ایک قومی اخبار کے ادارتی صفحے پر دو کالم ساتھ ساتھ شائع ہوئے ہیں۔ ایک میں اس بات پر افسوس ظاہر کیا گیا ہے کہ اردو شاعری جو فارسی تراکیب سے مملو ہے۔ سمجھنے والے کم ہو گئے ہیں اور ٹی وی پر بیٹھے اینکروں کا شین قاف ہی نہیں‘ اور بہت کچھ بھی غائب ہو گیا ہے۔ ساتھ کے کالم میں کالم نگار نے اپنی امریکہ یاترا کا ذکر کیا ہے۔ اور یہ فقرہ لکھا ہے کہ میں نے تفریح کے لئے ریاست فلوریڈا کے ایک نایاب ساحل کا انتخاب کیا۔نایاب ساحل یعنی ایسا ساحل چنا جو موجود ہی نہیں ہے۔ یوں پہلے کالم نگار کی تصدیق ہو گئی کہ شین قاف ہی نہیں اور بھی بہت کچھ’’نایاب‘‘ ہو چکا ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے غیر قانونی شکار کی خبریں ٹی وی پر بھی چل رہی ہیں اور اخبارات میں بھی آ رہی ہیں۔ سب میں ایک فقرہ مشترک ہوتا ہے۔ شکاریوں نے نایاب پرندوں کا شکار کیا۔ ایسے پرندے جو موجود ہی نہیں ہیں۔ چنانچہ جیسا کہ میڈیا پر آ رہا ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کیسی۔؟ پرندے کم یاب ہیں لیکن نایاب نہیں یہ نئی حکومت جس فراخدلی سے شکار کے اجازت نامے دے رہی ہے اور جس طرح غیر ملکی شہزادے انبوہ در انبوہ شکار کے لئے آ رہے ہیں‘ اس کے نتیجے میں کم یاب کو نایاب بنتے زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ ٭٭٭٭٭ پرندوں کا ذکر ہوا ہے تو دو تین روز پہلے ایک اور قومی اخبار میں ایک صاحب کا کالم نظر سے گزرا۔ مرکزی خیال بہت اچھا تھا یعنی جانوروں سے رحم دلی کا سلوک کرنے اور ان سے محبت کی تلقین کی گئی تھی۔ لیکن آگے چل کر جانوروں اور پرندوں س محبت کے اظہار کے لئے جو تجویز دی‘ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اسے نادر تجویز کہا جائے یا نایاب۔ فرمایا کہ ملک بھر میں جگہ جگہ چڑیا گھر کھولے جائیں۔ چڑیا گھر کے تصور کا بانی جو بھی تھا‘ انسان کم تھا‘ شیطان زیادہ۔ شاید پہلی جماعت کے زمانے کی بات ہے کہ والد صاحب سندھ سے لاہور آئے۔ ساتھ مجھے بھی لے آئے اور چڑیا گھر دکھایا۔ عجیب ہیبت ناک اور خوبصورت‘ سبھی قسم کے جانور دیکھے۔ معلومات میں اضافہ ہوا اور مجموعی طور پر اچھا لگا۔ آگے چل کر شیر کا پنجرہ دیکھا۔ شیر مسلسل اس تنگ سے کمرے میں چکر کاٹ رہا تھا۔ دو قدم چلتا دیوار آ جاتی‘ پھر پلٹتا دو قدم کے بعد دوسری دیوار آ جاتی۔ پوچھا‘ یہ ایسے کیوں گھوم رہا ہے۔ والد صاحب نے کہا‘ آزاد جانور ہے۔ قید میں ہے تو بے چین ہے۔ یہ سن کر اب تک کی ساری تفریح غارت ہو گئی۔دوسری جماعت میں علامہ اقبال کی نظم پڑھی۔ پرندے کی فریاد۔ یہ بانگ درا میں شامل ہے۔ اس نے بری طرح رلا دیا اور چڑیا گھر کی سیر یاد آ گئی۔ تب سے چڑیا گھر کے بانی پر باقاعدگی سے تبریٰ بھیجتا ہوں اور اسے کروٹ کروٹ دوزخ ملنے کی دعا کرتا ہوں۔ جانورں کو ایک ہی بار مار دو۔ عمر بھر کے لئے ان کی آزادی کیوں چھینتے ہو۔ چڑیا گھر ہوں یا سرکس‘ جانوروں پر ظلم کے شیطانی کارخانے ہیں۔ لوگ سرکس میں جانوروں کے کرتب دیکھتے ہیں اور خوشی سے تالیاں پیٹتے ہیں۔ انہیں پتہ ہی نہیں کہ جانوروں کو یہ کرتب سیکھنے کے لئے اذیت رسانی اور تشدد کے کتنے برس گزارنے پڑتے ہیں۔ اور انہیں قدرے کھلی فضا میں آنے کا دن بھر میں جو واحد موقع ملتا ہے‘ وہ بھی ’’تنبو‘‘ کے نیچے آ کر کرتب دکھانے کا موقع ہوتا ہے۔ باقی وقت وہ نہایت تنگ پنجروں میں گزارتے ہیں۔ بندر ‘بھالو‘ شیر‘ چیتا ‘ ہرن‘ ہاتھی‘ سب زنجیر بند ہوتے ہیں۔ بے چینی دکھانے پر بری طرح مار پڑتی ہے۔ جو سرکس’’سفری‘‘ ہوتے ہیں یعنی آج اِس شہر تو کل اُس گائوں‘ وہ اور بھی ظالمانہ ہوتے ہیں کہ ان کے پنجرے بہت چھوٹے تابوت کی طرح ہوتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ دنیا بھر میں چڑیا گھر کم ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ سفاری پارک لے رہے ہیں۔ سفاری پارک میں جانور آزاد حالت میں گھومتے ہیں۔ انہیں دیکھنے والے گاڑیوں میں بند ہوتے ہیں۔ یہ طریقہ بہتر ہے البتہ مہنگا ہے۔ ضرورت نئے چڑیا گھر بنانے کی نہیں‘ جو موجود ہیں انہیں ختم کرنے کی ہے۔ ساری دنیا میں چڑیا گھروں اور سرکسوں پر پابندی لگانے کی تحریکیں چل رہی ہیں اور یورپ اور امریکہ کے کئی ملکوں میں جانوروں کے کرتب دکھانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ کرتب دکھاتے ہیں تو انسان دکھائیں‘ جانور اس مقصد کے لئے نہیں ہے۔ ٭٭٭٭٭ چڑیا گھر میں ظلم کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ کوئی جانور اکیلا ہو مثلاً اسلام آباد کے چڑیا گھر میں ایک ہاتھی کئی برس سے اکیلا ہے اور بیمار پڑ گیا ہے’’کادان‘‘ نامی اس ہاتھی کی بیماری کی وجہ سے حالت خراب ہے اور دنیا بھر سے اس کی رہائی اور اسے کہیں اوربھیجنے کی اپیلیں آ رہی ہیں لیکن کوئی نہیں سنتا۔ یہ ہاتھی پاکستان کی عالمی رسوائی کا سبب بن گیا ہے۔چڑیا گھر کے تماش بینوں کی اکثریت بھی بے رحم اور بے حس ہوتی ہے۔ اسی ہفتے کسی یورپی ملک کے چڑیا گھر کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی۔ کھائی نما قید خانے میں ایک ریچھ بند ہے۔ سخت دھوپ میں اسے پانی بھی مہیا نہیں ہے۔ کوئی رحم دل تماشائی اوپر بلندی سے اپنی بوتل کا منہ نیچے کرتا ہے۔ پانی کی بوندیں گرتی ہیں اور ریچھ لپک کر اپنا منہ اوپر کر دیتا ہے۔ یہ معمول کا عمل ہے لیکن ویڈیو اس کے آگے کی بات ہے۔ ایک تماشائی خالی بوتل نیچے کی طرف کرتا ہے۔ ریچھ نیچے کھڑا ہے اور ایسا منہ اوپر کرتا ہے لیکن کوئی بوند نہیں گرتی۔ وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ تماشائی اسے آواز دے کر دوسری بوتل دکھاتا ہے۔ ریچھ پھر منہ اوپر کرتا ہے لیکن یہ بوتل بھی خالی ہے‘ تماشائی ریچھ کو اذیت دے کر خوشی کشید کرنے کا کھیل کھیل رہا ہے۔ پیاسا ریچھ اس مذاق کو سمجھ لیتا ہے اور اپنا سر جھکا کر دیوار سے ٹکا دیتا ہے اور رونے لگتا ہے۔ ۔انسان بدی کی سرشت پر پیدا ہوا اس سرشت کے ہزاروں لاکھوں مظہر ہیں۔ چڑیا گھر‘ سرکس‘ پرندوں اور جانوروں کا شکار بھی انہی مظاہر میں سے ہیں۔ ہمارا یہ سیارہ جسے ہم کرہ ارض کہتے ہیں۔ خدا نے صرف انسانوں کے لئے نہیں بنایا۔ اس پر جانوروں کا بھی حق ہے۔ لیکن انسان کے شر سے جانور جنگل میں محفوظ ہیں نہ شہر میں ہر طرف ’’انسانیت‘‘ کا دور دورہ ہے۔