یہ تو معلوم نہیں کہ جے آئی ٹی کی سانحہ ساہیوال کے بارے میں تفصیلی رپورٹ کیا ہے مگر وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت کے بیان میں عجب تضاد ہے۔ ایک طرف وہ کہتے ہیں ساہیوال آپریشن بالکل درست تھا اور دوسری طرف فرماتے ہیں کہ فیملی بے گناہ تھی۔ گاڑی میں کل سات افراد تھے خلیل اس کی بیوی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا۔ چھ افراد بے گناہ اور ایک شخص کہ جس کے بارے میں ابھی تک معلوم نہیں کہ وہ دہشت گرد تھا یا شریف شہری تھا تو پھر آپریشن درست کیسے ہوا؟ اور آپریشن کا وحشیانہ انداز اس سے بڑا سوال ہے۔ گزشتہ تین چار دنوں کے دوران یہ حقیقت تو الم نشرح ہو گئی کہ پنجاب حکومت کی قیادت میں کوئی رجل رشید نہیں، کوئی مرد معقول نہیں، کوئی صاحب فہم و فراست نہیں، کسی کو یہ معلوم نہیں کہ موقع کی مناسبت سے کیا کہنا چاہیے اور کیا نہیں کہنا چاہیے اور جو کہنا چاہیے اس کے لیے موزوں الفاظ کیا ہونے چاہئیں۔ راجہ بشارت نے اتوار کو نہایت ہی نامناسب پریس کانفرنس کی اور سی ٹی ڈی کے افسروں اور اہل کاروں کا دفاع کرنے کی نہایت ہی بھونڈی کوشش کی۔ جہاں تک صوبے کے منتظم اعلیٰ عثمان بزدار کا تعلق ہے تو انہوں نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ صوبے کی سربراہی ان کے بس کی بات نہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے روز اوّل سے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ عمران خان نے نہ جانے کس مصلحت کے تحت پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کو لاوارث چھوڑ دیا ہے۔ جناب عثمان بزدار ایک شریف آدمی ہیں مگر دنیا تو دنیا خود انہیں حیرت ہوتی ہو گی کہ اتنے بڑے صوبے کی ’’صوبیداری‘‘کیونکر ان کے سپرد کر دی گئی ہے۔ ان کے اندر سے یقینا یہ صدا بقول ساغر صدیقی آتی ہو گی کہ جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں عمران خان کی یہ خسروانہ فیاضی ویسی ہی ہے جیسی مغل شہنشاہ کسی درباری سے ناراض ہو کر اسے سفید ہاتھی بخش دیتے تھے تا کہ وہ بیچارا ہاتھی کی دیکھ بھال میں ہلکان ہوتا رہے۔ صرف سانحہ ساہیوال کے حوالے سے ہی دیکھیے کہ وہ معصوم بچہ کہ جس کے سامنے اور اس کی دو ننھی منی بہنوں کے سامنے اس کے باپ، اس کی ماں اور اس کی بڑی بہن کو ایک بار نہیں دو بار گولیوں سے بھون ڈالا گیا تو اس کے پاس صوبے کا سربراہ اس انداز سے جاتا ہے کہ اس کا چہرہ تاثرات سے عاری ہے اور وہ بڑے مشینی انداز میں بچے کو پھولوں کاگلدستہ پیش کرتا ہے۔ کوئی صاحبِ احساس اور فرض شناس سربراہ ہوتا تو اس جذباتی لمحے میں محبت و اخلاص کا ایسا دریا بہا دیتا کہ غمزدہ خاندان کی اشک شوئی بھی ہوتی اور بچے کی ڈھارس بندھتی اور عوام سمجھتے کہ وزیر اعلیٰ کو معلوم ہے کہ والد کی طرح شفقت و محبت کا اظہار کیسے کرنا ہے۔ ایسے جذباتی مواقع اور اتنی افسوسناک اموات پر مالی معاونت کے اعلان میں جلد بازی نہایت نا مناسب لگتی ہے۔ اول تو وزیر اعلیٰ بولتے ہی نہیں اور جب بولتے ہیں تو اپنا پول خود ہی کھول دیتے ہیں۔ گزشتہ روز انہوں نے اخبار نویسوں کے سوال پر جھنجھلا کر کہا کہ میں کسی کو بلاتحقیق پھانسی نہیں لگا سکتا۔ کہنے کی بات یہ تھی کہ جناب میرے جذبات ہرگز آپ سے مختلف نہیں۔ میں بحیثیت باپ ان بچوں میں اپنی اولاد کا عکس دیکھ رہا ہوں مگر کچھ قانونی تقاضے بھی پورے کرنے ہوں گے آپ ذرا صبر کریں۔ سربراہی کسی ملک کی ہو یا کسی صوبے کی ہو یا کسی ادارے کی ہو اس کے لیے قائدانہ اوصاف کا ہونا ازبس ضروری ہے۔ قائد کے اندر یوں تو بے شمار صفات ہونی چاہئیں مگر معاملہ فہمی کی صفت سب سے اہم ہے۔