6نومبرتاریخ کشمیرکاایک سیاہ ترین باب ہے۔ اس دن جموں کے غدر کاجگر چیر دینے والاایسا وحشت انگیزسانحہ پیش آیاکہ جس کا تذکرہ لکھتے ہوئے قلم بھی آنسو بہانے پر مجبور ہے انسان کی تو بات ہی نہیں اس کا رنگ فق ، چہرہ متغیر ، لہجہ لرزاں اور دل اس غدر عظیم کا تذکرہ کرتے ہوئے خون کے آنسو روتا ہے۔ ہلاکو اور چنگیز جیسے قاتلان انسانیت کے پیروکار وں نے جموں میںبڑے پیمانے پر مسلمانانِ جموں کا قتل عام کیا۔یہ جرم رہتی دنیا تک راشٹریہ سیوک سنگھ اور اس کی تمام شکلوں کے ماتھے پر دور سے نظر آتا رہے گا۔27 اکتوبر1947ء کو جب اسلامیان جموںو کشمیر ، جو پہلے ہی ڈوگرہ ظلم و ستم کے شکار تھے پر قیامت صغری برپا ہوئی اگرچہ جموں وکشمیر کے چاک گریبان مسلمانوں کی داستان الم یکساں ہے تا ہم کسی توضیح ، تشریح ، تعبیر اور تفسیر کے بغیر ہی یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ 6نومبر کے جموں غدر میں جموی مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام اور بے خانماں ہونے کے باعث وہ ریاست جموںو کشمیر کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ اور بڑی قربانی پیش کرنے میں سر فہرست ہیں۔ مظلوم جموی مسلمانوں کی عظیم قربانیوں اور ان کی اولوالعزمی کو دیکھ کر زبان سے بے ساختہ نکلتا ہے کہ جموی مسلمانوں کی عظمت کو سلام 6نومبر کے غدر میں اس صوبے کے پانچ مسلم علاقوں جموں ، کٹھوعہ ، اودھم پور اور ریاسی میں مسلم آبادی کو ختم کر دیا گیا ان کے گھر بار جلا دئیے گئے ،جو اس غدر میں زندہ بچے وہ آگ اور خون کے طوفان سے گزر کر پاکستان پہنچے۔جموں میں عین اس وقت مسلمانوں پر غدر ہوا کہ جس وقت مشرقی پنجاب میں پٹیالہ ، نابھہ اور جنید میں مسلم آبادی بری طرح لٹ رہی تھی۔ اس وقت سردار ولبھ بھائی پٹیل بھارت کے وزیر داخلہ اور بلدیو سنگھ وزیر دفاع تھے۔ اس لئے دونوںسردار پٹیل اور بلدیو سنگھ اس جرم عظیم کے براہ راست ذمہ دار تھے ۔دونوں کا ارادہ تھا کہ جموں کی طرح وادی کشمیر میں بھی مسلمانوں کا صفایا کر دیا جائے لیکن خدا کے کرم سے وادی کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کا تشخص باقی رہا۔ مسلمانانِ جموں کا قتل عام اس وقت ہوا جب رسوائے زمانہ ریڈ کلف ایوارڈ کے ذریعہ مشرقی پنجاب کے مسلم اکثریت والے ضلع گورداسپور بھارت کو کشمیر میں داخل ہونے کیلئے ایک راستہ نکال کر گرداسپور کو بھارت میں شامل کیا گیا ۔ بھارت کے پہلے برطانوی گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن اور بائونڈری کمیشن کے چیئرمین ریڈ کلف بھارتی حکمرانوں کے شانہ بشانہ اس سازش کو تیار کرنے میں کھڑے تھے ۔ اس قتل عام کے وقت جموں صوبے کی کل آبادی میں 80 فیصد مسلمانوں کا تناسب تھا۔ایک منصوبہ بند پروگرام کے تحت جموں کے دیہاتوں میں مسلمانوں کے قتل عام اور ان کے گھر بار جلانے اور لوٹنے کا سلسلہ اکتوبر1947ء کے اوائل سے ہی شروع ہو چکا تھا۔ چنانچہ سینکڑوں کی تعداد میں گھبرائے ہوئے سہمے ہوئے ، لٹے پٹے اور زخمی مسلمان دیہاتوں سے شہروں میں پناہ لینے کیلئے آرہے تھے ۔ شہروں میں مسلمانوں کے قتل عام کی سازش پہلے سے تیار تھی ۔ 2 نومبر کو فوجیوں اوربلوائیوں نے تالاب کھٹیکاں میں عبد الحمید جونیئر انجینئر کے گھر پر حملہ کیا اور وہاں پر مبتلائے اذیت و رنج پناہ گزین تمام مردوں کو تہہ و تیغ کیا اور عورتوں کو اغوا کیا۔ اسی طرح سردار اکرم خان کے مکان میں سہمے ہوئے پناہ گزین افراد کو بھی وحشیانہ طور پر قتل کیا گیا ۔اس کے ساتھ ہی مہاراجہ پٹیالہ سردار یدوندر سنگھ نے مزید فوجی کمک جموں کو روانہ کر دی جنہوں نے سنگھی ورکروں اور پنجاب کے فرقہ پرستوں کے ساتھ مل کر دلپتیاں ، کھٹیکاں ، تالاب ، مست گڑھ اور دیگر مسلم اکثریتی علاقوں پر حملے کر دئیے۔ 4 نومبر کو بھارتی وزیر داخلہ ہند سردارو لبھ بھائی پٹیل ، وزیر دفاع سردار بلد یو سنگھ اور مہاراجہ پٹیالہ وارد جموں ہوئے۔ یہاں پر انہوں نے مہاراجہ کے ساتھ طویل مشورہ کے بعد مسلمانوں کے قتل عام کی سازش رچائی ۔ اس سازش کے تحت حکومت نے اعلان کیا کہ پاکستان جانے کے خواہش مند مسلمان 5 نومبر کو پولیس لائنز میں پہنچ جائیں۔ چنانچہ ان نہتے اور بھوکے ننگے ستم رسیدہ مسلمانوں کو36 ٹرکوں میں سوار کیا گیا۔ اس قافلے کو سیالکوٹ براستہ آر ایس پورہ لے جانے کے بجائے سانبہ لے جایا گیا جہاں پر بندوقوں، تلواروں، بھالوں اور برچھیوں سے لیس تربیت یافتہ دہشت گردوں نے انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کے رکھ دیا۔خوش پوش مسلمانوں کے کپڑے اتارے گئے اور کہا گیا کہ یہ کپڑے مہاراجہ ہری سنگھ کی Property ہے ۔ اس قافلے کی تمام جوان عورتوں اور لڑکیوں کو اغواکیا گیا جن میں مسلم کانفرنس کے محبوس لیڈر چوہدری غلام عباس خان مرحوم کی صاحبزادی بھی تھیں۔ بعد میں اسے بازیاب کیا گیا اور پاکستان روانہ کیا گیا ۔ ہری سنگھی انتظامیہ نے اس قتل عام کے لئے سانبہ کے دور دراز علاقے کو محض اس لئے چن لیا کہ جموں کے مسلمانوں کو اس کی خبر نہ پہنچ پائے ۔ اگلے روز 6 نومبر کو بھی یہی شرمناک عمل دہرایا گیا۔ چنانچہ مسلمان اپنے آباد اور پر رونق گھروں کو چھوڑ کر پولیس لائنز میں آپہنچے، وہاں پر 25 ٹرکوں اور لاریوں کا ایک قافلہ ترتیب دیدیا گیا جسے پہلے جموں سانبہ روڈ پر واقع ڈگیانہ میں روک لیا گیا بعد میں اسے لیپرہسپتال (Leper Hospital ) کے قریب لایاگیا جہاں پر دہشت گردوں نے انہیں اس طرح اپنی غارت گری کا نشانہ بنایا کہ جس سے کوہ و دمن لرز اٹھے۔ چار ہزار کے قریب اس قافلے میں شامل لوگوں میں سے صرف نو سو افراد پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئے ۔ اس قافلے میں ریاست کی مایہ ناز ہستیوںکو شہید کیا گیا۔ پروفیسر ملک فضل حق ، پروفیسر محمد عمر ، بابو فضل الدین ، پروفیسر شیخ عبد الرشید ، قاضی قمر الدین ، مستری فیروز الدین، پروفیسر قمر الدین ، سردار سلیم خان ، سردار اکرم خان، راجہ محبت خان جیسے جموی اکابرین اس قافلے میں تھے ۔ اس کے بعد 9 نومبر کو ایک اور قافلہ ترتیب دے د یا گیا۔ اس میں30 ٹرک اور لاریاں تھیں اس کو با ضابطہ فوجی گارڈ بھی مہیا کیا گیا۔ جموں سے اسے سو چیت گڑھ کی طرف روانہ کیا گیا لیکن اس کے بجائے اسے پاکستان بورڈ کے قریب ارنیہ کے گائوں پہنچایا گیا وہاں پر اس پر وہی قیامت برپا ہوئی جو اس سے پہلے کے قافلوں پر ہوئی تھی ۔ ڈوگرہ حکمران کی پشت پناہی راشٹریہ سیوک سنگھ کی تنظیم کو فراہم تھی۔ ان دنوں جموں میں انتظامیہ کا عملی کنٹرول انتہا پسندوںکے ہاتھوں تھا۔اس کے کمانڈر پوناممبئی سے آکر جموں اودھم پور ، ریاسی اور دوسرے اہم شہروں میں اپنی نگرانی میں قتل عام کروا رہے تھے ، جموں شہر مسلمانوں کی آبادی کا بڑا شہر تھا ۔ یہ مہاراجہ ہری سنگھ کی جنم بھومی بھی تھا۔ یہاں کے مسلمان ریاست میں سیاسی جدوجہد کا ہر اول دستہ تھے۔ انہیں زیادہ بے رحمانہ اور سنگدلانہ ظلم و ستم کا اس طرح نشانہ بنایا گیا کہ انسانیت سر پیٹ کر رہ گئی۔ فوج کے سابق جوان راشٹریہ سیوک سنگھ کے تربیت یافتہ دہشت گردوں اور مقامی بلوائی بھی بندوقوں ، تلواروں اور کلہاڑیوں سے ان بے بس مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ، انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا گیا ، بچوں کو نیزوں پر اچھالا گیا ، جوان عورتوں کو اغوا کیا گیا۔یوں مسلمانوں کے بے بس قافلے 5 اور 6 نومبر کو بھی اسی طرح خون میں نہلائے گئے ۔ان تین د نوں میں ہزاروں مسلمان موت کی نیند سلا دئیے گئے۔6 نومبر کو بسیں واپس پولیس لائنز مزید مسلمانوں کے قافلے لینے کیلئے گئیں ،ان کی نشستیں اور فرش خون سے لت پت تھے ۔ایک دومسلم نوجوان بچ کر واپس پہنچے ۔انہوں نے پیچھے منتظرعسیر الحال مسلمانوں کو اطلاع دی کہ تین دن کے قافلوں پر کیا قیامت بپا کی گئی۔ 1947 ء سے آج تک اسلامیان جموں کے خاک بسر کارواں نے اپنا غم نہیں بھلایا ظاہر ہے کیسے بھلا سکتے ہیں اس کارواں نے ایک جہاں کے غم و الم کو اپنے سینے میں چھپائے رکھا ہے ۔ جموں میں ایک نہیں کئی جلیاں والا باغ کے خون آشام سماں میں بچ جانے والے کل کی طرح آج بھی اپنے چار سو قاتلوں اور ستمگروں کو برچھیاں ، نیزے ، تلواریں ، بندوقیں اور بھالے لئے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ امر ناتھ شرائن بورڈکوکشمیر کی سر زمین کا ایک بڑا رقبہ منتقل ہونے کے خلاف وادی کشمیر میں مسلمانوں کے حق بجانب اور جائز احتجاج اور رد عمل کا جموی مسلمانوں نے بھر پور اور مکمل ساتھ نبھایا تو اس پر جموں کے بلوائیوں نے امسال ماہ جون اور جولائی میں ایک بار پھر صوبہ جموں میں 6نومبر والی جانگسل، دلدوز اور روح فرسا کہانی دھرانے کی نامراد اور نا کام کوشش کرتے ہوئے جموں کے مسلمانوں پر ہاتھ اٹھایا ۔ مارنے اور جلانے کی دھمکیاں دے کر انہیں خوفزدہ کر دیا گیا،جبرا قابل اعتراض نعرے لگوانے پر مجبور کیا گیا ۔کئی علاقوں میں مسلمانوں کی ٹرانسپورٹ نذر آتش کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمان مسافروں کا مال و اسباب لوٹنے سمیت ہر جنونی اور دہشت گردی کا حربہ آزمایا گیا ۔