تحریک انصاف نے اپنے بانی رکن حامد خان کی رکنیت معطل کردی ہے اور حکم نامے کا انداز بیان بتلاتا ہے کہ بات یہیں تک نہیں رکے گی، اخراج تک جائے گی۔ پارٹی حکم نامے میں حامد خان پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے من گھڑت بیانات دیئے۔ من گھڑت الزامات کی اصطلاح تو سنی تھی، من گھڑت بیانات کا پہلی بار سنا۔ گویا حامد خان کو من گھڑت نہیں کسی اور کے گھڑت بیانات دینے چاہئیں تھے۔ پارٹی نے من گھڑت بیانات کی تفصیل نہیں بتائی کہ آخر ان میں کیا کہا گیا تھا لیکن ظاہر ہے کچھ ایسا کہا گیا ہوگا جو قائد کو پسند نہیں آیا ہوگا۔ ٭٭٭٭٭ ایک زمانہ تھا، قائد حامد خان کو پارٹی کا بہت سرمایہ قرار دیا کرتے تھے۔ حکومت میں آنے کے بعد پرانے اثاثہ جات کی قیمت کم ہونے لگی اور نئے قیمتی اثاثوں نے ان کی قیمت گرا دی۔ حامد خان بھی پرانے اثاثے تھے، ان کا بھائو کچھ زیادہ ہی گر گیا ہوگا۔ معطلی کے بعد اپنے بیانات میں حامد خان نے کہا، میں سرخرو ہوگیا ہوں اور فخر ہے کہ ملک کی تباہی کے کھیل میں حصہ دار نہیں بنا۔ گویا انہوں نے قرار دیا ہے کہ کھلاڑی جو کھیل رہا ہے وہ ملک کی تباہی کا ہے۔ بیان کے علاوہ انہوں نے ایک ٹویٹ بھی جاری کیا ہے جس میں انہوں نے قائد کو کچھ نامعلوم قوتوں کا بغل بچہ قرار دیا ہے۔ حامد خان کے نظریات سے اتفاق یا اختلاف ضروری نہیں لیکن غلطی ہائے گرائمر سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے قائد کو بغل بچہ کہا ہے جوکہ خلاف واقعہ ہے۔ کیونکہ قائد کی عمر ستر برس ہونے میں بس ذرا سی کسر ہی باقی ہے۔ حامد خان نے فرمایا، تحریک انصاف چوروں اور ڈاکوئوں کا گڑھ بن چکی ہے۔ گڑھ کا لفظ بھی بے موقع ہے۔ ’’میلہ‘‘ کہنا چاہیے تھا۔ ٭٭٭٭٭ مولانا فضل الرحمن نے امریکی سفیر کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ثابت ہوگیا پانامہ کیس سی آئی اے کی سازش تھی جس کا مقصد سی پیک کو روکنا تھا۔ امرکی سفیر نے سی پیک کے بارے میں مخالفانہ بیان دیا تھا اور اسے پاکستان کے لیے مضر صحت قرار دیا تھا۔ بیان کا متن دیکھیں تو یہ عین مین وہی ہے جو دھرنوں کے زمانے میں خان صاحب دیا کرتے تھے جس سے بظاہر لگتا ہے کہ امریکی سفیر نے خان صاحب کے فرمودات کو اپنا فرمودہ بنا دیا۔ لیکن بات اس کے برعکس بھی ہوسکتی ہے۔ یعنی خان صاحب کو امریکہ نے کچھ ملفوظات دے۔ خفیہ ہی خفیہ جنہیں خان صاحب نے اپنے فرمودات بنا کر دھرنوں میں پیش کیا۔ اب اتنا عرصہ گزر گیا تو یہ کلاسیفائیڈ ملفوظات امریکی سفیر نے ڈی کلاسی فائی کر دیئے۔ یوں پتہ چل گیا کہ فرمودات دہرانے کی صحیح ترتیب کیا تھی۔ بہرحال، اب خان صاحب یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ سی پیک پاکستان کے لیے مضر صحت نہیں ہے لیکن کیا کیجئے، سی پیک کی اپنی صحت کچھ قابل رشک نہیں رہی۔ وہ ایسا مریض بن چکا ہے کہ چلنے پھرنے کا ذکر ہی کیا، رینگنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ حوصلہ افزا بیانات کے باوجود مریض کی ہمت افزائی نہیں ہورہی۔ پچھلے دنوں وفاقی وزیر اسد عمر نے سی پیک پر ان الزامات کی تردید کی تو خود انہوں نے دھرنوں کے زمانے میں لگائے تھے۔ ویسے مریض اب بظاہر دعائے صحت کا محتاج نہیں رہا۔ ٭٭٭٭٭ دیکھا جائے تو تحریک انصاف کا پرانا موقف درست لگتا ہے کہ سی پیک پاکستان کے لیے تباہی کا نسخہ ہے۔ بعد کے واقعات سے بھی بات سچ ثابت ہوئی، ادھر سی پیک کی شروعات ہوئی، ادھر پاکستان پر نزول آفات کا آغاز ہوا۔ ایک کے بعد بعد آفت یہاں تک کہ پی ٹی آئی کی حکومت نازل ہوئی۔ دسیوں لاکھ بیروزگار ہوئے، ترقی کا پہیہ الٹا دوڑنے لگا، کارخانے بند، مہنگائی دوچند بلکہ چار چند۔ یہ سب بلائیں سی پیک کے بعد ہی آئیں۔ پتہ نہیں تحریک انصاف نے اپنے پرانے حق سچ والے موقف کو بدل کر سی پیک کی ناحق تعریفیں کیوں شروع کردیں۔ شاید زمینی حقائق کی مجبوری تھی لیکن اب زمین رہی ہی کہاں۔ ٭٭٭٭٭ خبر ہے کہ ریونیو کی وصولی کا ہدف کم کرنے کے باوجود پورا نہیں ہو سکا اور اس کم کئے گئے ہدف سے بھی 47 ارب روپے کم وصول ہوئے۔ کیا کیا نسخے استعمال کئے گئے۔ ٹیکس در ٹیکس لگائے گئے، شرح بڑھائی گئی۔ یہاں تک کہ دال کا بھائو قیمے سے بڑھ گیا، ٹریفک قانون والے جرمانے بھی کئی گنا بڑھا دیئے گئے۔ ٹماٹر تین سو روپے کر کے بھی دیکھ لیا۔ اوپر ایماندار ہوں تو ٹیکس وصولی بڑھتی ہے والا فارمولا بھی الٹا پڑا۔ کل ملا کر حاصل وصول یہ ہوا کہ غریب قوم کی غربت اور بڑھ گئی۔ جتنے بھی بیڑے دستیاب تھے سبھی غرق ہوئے۔ خود تبدیلی لانے والے حیران کھڑے ہیں۔