کوئی چار برس پیچھے کی بات ہے کہ مَیں لاہور کالج یونیورسٹی سے ایم فِل کی کچھ طالبات کا زبانی امتحان لے کے نکل رہا تھا۔ ارادہ قائدِ اعظم لائبریری جا کے ’مخزن‘ کے نئے پرچے کی دیکھ ریکھ کا تھا کہ فون کی گھنٹی دھیان مبذول کرانے سے تجاوز کر کے سرزنش کی حد تک بجتی چلی گئی ۔ یہ بہاولپور سے ہمارے دوست پروفیسر طاہر بخاری تھے۔آواز میں پریشانی اور لہجے میں التماس تھا۔ میرے پوچھنے سے قبل ہی انھوں نے بتانا شروع کیا کہ ان کی اکلوتی بیٹی کا ہماری یونیورسٹی کے انگریزی ایم فِل میں داخلہ ہو چکا ہے۔ ’ہوپ ٹاور‘ میں کیوبیکل کمرہ بھی الاٹ ہو چکا۔ چونکہ اس کا زندگی میں پہلی بار والدین کے بغیر کہیں رات گزارنے کا تجربہ تھا، اس لیے ہم نے ہاسٹل چھوڑتے ہوئے محض اس کے بہلاوے کی خاطر کہہ دیا کہ ہم رات لاہور ہی کے ایک ہوٹل میں قیام کریں گے لیکن اصل میں ہم رات ہی گھر واپس آ گئے تھے۔ اب اس کا فون آیا ہے، وہ بے حد پریشان ہے اور بے طرح رو رہی ہے۔ آپ جہاں بھی ہیں ، اس کے ہاسٹل پہنچیں اور اُس کی وارڈن سے مل کے مسائل حل کروانے کی پوری کوشش کریں۔ ہم نے بیٹی کو بھی آپ کا نمبر دے دیا ہے، جو آپ کو کال کرے گی۔ اُن کا فون بند ہوا تو فوراً ایک اجنبی نمبر سے کال آ گئی۔ پریشان اور رُندھی ہوئی آواز سے مجھے یہ اندازہ کرنے میں قطعاً دشواری نہیں ہوئی کہ ہو نہ ہو یہی اپنے بخاری صاحب کی دخترِ نیک اختر ہے۔ مَیں اتنا تو جانتا تھا کہ ایک روتی ہوئی لڑکی، ہنستی ہوئی لڑکی سے بھی زیادہ مشکل اور خطرناک ہوتی ہے۔ اس کے باوجود خیالِ خاطرِ احباب کے جذبے کے تحت پندرہ بیس منٹ میں ایل سی سے ، ایف سی پہنچا۔ اپنے دفتر جانے سے بھی پہلے گاڑی مذکورہ ہاسٹل کے سامنے روکی۔ مین گیٹ پہ ہشاش بشاش لوگوں لوگوں کے درمیان ایک رنجیدہ چہرے کو پہچاننا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ مَیں نے ہمدردانہ انداز میں اپنا تعارف کرایا تو دُکھوں کا سیلاب آنکھوں کے ذریعے بہہ نکلا۔ رات کا وقت ہوتا تو مَیں غالب کے بقول سمجھ لیتا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں۔ ہم نے ظلم کی اس داستان کو متاثرہ فریق کی زبان سے سننے کا عندیہ ظاہر کیا تو سلام سے کلام تک کے الفاظ گریہ زدہ ہونے کے سبب کسی طرح کا مفہوم اختیار کرنے سے قاصر تھے۔ ہم نے اس کی ڈھارس بندھاتے ہوئے آلام کے اس دفتر سمیت اپنے دفتر آنے کو کہا۔ سٹاف کیفے سے اندر کی شدت کچھ کم کرنے کے بعد اس سے بیرونی خلفشار کا قصہ بیان کرنے کو کہا۔ مظلومہ کے بیان کے مطابق اسے دو گھمبیر مسائل درپیش تھے۔ نمبر ایک: امریکیوں کے اس جدید رین بسیرے میں مقامی ٹائلٹ کی سہولت مفقود تھی۔ دوسرے اس کے ساتھ اس کی ماما کی فوری الاٹمنٹ کی درخواست تھی کیونکہ ان کے بغیر یہاں کوئی اس کے مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ اسی انٹرویو میں مجھے مزید پتہ چلا کہ اسے فرائیڈ اور ایگ فرائیڈ رائس بے حد پسند ہیں۔ انسانوں سے زیادہ جانوروں سے دوستی ہے۔ اللہ میاں نے چھپکلی محض اسے چِڑانے کے لیے تخلیق کی ہے۔ سکول، کالج، یونیورسٹی کے تمام امتحان ٹاپ کر کے آئی ہے۔ تقریری مقابلوں، ڈراموں اور مضامین نویسی میں درجنوں انعامات جیت رکھے ہیں۔ ذاتی غلّے میں سرکاری انعامات، گھریلو جیب خرچ اور عیدیوں دیدیوں کی وساطت سے اتنی رقم جمع ہے کہ ایک بندہ آسانی سے حج کر سکتا ہے۔ (جو اس نے ۲۰۱۸ء میں کر بھی لیا) ماں باپ کے علاوہ کسی سے دوستی ہے، نہ ضرورت۔ شہر بھر میں کم قیمت برگر اور بیش قیمت ملبوسات کے ایک اِک ٹھکانے کا پتہ ہے۔ آج اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ ِا س لڑکی کا خمیر کس چیز سے تیار ہوا ہے تو مجھے بتانے میں کوئی باک نہیں ہے کہ حُسن، ڈپریشن، انگلش لٹریچر ، اُردو فکشن، خوش خوراکی، خوش لباسی، بے پناہ خلوص اور آوارہ گردی کا ملغوبہ تیار کر کے ، اسے قرینے سے ڈراما، فلم، موسیقی اور سوشل میڈیا کا بگھار لگا دیا جائے تو پلک جھپکتے میں ذونیرا بخاری بن جاتی ہے۔ یہ ہے تو انگریزی کی طالبہ لیکن اُردو ادب کا ذوق اسے ورثے میں ملا ہے۔یہ لٹریچر میں گندھی ہوئی ایک بے چَین روح ہے، کہانیاں سننا، کہانیاں بُننا، کہانیاں کہنا، کہانیوں میں رہنا، اس کی سرشت میں شامل ہے۔ دو سال تک میرا اِس انوکھی لڑکی سے اچھی چائے، مزے دار کافی، دلچسپ کتاب، دو ٹوک حساب، حِسِ مزاح، قدم قدم نزاع،مستقل بے نیازی، کراری جملے بازی، لا یعنی گفتگو، با معنی جستجو، کھلم کھلا دشمنی اور عجیب و غریب دوستی کا رشتہ رہا۔ انگریزی ہم دونوں کی کمزوری تھی، وہ اس طرح کہ مجھے آتی نہیں تھی ، اِس کی ختم ہی نہیں ہوتی تھی۔ اس نے اصل زندگی کے ساتھ تخیل اور ڈکشن کی ایک الگ دنیا آباد کر رکھی ہے۔ مسیحوں کو دی جانے والی عیدی کو ’کرسمسی‘ ، بٹر پیپرز کو ’مکھن والے کاغذ‘ اور ڈولفن پولیس کے ہیلمٹ بردار نوجوانوں کو ’مچھلے‘ کہنا تو خیر اس کے معمول کے کام تھے، ایک دن کہنے لگی: ایک تو مَیں روزانہ سیّد ہو ہو کے تنگ آ گئی ہوں! بھلا یہ بھی کوئی تُک ہے کہ مَیں نرسری کلاس میں بھی سید تھی اور ایم فل انگلش کرنے کے بعد بھی۔ حد ہوتی ہے مستقل مزاجی کی بھی!!! اِس کے اسی منھ زور تخیل کو لگام دینے کی خاطر ہم نے اور اس کے اہلِ خانہ نے اس کے لیے افسانہ نگاری کی سازش تیار کی، چند ہی مہینوں میں جس کا توقع سے فزوںتر نتیجہ ’چندرا وتی‘ (۲۰۱۸ئ)کی صورت نکلا۔ ابھی بہاول پور کی ایک زنانہ یونیورسٹی کی اِس استاد کی اُردو افسانے کے ساتھ چٹ منگنی، اور پٹ بیاہ پہ لوگ پوری طرح انگشت بدنداں بھی نہیں ہوئے تھے کہ نو ماہ سے بھی کم عرصے میں ’مائیگرین اور محبت‘ (۲۰۱۹ئ) کی تولید عمل میں آ گئی۔ دونوں مجموعوں میں افسانوں کے ایسے اچھوتے موضوعات ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ جب مختصر افسانہ بھی اس کے طوفانی عزائم کا کچھ نہ بگاڑ سکا تو ہم نے بیٹھے بٹھائے ناول کا مشورہ دے ڈالا۔ اب دو صد صفحاتی ناول ’تارم‘ (۲۰۲۰ئ)کی خوش خبری سننے کو مل گئی۔ کتاب کی اشاعت بھی کوئی ایسا مسئلہ نہ تھی لیکن ناول کے لیے اس اُڈ پُڈ جانی نے جو موضوع چنا ہے، وہ بہت دھواں دار اور انوکھاہے۔ جنسی ہراسگی تو آج کا عام موضوع ہے لیکن اس نے اپنے ناول میں جس ہراسگی کو موضوع بنایا ہے، وہ ہے عورت کے ہاتھوں عورت کی ہراسگی۔ پھر منفرد کہانی اور مچلتے کرداروں کے ذریعے جس طرح اس کا تانا بانا بُنا ہے، وہ قابلِ مطالعہ ہی نہیں قابلِ داد بھی ہے۔ تارم نام کی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی اپنی دوستوں رشتہ داروں، کولیگز اور ہونے والے سسرال کی خواتین کے ہاتھوں کس کس طرح ہراسگی کا شکار ہوتی ہے اور کیسے اس پہ قابو پاتی ہے اور آخر میں ایک ایسے ادارے کی بنیاد رکھتی ہے، جہاںایسے کرداروں کا نفسیاتی علاج کیا جا سکے۔ جناب احمد ندیم قاسمی کے ایک جملے کے ساتھ بات ختم کروں گا جو انھوں نے میرزا غالب سے متعلق لکھا تھا، کہتے ہیں: سمجھ نہیں آتی کہ غالب کو اتنا جدید ہونے کی جرأت کیسے ہوئی، جب کہ اُس دور میں اُسے زندہ بھی رہنا تھا !!!