موجودہ سیاسی گہما گہمی سے لگ رہا ہے کہ حالات تبدیل ہونے جا رہے ہیں‘ایک طرف تحریک انصاف کے ممبران کی واپس پارلیمنٹ میںانٹری اور دوسری طرف چودھری پرویز الٰہی کی ساتھیوں سمیت تحریک انصاف میں شمولیت یقینا کسی قیامت کا پیش خیمہ ہے۔اگر پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں اور شاہ محمودہ قریشی اپوزیشن لیڈر بھی بن جاتے ہیں تو تحریک انصاف کا پلڑا یقینا بھاری ہو جائے گا‘پی ڈی ایم کی گیارہ جماعتوں کو فیصلہ سازی میں دقت بھی ہوگی اور انھیں کڑے حالات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم مزید ایسے ہتھکنڈے آزمائے گی جس سے تحریک انصاف کا تشخص مجروح ہو اور اس کی مقبولیت میں کمی کی جا سکے مگر ایسا ممکن نہیں ہوگا۔صدر پاکستان نے ۹ اپریل کی تاریخ دی جو ان کا آئینی اختیار تھا‘اس پر حکومتی ترجمانوں کا سیخ پا ہونے سمجھ میں نہیں آتا۔مجھے دختر ِنون لیگ کی ایک بات پر بہت حیرت بھی ہوئی اور غصہ بھی آیا‘عمران خان جیسے تیسے عدالت پہنچے اور اس نے اپنی حفاظتی ضمانت منظور کروائی‘اس پر مریم نواز کا یہ بیان کہ’تم چھپ کر بنکر میں بیٹھے ہو‘عدالت پیش نہیں ہوتے کہ کہیں پکڑے نہ جائو‘‘کتنااحمقانہ اور بچگانہ ہے۔ مریم نواز کے والد گزشتہ تین سال سے عدالتوں کو مطلوب ہیں‘عدالتیں بلا بلا کر تھک گئیں مگر وہ پیش نہ ہوئے اور آج وہی مریم نواز اپنے بیانات سے ایسا تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ جیسے عمران خان مفرور ہیں‘کاش مریم نواز اسٹیج پر خطا بت کے جوہر دکھاتے ہوئے اپنے بیانات پر غور کر لیا کریں۔ حیرت تو یہ ہے کہ مریم نواز کو کوئی بتاتا بھی نہیں کہ ایسے بیانات سے وہ اپنا قد مزید چھوٹا کر رہی ہیں‘عوام کو مزید بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا ‘عوام ان کی شاطرانہ چالوں اور جاہلانہ خطابات سے پوری طرح آگاہ ہو چکے۔عمران خان پر درجنوں ایف آئی آر کٹوانے کے بعد بھی جیسے عوام اس کے ساتھ کھڑے ہیں‘نواز شریف کی چالیس سالہ سیاست میں ایسا نہیں ہوا ہوگا۔چیئرمین نیب کا استعفیٰ اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ انہیں مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کی ناکام کوشش کی گئی‘ا نہوںنے استعفیٰ دے کر قیادت کا پول کھول دیا۔جب چونتیس ایف آئی آر سے بھی عمران خان کا کچھ نہ بگاڑ سکے تو اب نیب کے منت ترلے شروع کر دیے کہ آپ ہی کچھ کریں‘اسے نااہل کریں یا پھر قید۔ صدر عارف علوی نے ۹ اپریل کی تاریخ تو دے دی مگر الیکشن کا انعقاد مشکل نظر آ رہا ہے۔‘راقم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ فی الوقت نون لیگی سیاسی طور پر ایک غیر مقبول جماعت بن چکی‘ایسا کیوں ہوا؟میں اس کا سارا کریڈٹ مریم بی بی کو جاتا ہے۔وہ پچھلے تین سالوں سے جیسے انتہائی غیر سمجھداری سے بیان دے رہی ہیں‘ان کی اپنی پارٹی کے لوگ اس کے خلاف ہو چکے۔شاہد خاقان عباسی کی ناراضی تو ایک ٹریلر تھا‘اندر کھاتے جو کھچڑی پک رہی ہے‘وہ نون لیگ کو ہضم نہیں ہوگی۔نون لیگ یا شریف برادران کچھ دن کے لیے مریم نواز سے مائیک واپس لے لیں‘یقین کریں حالات بہت مختلف ہوں گے۔آج سے جیل بھرو تحریک بھی شروع ہو جاے گی‘تحریک انصاف کے قائدین اور عوام ہزاروں کی تعداد میں جیلوں کا رخ کریں گے تاکہ حکومت اپنا شوق پورا کر لے‘یہ جیل بھرو تحریک ناکام ہوگی یا کامیاب‘یہ الگ بحث ہے مگر اتنا ہو گا کہ اس تحریک سے عمران خان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا جس سے پی ڈی ایم کی بوکھلا سکتی ہے۔ چودھری پرویز الٰہی تو عمران خان سے ہاتھ ملا چکے مگر خبر یہ ہے کہزرداری اب نون لیگ سے علیحدگی کا پلان بنا رہے ہیں کیوں کہ پیپلز پارٹی جانتی ہے اگلے انتخابات میں شمولیت اس اتحاد کے ساتھ ممکن نہیں ہوگی‘یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کی گیارہ جماعتیں اگلے چند دن یا ایک ڈیڑھ ماہ تک پھوٹ کا شکار ہو جائیں گے اور شریف برادران اور زرداری ایک دفعہ پھر ایک دوجے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے کریں گے۔آپ کو شاید یہ خبر عجیب لگے مگر گیارہ ’ستاروں‘کا اتحاد بہت جلد ختم ہونے والاہے اور ضمنی انتخابات کی بجائے جنرل انتخابات کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔عمران خان کلین سویپ تو شاید نہ کریں مگر حکومت میں انٹری اسی کی ممکن بنائی جائے گی‘پی ڈی ایم کے ساتھ دوبارہ پرینک ہو جائیگا۔ بہرحال موجودہ سیاسی گہماگہمی سے ایک بات تو طے ہو گئی کہ نون لیگ شدید خواہش کے باوجود تحریک انصاف کا عمران خان کا کچھ نہ بگاڑ سکی‘مریم نواز کے انٹرویو بھی عمران خان کی مقبولیت کو کم نہ کر سکے‘مریم نواز کی دکھ بھری کہانی سننے کے بعد بھی عوام کے دل میں ان کے لیے ہمدردی پیدا نہ ہو سکی حالانکہ جیسے انھوں نے بتایا کہ جیل میں وہ فرائی پین سے کپڑے استری کرتی رہیں‘عوام کو ان کے ساتھ زاروقطار رونا چاہیے تھا مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ دنیا جانتی ہے کہ یہ انٹرویو پوری پلاننگ کے ساتھ لانچ کیا گیا جس سے فائدے کی بجائے نقصان ہوا‘عوام نے دکھ بھری کہانی پر بھی تالیاں بجائیں اور مریم نواز کی گفتگو کو بچگانہ قرار دیا۔میں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی یہی مشورہ دوں گا کہ نون لیگ اپنے ترجمان یا تو تبدیل کرے یا پھر ان کی ٹریننگ کرے ‘مریم نواز کا بیان بھی پوری پارٹی کا بیان ہوتا ہے‘عطا تارڑ یا مریم اورنگ زیب بھی پارٹی کے نمائندے ہیں‘ان کی طرف سے غیر سنجیدہ بیان بازی پارٹی کو کتنا نقصان پہنچا رہی ہے شایدان کو اندازہ نہیں ہورہا۔