وزیراعظم عمران خان کے سابق قریبی ساتھی جہانگیر ترین کی وطن واپسی نے ملکی سیاست میں بھونچال پیدا کر دی ہے ۔جہانگیر ترین ،تحریک انصاف کی جارحانہ سیاست میں برداشت ، مفاہمت اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کا استعارہ تھے ۔تحریک انصاف میں زیادہ تر الیکٹ ایبلز کوشامل کرنے کا کریڈٹ انہی کو جاتا ہے ۔گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری جہانگیر ترین ہی نے کی تھی۔وزیر اعظم عمران خان کے زیادہ تر انتخابی اخراجات انھوں نے برداشت کئے تھے ۔سپریم کورٹ سے نااہلی کے باوجود وہ عمران خان کے قریب ہی رہے ۔ قومی انتخابات میں فتح کے بعد مرکز میں حکومت سازی کا مشکل مرحلہ سر کرنابھی جہانگیر ترین کا کارنامہ ہے ۔عمران خان کو وزیراعظم منتخب کرنے کے لئے تمام جوڑ توڑ اور سازباز جہانگیر ترین نے ہی کی تھی ۔ وفاقی کابینہ کے انتخاب اور پنجاب میں حکومت سازی میں بھی وہ پیش پیش تھے۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے محاذ پر بھی وہ سرگرم تھے ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وفاق ، پنجاب ،خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں اس وقت جو حکومتیں موجود ہے اس میں وزیر اعظم عمران خان کے بعد سب بڑا حصہ جہانگیر ترین کا ہے ۔عمران خان کے وزیر اعظم منتخب ہو جانے کے بعد بھی وہ ان کے قریب رہے حالانکہ ان کے پاس پارٹی کا کوئی عہدہ نہیں تھا اور نہ ہی وہ پارلیمنٹ کے رکن تھے لیکن پھر بھی وہ سب سے طاقتورتھے۔ وزیر اعظم عمران خان کے بعد اگر کوئی دوسری پوزیشن پرتھا تووہ جہانگیر ترین ہی تھے ۔ جہانگیر ترین کی اچانک ملک واپسی سے ملکی سیاست میں ہلچل پیدا ہوگئی ہے ۔حزب اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف طبل جنگ بجا دی ہے ۔مارچ 2021 ء میں سینٹ کے انتخابات ہونے والے ہیں۔اخترمینگل حکمران جماعت کے ساتھ اتحاد کو خیر باد کہہ چکے ہیں ۔چوہدری برادران وزیراعظم عمران خان کی حکومت سے ناراض ہیں۔جی ڈی اے اور ایم کیوایم کو بھی حکومت سے شکایات ہیں ۔تحریک انصاف کے مرکزی رہنما ئوںاور وفاقی وزراء میں شاہ محمود قریشی کے علاوہ اور کوئی ایسا نہیں کہ جن کے حزب اختلاف میں شامل سیاسی خاندانوں کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہو۔جہانگیر ترین کے شریف خاندان کے ساتھ بھی راہ و رسم ہے جبکہ پیپلز پارٹی میں شامل سیاسی خاندانوں کے ساتھ بھی ان کی گہری دوستی ہے۔مولانا فضل الرحمان کے ساتھ بھی ان کے تعلقات دوستانہ ہے ۔ولی باغ کے ساتھ بھی ان کے روابط موجودہے۔ محمود خان اچکزئی سے بھی ان کی دوستی ہے جبکہ اختر مینگل کی حکومت میں شمولیت بھی جہانگیر ترین ہی کا کارنامہ تھا ۔ جہانگیر ترین کی وطن واپسی کے بعد پوری طرح یہ واضح تو نہیں کہ کیا وہ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ دوبارہ کام کرنے پر راضی ہو جائیں گے ؟ یہ بھی واضح نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان ایک بار پھر ان پر اعتماد کے لئے تیار ہے کہ نہیں ؟لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ جہانگیرترین کی وطن واپسی بلاوجہ نہیں ۔ وہ کسی اہم مشن کی تکمیل کے لئے واپس آئے ہیں۔وہ منصوبہ یہی ہے کہ ملک میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان جاری سیاسی تنائو کو کم کرنا ہے ۔ہلکی پھلکی موسیقی تو جاری رہے گی لیکن کسی کانام لے کر اور انگلی کا اشارہ کرکے جواب دینے کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔سینٹ انتخابات سے قبل اور دوران انتخابات حزب اختلاف ماحول کو ضرور گرم رکھیں لیکن کوئی ایسا قدم ہر گز نہ اٹھا ئے کہ جس سے موجودہ نظام مفلوج ہو ،اس لئے کہ موجودہ حالات میں مارشل لا لگانا بھی ممکن نہیں اور نہ ہی وسط مدتی انتخابات کے لئے فضا ساز گار ہے ۔یہ مشن اگرچہ مشکل ہے لیکن تحریک انصاف میں جہانگیر ترین کے علاوہ کوئی اور ایسا رہنمامو جود نہیں کہ وہ اس ناممکن کو ممکن بنائے ۔ شاہ محمود قریشی اگر چہ موجود ہے لیکن ان کے وسائل اس قدر ہرگز نہیں کہ وہ دوسروں پر سرمایہ کاری کریںاور نہ ان کا مزاج اس طرز کا ہے کہ وہ دوسروں پر خرچہ کریں ۔وہ اس کے بر عکس مزاج کے مالک ہیں۔ جہانگیر ترین اس اہم مشن کو مکمل کرنے کے لئے آغاز کہاں سے کرتے ہیں چند ہفتوں تک بات واضح ہوجائے گی ۔اگر وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ان کی صلح ہو جاتی ہے جس کا امکان زیادہ ہے تو پھر ان کی یہ تمام آنیاں جانیاں کیمروں کے سامنے ہو گی ۔ملاقاتوں کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس بھی ہو نگے۔زبانی اور تحریری معاہدے بھی ہونگے۔وفاقی کابینہ میں کچھ اکھاڑ پچھاڑ بھی ہوسکتا ہے ۔بعض وزیر وں کی زبان بندی بھی ہوگی۔عدالتی مقدمات میں حزب اختلاف کے رہنمائوں کی پیشیاں بھی کم ہوسکے گی۔پکڑ دھکڑ میں بھی کمی آجائے گی ۔وزیر اعظم عمران خان کے لہجے میں جو سختی ہے اس میں کمی کا امکان ہے ۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ان کو گفتار کی اجازت دی جائے لیکن عملی اقدامات سے وہ گریزاں ہی رہیںگے ۔اگر وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ان کی صلح نہیں ہو جاتی جس کا امکان بہت ہی کم ہے تو پھر بھی وہ اپنا مشن جاری رکھیں گے لیکن یہ سب اب کیمروں کے سامنے نہیں ہوگا۔کوئی مشترکہ پریس کانفرنس نہیں ہوگی۔ کوئی معاہد ہ نہیں ہوگا ۔ جو کچھ بھی کیا جائے گا وہ باہمی اعتماد کی بنیاد پر ہوگا۔تمام رابطے خفیہ ہونگے ۔لیکن اس طریقے سے طویل عرصے تک چلنا مشکل ہوگا ، اس لئے کوشش یہ کی جارہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان صلح ہو جس کے لئے دونوں تیار بھی ہے تاکہ اس اہم مشن کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔حزب اختلاف بھی اس مرتبہ محتاط ہے وہ بھی خفیہ ملاقاتوں کی بجائے اعلانیہ بات چیت کے حامی ہیں ۔اگر وہ اس مشن میں کامیاب ہوگئے تو پھر سب کا بیڑاپار ہے ۔