جناب بزدار کی گرومنگ کے لیے خان صاحب نے کئی اتالیق مقرر کیے ہیں جن میں امریکہ کی ایک یونیورسٹی سے آئے ہوئے ہمارے ایک پروفیسر دوست بھی ہیں۔ معاشرتی و سیاسی گرومنگ کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ اس کے لیے تو برسوں ریاضت کرنا پڑتی ہے، ہتھیلی پہ سرسوں تو نہیں جمائی جا سکی۔ ہمیں حیرت ہے کہ خان صاحب کی ایسی کیا مجبوری ہے کہ وہ بیچارے بزدار صاحب سے ہی وہ کام لینے پر کیوں مصر ہیں، جس کام کے بزدار صاحب اہل نہیں۔ اس وقت زمینی حقائق یہ ہیں کہ عثمان بزدار کی قیادت کو بیورو کریسی دل سے تسلیم نہیں کرتی، سیاست دان نہیں مانتے اور خود پی ٹی آئی کے وزراء اور پنجاب کے قائدین بھی انہیں اس منصب کے لیے انتہائی ناموزوں شخصیت نہیں سمجھتے ہیں۔ انگریزی کا محاورہ تو یہ ہے کہ اصلاح میں دیر سویر ہو بھی جائے اصلاح کر لینی چاہیے مگر سیاست میں اصلاح کرنے میں ہرگز تاخیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا ہے بس آدمی وقت گزرنے کے بعد ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔ گزشتہ پانچ ماہ کے دوران پنجاب میں بارہا ثابت ہوا کہ جناب بزدار بیورو کریسی اور پولیس کو ٹیکل کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ پنجاب کی سیاسی و انتظامی معاملات کی خان صاحب کیسے تشخیص کرتے ہیں اور اس کے لیے کیا علاج تجویز کرتے ہیں۔ عمران خان کو یقینا ادراک ہو گا کہ صوبہ پنجاب کی سربراہی کا دارومدار مسلم لیگ(ق) کے چند ووٹوں پر ہے۔ اس لیے انتظامی ہی نہیں سیاسی معاملات پر بھی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے صوبے کا سربراہ بھی ایک مضبوط شخص ہونا چاہیے۔ گزشتہ چند روز کے دوران وزیروں مشیروں نے کچھ سچ بولا کچھ جھوٹ بولا مگر خان صاحب سے قوم یہ امید رکھتی ہے کہ وہ ادھورا نہیں۔ پورا سچ بولیں گے۔ پورا سچ بولنے میں ہی خان صاحب اور پی ٹی آئی دونوں کی سرخروئی ہے۔ جے آئی ٹی رپورٹ سے ایک بات تو واضح ہو گئی کہ فیملی بے قصور تھی لہٰذا فیملی کو بے دردی سے مارنے والے اہل کار اور مارنے والے کا حکم دینے والے افسران دونوں مکمل طور پر قصوروار ہیں۔ اس لیے افسروں اور اہل کاروں کو عبرت ناک سزا ملنی چاہیے تا کہ آئندہ اس طرح کی وحشیانہ کارروائی کا کوئی سوچ بھی نہ سکے۔ اس آپریشن سے سی ٹی ڈی کے سارے آپریشنز پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے جس کا جواب وزیر اعظم عمران خان کے ذمے ہے۔ اس طرح کا آپریشن تو ایلیٹ فورس یا پولیس کا تو نہیں جلادوں اور قاتلوں کا کام ہے۔ خان صاحب نے پنجاب میں پولیس کی اوورہالنگ کی بات کی تھی اس کا کلچر یکسر بدل دینے کی بات کی تھی مگر جس روز خان صاحب نے سابق آئی جی کے پی کے کو پنجاب سے رخصت کیا تھا اسی روز انہوں نے اپنے دعوے پر خود ہی خط تنسیخ پھیر دیا تھا۔ پنجاب پولیس خود کو عوام کا محافظ یا خدمت گار نہیں سمجھتی وہ عوام سے ایسے پیش آتی ہے جیسے فوجی دشمن سے پیش آتے ہیں۔ دیکھتے ہیں خان صاحب پنجاب پولیس کا روایتی کلچر بدلنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا ناکام۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا البتہ ایک فوری فیصلے کی ان سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ جناب بزدار کو ان کے ’’ناکردہ گناہوں‘‘کی معافی دیں گے اور انہیں صوبے کی سربراہی سے فارغ کر دیں گے کیونکہ جناب بزدار کا پنجاب کی سربراہی کے بارے میں اپنا احساس بھی یہ ہے کہ جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں