لاہور( نامہ نگار خصوصی )تحریک انصاف کے رہنما اور سینیٹر ولید اقبال نے کہا ہے بدقسمتی سے ہماری سیاسی لیڈر شپ ڈکٹیٹرشپ کے دور میں پیدا ہوئی، نواز شریف اور جہانگیر ترین کی تاحیات نااہلی نہیں ہونی چاہئے ۔ عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ذوالفقارعلی بھٹو کی دو کامیابیاں ہیں، ایک آئین پاکستان اور دوسرا ایٹمی پروگرام کی بنیادرکھی، بھٹو نے بھی بعد میں اختیارات سے تجاوز کیا اور آئین میں ترامیم کرائیں، یکطرفہ احتساب کا عمل جمہوری ادوار میں بھی جاری رہا، مغرب میں ضمانت کا طریقہ کار ہمارے جیسا نہیں، آرٹیکل 62 میں ترمیم جنرل ضیاء الحق لائے ۔ پیپلز پارٹی کے رہنما چودھری منظورنے کہا قومی سلامتی اور لوگوں کی سلامتی میں فرق ہے ،ہم نے لوگوں کے بنیادی حقوق پر سمجھوتہ کیا اور آج اس حالت پر پہنچ گئے ،جب تک ہم لوگوں کی حفاظت نہیں کرتے قومی سلامتی بے معنی ہے ،پیپلز پارٹی نے ملک کو آئین کی صورت میں لوگوں کے حقوق کا ضامن دیا،بدقسمتی سے ہمارے دئیے گئے آئین کو آمروں نے لپیٹا،کہا جاتا ہے صوبائیت نہیں ہونی چاہئے ۔کیاپنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان ہونا گناہ ہے ،ایک ہی جرم پر دو سزائیں ہونگی تو مسئلے ہوں گے ،ایک شخص جعلی اکاؤنٹ پر جیل جاتا اور دوسرا وزیر اعظم بن جاتا ہے ،کوئی خیبر پختونخوا کا وزیر اعلی تو کوئی وزارت اعلی سے جیل جاتا ہے ۔ فرحت اﷲ بابر نے کہاآئین ہر شخص کو فاٹا کے علاقوں میں جانے کی اجازت دیتا ہے لیکن کسی کو بھی وہاں جانے نہیں دیا جاتا،فاٹا کے انضمام کے بعد طالبان دوبارہ سے متحد ہو رہے ہیں۔مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے کہاقومی بیانیے کو ایٹمی طاقت اور ہتھیاروں سے تولنا زیادتی ہے ،ہم بہتر سال بعد بھی یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ملک مضبوط وفاق پر چلے گا یا پارلیمانی نظام قائم ہوگا،جمہوریت کے مسکن ملک میں بھی جمہوریت جدوجہد کررہی ہے ،ہم نے فیصلہ کرنا ہے ملک آئین پر چلے گا یا نہیں،میں اپنے جسم پر گولی کھا کر خود چیمپئن ہوں،پاکستان کو لسانی, نسلی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم نہیں ہونے دیں گے ۔ مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہامیں نے ڈٹ کر رہنا اور سچ بولنا عاصمہ جہانگیر سے سیکھا ۔ (ن) لیگی رکن قومی اسمبلی شائستہ پرویز ملک نے کہابھٹو کے قتل پر کس کا احتساب کریں ،احتساب کا سب سے زیادہ شکار سیاستدان ہوتے ہیں ،ہم تسلیم کرتے ہیں کہ احتساب کے قانون کو تبدیل نہیں کیا ،کوئی بھی ادارہ اپنا ہی احتساب کیسے کر سکتا ہے ۔ماہر قانون دان علی احمد کرد نے کہاآج پھر پاکستان کی سول سوسائٹی پر فرض ہے کہ خاموش نہ رہے ۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہااکثریت کی حکومت کا فلسفہ درست نہیں،آئین و قانون کی حاکمیت ہونی چاہیے ،اکثریت اور عدلیہ کو آئین و قانون کے طابع ہونا چاہیے ،بدقسمتی سے پاکستان میں ماضی میں عدلیہ نے بھی اس کی پاسداری نہیں کی،لوگوں کی خاموشی بھی جرم ہے ۔ جنرل( ر) طلعت محمود نے کہایہ بدقسمتی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں بھی اپنے اندر جمہوریت نہیں رکھتیں،عدلیہ نے آمریت کو موقع دیا کہ وہ اپنی مرضی کا قانون اور آئین بنا لیں ،آمریت نے ہمیشہ کرپشن کارڈ سیاستدانوں کے خلاف استعمال کیا،نیب قانون کو آج تک ٹھیک نہیں کرسکے ۔سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے کہا ہم نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے فرمودات بھلا دئیے ،جو قومیں اپنی تاریخ مسخ کریں ان کی حالت یہی ہوتی ہے ۔