ہو رہا ہے اور آذر بائیجانی افواج مفتوحہ علاقوں میں ماپ اپ آپریشن اور بارودی سرنگیں ہٹانے کا کام کر رہی ہیں۔ اسکے بعد ہی شہریوں کو واپس آنے کی اجازت دی جائیگی۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ طویل اس جنگ کے بعد آرمینیا نے جب اعتراف شکست کیا، تو یہ پچھلے سو سالوں میں کسی مسلم ملک کی پہلی مکمل فوجی فتح تھی۔ پچھلے 27 برسوں کے بعد پہلی بار اعدام اور دیگر شہروں کی مسجدوں کے منارے اورمنبر آباد ہوگئے، جہاں آذری افواج نے داخل ہوکر اذانیں دیں اور شکرانے کی نمازیں ادا کیں۔ پچھلی تین دہائیوں سے یہ مساجد جانوروں کے باڑوں یا موٹر گیراج کا کام دے رہے تھے۔ صرف اعدام کے علاقے سے ہی نوے کے اوائل میں دولاکھ کے قریب آذری اپنے آبائی علاقے کو ترک کر گئے تھے۔آرمینیوں نے قبضے کے دوران علاقے میں کافی لوٹ مار مچائی اور شہر کے مرکزی علاقوں کو تباہ کر دیا تھا۔ روس اور ترکی کی ایما پر ہوئی جنگ بندی اور آرمینیا کے وزیرا عظم نکول پاشہینان کے اعتراف شکست کے بعد جو معاہدہ طے ہوا ، اسکے مطابق مفتوحہ علاقوں ، جن میں پانچ اہم شہر، چار قصبے اور 286دیہات شامل ہیں، پر آذر بائیجان کا قبضہ تسلیم کیا گیا۔ اسکے علاوہ دسمبر تک مزید سات علاقو ں سے آرمینیائی افواج انخلا کرکے آذر بائیجان کے حوالے کرے گی۔ بقیہ قاراباغ علاقے سے 90کے اوائل میں آرمینیا نے جس مسلمان آذری آبادی کو بے دخل کرکے ، اس علاقے کاآبادیاتی تناسب تبدیل کر دیا تھا، ان سب افراد کو واپس اپنے علاقوں میں جانے اور بسنے کی نہ صرف اجازت ہوگی، بلکہ ان کی حفاظت کی ذمہ داری مقامی حکمرانوں پر عائد ہوگی۔ آرمینیا سے آذربائیجان کے راستے ترکی جانے والے سبھی ٹرانزٹ راستوں کو کھولا جائیگا اور ترک افواج ان کی نگرانی کریں گی۔ ان میں سب سے اہم ترکی اور آذر بائیجا ن کے درمیان قدیم سلک روٹ یعنی ناچیوان کوریڈو ر کی بحالی ہے، اس سے ترکی کو براہ راست چین تک رسائی حاصل ہوجائیگی اور یہ جلد ہی بلٹ اینڈ روڈ پرجیکٹ کا حصہ بن جائیگا۔ ورنہ آذر بائیجان تک پہنچنے کیلئے ترکی کو ایران یا جارجیا کا راستہ اختیار کرنا پڑتا تھا۔ گو کہ لنچن علاقہ کو بھی آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا گیا ہے۔ مگر آرمینیا کوکاراباخ کے دارالحکومت اسٹیپن کرت تک رسائی کیلئے لنچن میں ایک کوریڈور کے ذریعے رسائی دی گئی ہے، جس کی حفاظت روسی افواج کرینگی۔ گو کہ آذربائیجانی صدر الحام علی یوف پر سخت دباو ٗ تھا کہ جنگ جاری رکھ کے شوشا شہر کے بعد 10کلومیٹر دور دارالحکومت اسٹیپن کرت پر بھی فوج کشی کرکے آزاد کروائیں، مگر جس طرح آرمینیائی افواج آذربائیجان کے اند ر شہری علاقوں پر میزائلوں اور راکٹوں کی بارش کرکے سول آبادی کو نشانہ بنارہی تھی، اور بڑی طاقتوں کے طرف سے جنگ بندی کی اپیل کے بعد الگ تھلگ پڑنے کے خوف سے علی یوف نے امن کے دامن کو تھام لیا۔ کہتے ہیں کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہے، یہ خود مسائل کو جنم دیتی ہے، مگر جب بار بار تاکید کے بعد بھی مذاکرات مسائل کو حل کرانے میں ناکام ہوجاتے ہیں، تو اسٹیٹس کو بدلنے کا واحد حل جنگ ہی رہ جاتا ہے۔ 1994 سے کاراباخ پر بھی اقوام متحدہ نے چار بار قرار دادیں پاس کرکے آرمینیا کو یہ علاقے خالی کرکے آذربائیجان کے حوالے کرنے کی اپیل کی، مگر طاقت کے زعم روس اور فرانس کی پشت پناہی کی وجہ سے کون ان قراردادوں پر کان دھرتا۔ اس دوران آرمینیا نے ان علاقوں کو مکمل طور پر آذری مسلم آبادی سے خالی کروا کے وہاں آرمینیائی نسل کی حکومت قائم کروائی، جس نے اس علاقے کے اصل باشندوں یعنی آذری مسلم آبادی کی عدم موجودگی میں ریفرنڈم کرواکے ، کارا باخ کا الحاق آرمینیا سے کروانے کا اعلان کیا۔ بین الاقوامی برادی نے تاہم اس ریفرنڈم کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ آذربائیجانی صحافی جیحون علییوف کے مطابق 1990سے مذاکرات کی میزوں پر اور بین الاقوامی برادی کے توسل سے متواتر آذر بائیجان بتانے کی کوشش کر رہا تھا ، کہ اگر آرمینیا ٹرانزٹ کوریڈورز میں آمد و رفت بحال کرنے، مہاجرین کی واپسی اور کاراباخ کے نچلے علاقوں کو واپس کرنے پر آمادہ ہوتا ہے ، تو وہ اس کو بطور حتمی حل ماننے کیلئے آمادہ ہے۔ مگر آرمینیا ہمیشہ اسکو ٹھکراتا آیا ہے۔ اب جنگ کے بعد روس اور ترکی کی ایما ء پر ایسا ہی معاہدہ عمل میں آیا ہے۔ اب نچلے تمام علاقوں سے ہاتھ دھونے کے ساتھ ساتھ آمینیا کو اپر کارا باخ کے اہم شہر شوشا سے بھی ہاتھ دھونا پڑا، جو اس علاقے کا ثقافتی اور تجارتی قلب ہے۔ (جاری ہے)