بے نظیر بھٹو کی شہادت کے وقت پی پی پی کے متوقع چئیرمین نے پاکستان کھپے کے ساتھ ایک اور نعرہ بھی لگایا تھا جس کی ملک کے طول و عرض میں توصیف کی گئی۔وہ دوسرا نعرہ کیا تھا ؟دراصل وہ اس رہنما کی آئندہ کی حکمت عملی تھی۔اسی نقطہ نظر نے انہیں اور پیپلز پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول بنایا۔جمہوریت بہترین انتقام ہے کے نام پر وہ جمہوریت کے لیے اور جمہوریت کے نام پر جو کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے وہ اس دن سے آج کے دن تک اس پر عمل پیرا ہیں۔ اسی جمہوریت سے انتقام لینے کے لیے وہ ایک بزنس ٹائیکون کے ساتھ ق لیگ کے سربراہ سے مسلسل ملاقاتیں کر رہے تھے۔جب یہ بیل منڈھے نہ چڑھی تو گورنر پنجاب نے وزیر اعلٰی پنجاب کو بیک جنبش قلم ڈی نوٹیفائی کر دیا۔ جو کچھ اپنے ہاں آج کل ہو رہا ہے اور جس طرح کے تماشے لگائے جا رہے ہیں یہ سب کچھ جمہوریت کے نام پر ہو رہا ہے۔ جو کچھ بھی کوئی کر رہا ہے اس کا کہنا ہے کہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ایک واقعے پر ہر پارٹی کی آئینی موشگافی دوسری سے الگ ہے۔کیا آئین بنانے والوں نے دانستہ ایسے سقم رکھے تھے کہ ہر کوئی اس سے اپنے مطلب کا معنی نکال لے۔ اس دھینگا مشتی، بیکار بحث لایعنی دلائل سے ایک ہی بات واضح ہوتی ہے کہ جمہوریت بدترین انتقام ہے۔ گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہی کو یہ کہتے ہوئے ڈی نوٹیفائی کر دیا تھا کہ وہ اعتماد کا ووٹ نہ لینے کے باعث صوبائی اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ گورنر کے حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ پنجاب کی کابینہ تحلیل کی جاتی ہے مگر نئے وزیر اعلیٰ کے آنے تک پرویز الہٰی قائم مقام وزیر اعلٰی رہیں گے۔ تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ گورنر کے حکم کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور پرویز الہٰی اور کابینہ بدستور اپنے فرائض سر انجام دیتے رہیں گے۔ ہم تو کارل مارکس کو بہت بڑا فلاسفر سمجھتے رہے اور اس کی محبت میں گرفتار رہے مگر اس کا تصور جمہوریت انتہائی ناقص تھا ۔اس کا کہنا تھاDemocracy is the road to socialism. شاید وہ پاکستان کے معروضی حالات کو بھول گیا تھا یا ملک خداداد کے سیاست دان اس سے بھی بڑے فلاسفر ثابت ہوئے ہیں۔سوشلزم کا سادہ ترین لفظوں میں بہترین ترجمہ سماجی انصاف اور معاشرتی مساوات ہی ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ ہیں جو پچھلے سات ماہ سے مسلسل بیرونی دوروں پر ہیں۔ایک ملک میں جاتے ہیں تو قیام بڑھا دیتے ہیں۔چار دن کا دورہ آٹھ دن کا کر دیتے ہیں۔ان سات ماہ میں ان کی کارکردگی کیا ہے۔ شاید ہی کوئی ملک بچا ہو جہاں وہ نہ گئے ہوں۔مگر اس کا حاصل حصول کیا ہے۔ان کی زبان پر ایک ہی جملہ ہے ۔