اپنا مسکن مری آنکھوں میں بنانے والے خواب ہو جاتے ہیں اس شہر میں آنے والے بات کچھ بھی نہیں بس اپنا مزاج ایسا ہے ہم تری بزم میں واپس نہیں آنے والے آپ ہرگز نہ سمجھئے گا کہ میرا اشارہ نواز شریف کی طرف ہے کیونکہ وہ واپس ضرور آئیں گے مگر پہلا شعر تو خالصتاً رومانٹک ہے یا آپ ادبی کہہ لیں۔ پہلے ہی الماس شبی نے پچھلے کالم پر کمنٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سیاست میں ادب کا تڑکا آپ خوب لگاتے ہیں بلکہ اب کے تو نورجہاں بھی در آئی۔ بات یوں ہے میرے پیارے قارئین! کہ کہنے والے کہہ گئے ہیں کہ ’’بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کے بغیر‘‘ویسے بھی مجھ سا بے ہنر کیا کیا راہ اختراع کرے گا، یہ کچھ کچھ تو میں نے غالب چچا سے سیکھا ہے کہ خط میں باتیں کیسے کرنی ہیں یا یوں کہہ لیں کہ کالم کو خط کیسے بنانا ہے کہ ملاقات کا مزہ بھی آ جائے۔ دل کی بات بھی ہو جائے اور کسی کی دل آزاری بھی نہ ہو۔ کسی کو احساس ہو جائے مگر وہ محسوس نہ کرے۔ ہمارا ہر کام ہی ایسا ہے کہ: اس کو خوشبو کی طرح ساتھ بھی رکھوں اپنے اور پھر اس کو زمانے سے چھپانا چاہوں آپ سیاست سے کنارہ کش نہیں ہو سکتے کہ معاشرتی، سماجی اور معاشی حالات سے آپ الگ کیسے ہو سکتے ہیں؟۔ اچھی بات ہے لوگوں سے مکالمہ ہی ہو جاتا ہے۔ میں کسی کی کہی ہوئی بات کو کبھی نظر انداز نہیں کرتا کہ یہی انصاف کا تقاضا ہے کہ آپ بات سنیں اور سنیں بھی سمجھنے کے لیے مگر ہم تو بات کرتے ہیں تو دوسرے کو سمجھانے نہیں بلکہ اپنی منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب ریحانہ کنول پوچھتی ہیں کہ جناب پونے دو کروڑ ووٹ لے کر جیتنے والے محب وطن ہیں اور تین کروڑ ووٹ حاصل کرنے والے غدار ٹھہرے۔ میرا خیال ہے غدار قرار دینا تو درست نہیں۔ مگر بات آگے بڑھائی جا سکتی ہے کہ گھر کی لڑائی کو باہر لے جانا یا گھر والوں سے باہر کی زبان بولنا بھی تو اچھی بات نہیں۔ مثلاً ڈان لیکس یا میموگیٹ سکینڈل کا تذکرہ شروع ہو سکتا ہے۔ جب آپ ایک ملک کے سربراہ کے مقام سے اتر کر کہیں جا کر خفیہ تجارتی ملاقاتیں کریں گے اور بغیر ویزے کے مسلمانوں کے قاتل اعظم کو گھر بلا کر کسی کو چڑائیں گے تو پھر نیوٹن کا قانونِ ردعمل کی برابری کا نافذ تو ہو گا۔ ویسے نیوٹن اور تاجر میں یہی فرق ہے۔ نیوٹن نے سوچا تھا کہ سیب نیچے کیوں گرا اور تاجر سوچتا ہے کہ اس نے یہ سیب اٹھانا کیسے ہے! تم محبت کو تجارت کی طرح لیتے تھے یوں نہ ہوتا تو تمہیں اس میں خسارا ہوتا میرا خیال ہے کہ اب گڑھے مردے اکھاڑنے کا وقت نہیں بلکہ کچھ مردے گاڑنے کا وقت آ گیا ہے جس کی تابندہ مثال عدلیہ کا حالیہ فیصلہ ہے کہ جس میں سانحہ بلدیہ کیس میں رحمن بھولا اور زبیر چریا کو 264 بار سزائے موت دی جائے گی کہ اس میں اتنے ہی نفوس بے چارے بھسم ہوئے تھے اور تاریخ کا یہ بدترین کارنامہ 20کروڑ بھتہ نہ دینے پرپیش آیا تھا۔ کچھ مفرور ہیں اور کچھ کو عمر قید سزا دی گئی ہے۔ یہ قدرت ہے جو آخر مجرم کو گھیر لیتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اصل مجرم بھی بچ نہیں پائیں گے اور سب سے بڑا مجرم جو اب ہندو ہو چکا ہے اور جس نے کراچی کا امن غارت کیا، ٹارچر سیل بنائے، بوری بند لاشیں دیں، لندن میں بیٹھ کر ٹارگٹ کلنگ کروائی وہ بھی ایک دن سسک سسک کر مرے گا۔ صد شکر کہ عدالت نے ثابت کر دیا کہ یہ حادثہ نہیں سانحہ تھا۔ کس کو نہیں پتہ کہ یہ کس کی ایما پر ہوا تھا اور جنہیں نفیس اور شائستہ لوگ کہا جا رہا ہے اور اپنی ہی رائے کی تذلیل کی جا رہی ہے تو یہ سب کیا ہے۔ مجھے غزل یاد آ رہی ہے! اے کراچی آ ترا نوحہ لکھوں آسماں سے ٹوٹا اک تارہ لکھوں موت کے آغوش میں ہے زندگی اس سے آگے خود بتامیں کیا لکھوں ان گنت لاشے اٹھے ہیں شہر سے اب میں کس کس شخص کا کتبہ لکھوں ہمارے سینے پر بہت زخم لگے ہیں اور یہ گائو بھرنے والے نہیں۔ مجھے وہ عمران کا لندن میں قتل اور پھر الطاف کی نوحہ خوانی بھی یاد ہے۔ ہائے ہائے ہم نے تو تب ہی محسوس کیا تھا کہ ’’کس طرح پاک ہوئے اشک بہانے والے۔ یہی معصوم ہیں زندوں کو جلانے والے‘‘ دکھ تو اس بات کا ہے کہ اتنا زیادہ برباد ہونے کے بعد کیوں فیصلہ کیا گیا کہ کراچی کو آزاد کروایا جائے۔ ایک نہیں دو نسلیں تباہ کر دی گئیں جنہوں نے کتابیں نہیں ٹی ٹی خریدے اور بھتے پر زندگی کو استوار کیا۔ ذہانت کو دہشت گردی کی آگ میں جھلسا دیا گیا۔ کراچی کو اب بھی وفاق کی طرف سے توجہ کی ضرورت ہے۔ ابھی بارشوں کی تباہی میں بھی ان کی طرف توجہ نہیں دی گئی سوائے 70ارب کے سوا کہ آپ آئس کریم ہاتھ میں رکھیں اسے زبان نہ لگائیں۔ ہمیں یہاں کے نوجوان کی محرومی دور کرنا ہو گی روزگار پیدا کرنا ہو گا۔ آج ہی 92میں پانچ کالمی سرخی چھپی ہے کہ ’’وفاقی کابینہ نے جان بچانے والی 94ادویات کی قیمتیں بڑھانے کی منظوری دے دی ہے‘‘ قارئین کو یاد ہو گا کہ پچھلے چند مہینوں میں ادویات کی چار صد فیصد قیمتیں بڑھی تھیں۔ اب تو جان بچانے والی ادویات کی قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں سوال یہ کہ اب غریب ہی نہیں مڈل کلاس کی جان پر بھی بن آئی ہے۔ غریب تو پہلے ہی مرا ہوا ہے اب سفید پوش جان بچاتے ہوئے مارا جائے گا۔ لوگوں کے لیے تو آٹا خریدنا مشکل ہو گیا ہے۔ دوائی تو بعد کی بات ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ تقریباً روزانہ عثمان بزدار کا بیان آتا ہے کہ آٹا بیچنے والے من مانی نہ کریں۔ آٹا سستا کریں۔ معلوم نہیں وہ یہ آرڈر دیتے ہیں یا مافیاز سے درخواست کرتے ہیں۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ روز اس منصب کی توہین نہ ہونے دیں۔ د آخر میں آصف شفیع کا شعر: اے مجھے میر کے اشعار سنانے والے جاگ اٹھے ہیں کئی درد پرانے والے