اسلام آباد(خبرنگار)صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر کی آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی ہے کہ جج شیشے کے گھر میں رہتا ہے ، جج بھی قابل احتساب ہے ۔منگل کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ بینچ نے مقدمے کی سماعت کی ۔دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے ریمار کس دیئے اگر شکایت کو نہیں سنا جاتا تو پھر شکایت کنندہ کہہ سکتا ہے کہ یہ ان کی حق تلفی ہے ۔ سندھ ہائی کورٹ اور کراچی بار ایسوسی ایشن کے وکیل رشید رضوی نے اپنے دلائل مکمل کر تے ہوئے موقف اپنایا کہ عدلیہ کی آزادی جج کی مدت ملازمت سے مشروط ہے ،جج کی مدت ملازمت کا تحفظ نہ ہو تو وہ حلف پر عمل نہیں کر سکے گا، دنیا بھر میں ججز کو عہدے سے ہٹانا مشکل ترین عمل ہے لیکن پاکستان میں ججز کو ہٹانا سب سے آسان ہے ۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا آپ آئین پر تنقید کر رہے ہیں؟ ججز کو برطرف کرنے کا طریقہ آئین میں واضح ہے ،سپریم جوڈیشل کونسل موجودہ کیس میں بھی قانون کے مطابق کام کر رہی ہے ، نظام پر تنقید کے بجائے اپنے کیس پر دلائل دیں، کسی جگہ تو ریڈ لائن کھینچنی پڑے گی،موبائل فون سب سے بڑا جاسوس ہے ٹیکنالوجی نے ہر چیز کو بدل دیا ہے ۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا جج سمیت کوئی شخص احتساب سے بالاتر نہیں،جج کے خلاف اقدام آئین و قانون کے مطابق ہونا چاہیے ۔ رشید اے رضوی نے کہا3 نومبر 2007 کو وہی ہوا جو 12 مئی 2007 کو ہوا،یہ 12 مئی کا جھگڑا ہے لوگ اپنا اسکور سیٹ کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا جب آئین سے ہٹیں گے تو ایسا ہی ہوگا۔ رشید اے رضوی کے بعد پاکستان بار کونسل کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل شروع کئے سلمان اکرم راجہ کا کہناتھا ایسٹ ریکوری یونٹ نے جج کو حاصل تحفظ کی خلاف ورزی کرکے مواد حاصل کیا،فیڈرل گورنمنٹ رولز کے تحت ایسٹ ریکوری یونٹ کو ایسا اختیار نہیں تھا،صدر مملکت سے اجازت لیے بغیر اے آر یو مواد اکھٹا نہیں کرسکتا تھا،پارلیمنٹ کو معاملہ پر قانون سازی کرنی چاہیے ،جج کا بھی ڈیو پراسس پر اتنا ہی حق ہے جتنا ایک عام شہری کا ہے ، یہ معاملہ عدلیہ کے وقار کا ہے ۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہایہ معاملہ ٹیکس کا نہیں مس کنڈکٹ کا ہے ، سپریم جوڈیشل کونسل ذرائع آمدن کو دیکھ رہی ہے ۔ کیس کی مزید سماعت آج بدھ تک ملتوی کردی گئی۔