پیپلزپارٹی 2008ء کے انتخابات جیت چکی تھی۔ پارٹی منشور صنعت کاری سے زیادہ زراعت کی ترقی پر زور دیتا ہے اس لیے کسان ووٹروں کو امید تھی کہ حکومت ان کے برسہا برس سے چلے آ رہے مسائل پر توجہ دے گی۔ یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں زمینداروں کی اکثریت تھی۔ نذر محمد گوندل کو خوراک و زراعت کا قلمدان ملا۔ گوندل صاحب خود سینکڑوں ایکڑ اراضی کے مالک اور زراعت کی ضروریات سے واقف تھے۔وزیر بنے تین چار ماہ ہو چکے تھے، لاہور تشریف لائے، جس میڈیا ہائوس میں ملازمت تھی وہاں کی انتظامیہ زراعت سے میری دلچسپی سے واقف تھی۔ ادارے نے کچھ عرصہ ہوا ٹی وی چینل بھی شروع کیا تھا۔ ٹی وی کیلئے نذر محمد گوندل کا انٹرویو کرنا تھا۔ ایک گھنٹے کا لائیو انٹرویو تھا۔ مجھے آدھ گھنٹہ پہلے بتایا گیا کہ گوندل صاحب سی ای او کے کمرے میں بیٹھے ہیں۔ آپ ان کا انٹرویو کریں گے۔ میرے دفتر میں زراعت پر کچھ نوٹس موجود تھے ان ہی کی مدد سے ایک سوال نامہ تیار کیا۔ تین منٹ پہلے سیٹ پر پہنچا اور وزیر زراعت کا استقبال کیا۔ نذر محمد گوندل سے یہ میرا پہلا ٹاکرا تھا۔ مجھے معلوم تھا انٹرویو میں انہیں پریشان کرنا مقصود نہیں بلکہ انتظامیہ ممنونیت کا تاثر رکھنا چاہتی ہے۔ ساتھ یہ بھی احساس کہ صرف وزیر زراعت کو خوش رکھا تو انٹرویو کون دیکھے گا؟ ایک پلان انتظامیہ کا تھا، مجھ سے کہا جا رہا تھا کہ اس پلان کو فالو کرنا ہے لیکن انتظامیہ کے پاس چونکہ تکنیکی مہارت اور علم نہیں تھا اس لیے وہ سارا انحصار مجھ پر کر رہے تھے۔ انٹرویو کا آغاز روایتی خیر سگالی کے جملوں سے ہوا۔ میں نے زراعت کے متعلق علم کا پوچھا تو نذر محمد گوندل مجھے انجان سمجھ کر فائول کھیلنے لگے ہیں۔ وہ سارا وقت بے مقصد گفتگو پر خرچ کرنا چاہتے تھے۔ پہلے وقفے کے بعد کچھ منٹ انہوں نے مزید کاشت کاروں کے مسائل پر بات کی۔ میں نے سوال بدل ڈالے، لکھے ہوئے ایک طرف رکھے اور ان سے گزارش کی کہ ذرا یہ بتائیے یہ جو پٹوار کے کاغذات سروے فارم، ریونیو فارم، کاشت اور کاشت کاروں کے کوائف اردو میں موجود ہیں یہ کس نے تیار کرائے، انہوں نے جوجواب دیا وہ خاصا طویل ہوا تو میں نے سر فضل حسین کا نام لیا، جو پنجاب یونیورسٹی کے وی سی اورآزادی سے پہلے پنجاب اسمبلی کے رکن رہے۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی حکومت آئے ابھی چند ماہ ہوئے ہیں، اس لیے مکمل ذمہ داری آپ پر عاید نہیں کی جا سکتی لیکن کیا آپ اس بات سے واقف ہیں کہ پاکستانی حکومت نے کچھ ہی عرصہ قبل کپاس کی ان بی ٹی اقسام کو کاشت کرنے کی اجازت دی ہے جو بھارت میں نتائج دینے میں ناکام رہیں اور وہاں درجنوں کسان گھاٹے کی وجہ سے خود کشی کر چکے ہیں۔ ایک اور سوال جس کا وفاقی وزیر خوراک کے پاس جواب نہیں تھا کہ پاکستان کو سالانہ گندم کی کتنی مقدار چاہئے اور اس مقدار کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کتنی ہے۔ مجھے نواز شریف کی دوسری حکومت کے وزیر زراعت عبدالستار لالیکا بھی یاد ہیں جن کے رویے سے مایوس ہو کر میرے دوست زرعی سائنسدان ڈاکٹر طارق محمود چٹھہ پاکستان سے آسٹریلیا نقل مکانی کر گئے۔ ہمارے ہاں حکومتوں کو زراعت سے اتنی ہی دلچسپی رہی ہے کہ کسی جاگیردار اور سینکڑوں، ہزاروں ایکڑ اراضی کے مالک رکن اسمبلی کو اس شعبے کا وزیر بنا دیا جاتا ہے۔ زرعی تحقیقاتی کونسل میں جا کر کوئی کہانیاں سنے کہ کیا کسی حکومت کا وزیر زراعت وہاں آتا ہے؟یہ بھی پوچھا جائے کہ کبھی کسی وزیر زراعت نے زرعی تحقیق سے متعلق کوئی فائل پڑھ کر اس پر مزید بات کی خواہش ظاہر کی، یہ بھی پوچھا جانا چاہئے کہ ملک میں زرعی تحقیق کے لیے کتنی لیبارٹریز موجود ہیں اور وہاں جو جدید آلات کے نام پر زنگ آلود سامان پڑا ہے اس پر کسی نے آج تک نظر کیوں نہیں کی۔ پاکستان کو جنت بنانے کی بات نہ کریں۔ جنت تو مرنے والوں کا انعام ہے۔ یہاں مرے ہوئے لوگ زندگی کا انتظار کر رہے ہیں۔ زندگی جو سبز کھیت میں چھلانگیں لگاتی ہے، زندگی جو بھری دوپہر میں ننگے پائوں خاک سے اٹے راستے پر بے فکری سے بھاگتی ہے، زندگی جس کی منصوبہ بندی ذمہ داری محسوس کرنے والی حکومتیںکرتی ہیں۔ وہ زندگی جہاں کسان کو بھوک کے خلاف فرنٹ لائن کا سپاہی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہاں زندگی کی حفاظت کرنے والے کسان کی قسمت ان لوگوں کے حوالے کر دی جاتی ہے جو زمین سے ساہوکار والا رویہ رکھتے ہیں، جو بے رحم گوالوں کی طرح زمین سے صرف دودھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ بچھڑے کو اس دودھ سے پالنا نہیں چاہتے۔ آج ہمارے کھیت میں گندم کی کٹائی ہو گئی۔ یہ گندم گھر کی ضرورت کے لیے کاشت کرتے ہیں۔ ملک بھی ہمارا گھر ہے۔ یہاں 2004ء میں نئے گودام بنانے کا منصوبہ بنا لیکن کہا گیا فنڈز نہیں ہیں۔ اس کے بعد کئی بار منصوبہ فائلوں سے نکالا گیا مگر فنڈز کا انتظام نہ ہو سکا۔ پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے پاس زیادہ سے زیادہ 2.18 ملین ٹن گندم ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔ پاسکو کے پاس 0.8ملین ٹن کے گودام ہیں۔ اس حساب سے ہر سال کٹائی کے بعد 10سے 35فیصد فصل ضائع ہو جاتی ہے۔ ہر سال 2.42ملین ٹن گندم، 0.55ملین ٹن چاول ضائع ہونے کی شرح بہت زیادہ ہے۔کیا یہ بات دکھ میں اضافہ نہیں کرتی کہ ہر سال 12ملین ٹن سبزیاں اور پھل اس وجہ سے ضائع ہو جاتے ہیں کہ ہمارے پاس انہیں ذخیرہ کرنے یا ان کی ذیلی مصنوعات تیار کرنے کی صلاحیت نہیں۔ جہاں زرعی شعبے کا کوئی انفراسٹرکچر ہے نہ مارکیٹنگ، وزیر سے لے کر نچلے عملے تک کو زراعت کی تکنیکی اور عصری ضروریات کا علم ہے نہ کسی کو دلچسپی، اپنا ہی تازہ شعر پیش خدمت ہے۔ زنجیر عدل دیکھ لی، غوغا بھی سن لیا انصاف ترازو میں دکھائی نہیں دیا