سیلاب نے ہمیں برباد کر دیا۔ان تین کروڑ لوگوں کا استحصال اس وزیر خارجہ سے زیادہ شاید ہی کسی کے حصے میں آیا ہو۔ اب دوسری طرف دیکھیے سٹینڈرڈ اینڈ پورز ریٹنگ کمپنی نے پاکستان کی معاشی ریٹنگ مائنس بی سے ٹرپل سی کر دی ہے۔یہ عین اس دن ہوا جب گورنر بلیغ الرحمان وزیر اعلٰی کو ڈی نوٹیفائی کر رہے تھے۔اس کمپنی نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ساتھ وجوہات بھی بتا دیں کہ ملک کے زر ِ مبادلہ کے ذخائر تاریخ کی کم ترین سطح پر ہیں۔یہ مشکلات اگلے سال بھی جاری رہ سکتی ہیں۔حکومت پر انتخابات کرانے کا دباؤ ہے اور یہ تا دیر جاری رہ سکتا ہے۔سب کو معلوم ہے کہ برآمدات تو کجا درآمدات کے لیے خزانے میں ناکافی رقم ہے۔ایک ماہ کے درآمدی بل تک محدود ذخائر ہوں تو ریٹنگ تو کم ہونی تھی۔دوسری جانب ان حالات اور صورت احوال کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وہی صاحب حکومت کو گرانے کا بندوبست کر رہے تھے۔ خوراک اور توانائی کے بڑھتے ہوئے نرخ معاشی دباؤ کو اور بڑھا رہے ہیں۔ دنیا کہاں پہنچ چکی ہے اور ہمیں اس اشرافیہ نے کن بحثوں میں الجھا رکھا ہے۔قطر کی مثال ہمارے سامنے ہے، بنگلہ دیش کی مثال سامنے ہے۔مارٹن لوتھر یونیورسٹی جرمنی کی سب سے بڑی اور قدیم یونیورسٹی ہے ۔اس کی مدد سے نیدر لینڈ انسٹی ٹیوٹ نے ایک باغ ِ ریڈیو بنایا ہے جو اصل میں تو ریڈیو گارڈن کے نام سے موسوم ہے( ہم نے اس کا ترجمہ کر دیا ہے)۔یہ ریڈیو کیا ہے ہمارے لیے تو آٹھواں عجوبہ ہے۔ ان ممالک اور عوام کے لیے یہ ایک عام سی شے ہو گی۔پوری دنیا کا نقشہ آپ کے سامنے ہے۔ آپ اس دنیا کے نقشے پر کسی جگہ انگلی رکھ دیں اس ملک کے اس شہر کے ریڈیو سے آپ جڑ جائیں گے۔کسی براعظم کسی ملک کو ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں۔ٹچ کیجیے اور اس ملک سے باخبر ہو جائیے۔اب ذرا اپنے ملک پر نظر ڈالیں سندھ اور وفاق کے ایسے ایسے وزرا کے چہرے سامنے آتے ہیں کہ ان کو دیکھ کر ہی خوف آتا ہے کہ یہ لوگ ہمارے مستقبل کے ضامن ہیں۔ان کے ذہن رسا نے اپنے ملک کی اگلی نسلوں کو ایک خوش حال پاکستان دینے کی ذمہ داری اٹھائی ہوئی ہے۔ لونل میسی کے کل اثاثوں کا اندازہ ایک ارب ڈالر ہے۔ہمارے سیاستدانوں کے اثاثے اس سے کہیں زیادہ ہیں۔نیب نے جن کیسوں کو ختم کیا ہے ان کی کل مالیت اس سے بھی زیادہ ہے۔ پوری دنیا کا اصول ہے کہ کسی کی ویلیو لگانے کا طریقہ یہی ہے کہ اس کے کل اثاثوں سے اس کی کل ادائیگیوں کو منہا کر دیا جاتا ہے۔اب یہاں کل اثاثے ہیں، ان میں ادائیگی تو کسی کے ذمہ نہیں ۔جو واجب الادا رقوم کے الزامات تھے ان کا تو پتّا ہی صاف کر دیا گیا تھا۔ سچ کہتے ہیں جمہوریت عوام کے لیے بدترین انتقام ہے۔ سیاست دانوں کے لیے اس سے زیادہ سودمند اور بہترین انتقام کچھ اور ہو نہیں سکتا۔اسی" دیش بھگتی" نے تو ان کے چہرے بے نقاب کر دیے ہیں۔