کالعدم جماعت الدعوہ کے امیر حافظ سعید کو ایک اور مقدمے میں ساڑھے دس سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔ ان پر یہ مقدمہ انسداد دہشت گردی کے محکمے سی ٹی ڈی نے درج کئے تھے‘ حافظ سعید کے علاوہ ‘ جماعت الدعوہ کے دیگر رہنمائوں یحییٰ مجاہد‘ پروفیسر ظفر اقبال ،حافظ عبدالسلام کو بھی اسی نوعیت کے مقدمات میں سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ان رہنمائوں کو ممبئی میں دہشت گردی کے واقعات سے بھی جوڑا جاتا رہا ہے۔ حافظ سعید اور جماعت الدعوہ کچھ ہی عرصہ پہلے تک ریاستی اثاثہ مانا جاتا رہا ہے۔ ایک وزیر نے زیادہ دن نہیں ہوئے جب کہا تھا کہ حافظ سعید اس قابل ہیں کہ قوم ان کے پائوں دھو دھو کر پیئے۔حکمران جماعت کے ایک وزیر نے جو خدا کو جان دینے کے لئے مشہور ہیں‘ ایک ملاقات میں جماعت کے وفد کو یقین دلایا تھا کہ جب تک ہم موجود ہیں۔ کوئی مائی کا لال آپ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔ نواز شریف کے دور میں جماعت کے رہنمائوں پر ایک مقدمہ درج ہوا تھا، جس پر ان گنت قلمکاروں نے حکومت کو سنگین غداری اور بھارت سے یاری کا مرتکب قرار دیا تھا۔ ریاست کی پالیسی کبھی غلط نہیں ہوتی۔ صرف غلط کار لوگ ہی اسے غلط سمجھ سکتے ہیں اور اسے غلط کہنے کی جرأت تو کوئی ناعاقبت اندیش اور اپنے انجام سے بے پروا شخص ہی قرار دے سکتا ہے۔ چنانچہ یہ تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ریاست کی پالیسی درست ہے اور اگر کوئی کہے کہ پھر ماضی کی ریاستی پالیسی کیا تھی تو اسے سمجھانا چاہیے کہ وہ بھی درست تھی۔ بالکل آسان جواب ہے۔ البتہ یہ سوال ذرا ٹیڑھا ہے کہ ریاست کی پالیسی ٹھیک ہے یا ٹھیک ہو گئی ہے تو ڈان لیکس کے باب کو ازسرنو لکھا جائے گا یا نہیں؟۔ جو پالیسی آج ڈنکے کی چوٹ پر ٹھیک ہے‘ اسی کو ڈرتے ڈرتے نواز حکومت نے ‘ ذرا نرم لہجے میں نواز حکومت نے بھی اپنانے کی کوشش کی تھی بلکہ اپنانے کی التجا کی تھی لیکن اس کے جواب میں ڈان لیکس ہو گیا اور سارا وطن ایک ڈیڑھ سال کے لئے غدار غدار کے نعروں سے گونجتا رہا۔ شاید کوئی جرأت کرے اور مان لے کہ نواز حکومت کی التجا درست تھی۔ اس نے جماعت الدعوہ کو کالعدم قرار دینے‘ اس کے رہنمائوں کو طویل مدت کے لئے حوالہ زنداں کرنے اور ان کی جائیدادیں ضبط کرنے کی بات نہیں کی تھی‘ محض یہ کہا تھا کہ ان کی سرگرمیاں روک دی جائیں۔ ٭٭٭٭ کالعدم جماعت الدعوہ سے پہلے لشکر طیبہ نام کی تنظیم تھی جو مقبوضہ کشمیر میں علانیہ جہاد کرتی تھی اور اس سے بھی پہلے جماعت اسلامی کی حزب المجاہدین تھی اور ان کے ساتھ کئی جہادی تنظیمیں تھیں مثلاً جیش محمد‘ حرکت الانصار اور کچھ وہ جن کے نام بھی کسی کو یاد نہیں۔ کشمیر میں جہاد کا آغاز جنرل ضیاء الحق نے کیا تھا اور آنے والے عشروں میں حکومتیں اس کی سرپرستی کرتی رہیں۔اب تو بہت پرانی بات ہو گئی اور تب ہم جیسے لوگ بھی سمجھتے تھے کہ کشمیر بزور شمشیر کی پالیسی درست ہے۔ البتہ جو بات ہم نہ سمجھ سکے وہ یہ تھی کہ شمشیر ریاستی ہونی چاہیے‘ غیر ریاستی نہیں‘ یعنی ان لوگوں کی نہیں جن کو بعدازاں ریاست نے ہی نان سٹیٹ ایکٹرز قرار دیا۔ اس وقت بہت کم لوگ ایسے تھے جو اس پالیسی کے خلاف تھے اور ہم جیسے محب وطن انہیں غدار یا کم از کم غداری سے متاثر سمجھتے تھے۔ یہ لوگ تعداد میں بہت کم تھے اور ان کی بات نگار خانے میں طوطی کی آواز سے بھی کمزور تھی۔ چنانچہ کسی نے نہیں سنی۔ ٭٭٭٭ عشرے گزر گئے اور تصویر سب کے سامنے ہے سود زیاں کے ساری میزان سمیت۔ مقبوضہ کشمیر پر بھارت نے اپنی گرفت سخت ترین کر لی یہاں تک کہ واشنگٹن مفاہمت کے تحت اب وہ اس کا بلا شرکت غیرے مالک ہے۔ ایک لاکھ دس ہزار کشمیری نوجوان مارے جا چکے کئی لاکھ زخمی اور معذور ہیں بے شمار قید۔ دنیا نے ان کی طرف سے آنکھیں تو کارگل کے بعد ہی بند کر لی تھیں۔ اب کوئی اسے تنازعہ ماننے کو بھی تیار نہیں۔ ہماری طرف سے لال قلعہ فتح کرنے کے اعلان نے بی جے پی کو سنہری موقع دیا اور آر ایس ایس کی سوچ جو ایک موثر لیکن محدود طبقے تک مقبول تھی‘ کم و بیش آدھے سے زیادہ بھارت کی سوچ بن گئی۔ کشمیریوں کو کچھ فائدہ ہوا نہ پاکستان کو۔ البتہ اشرافیہ کی تجوریاں بھر گئیں ۔ ہم نے خاص سیاسی مقاصد کے لیے احادیث رسول ﷺکو استعمال کرنے کی جسارت بھی کی۔ ایک سرخ ٹوپی والے دانشور سمیت متعدد تجزیہ و کالم نگار حضرات غزوہ ہند کی روایات بیان کرتے اور نواز شریف کو اس کے برپا ہونے کے راستے میں رکاوٹ بتاتے رہے۔ ٭٭٭٭ وحیدالدین خان کی بات سب سے پہلے حزب المجاہدین کے صلاح الدین سمجھے اور خود کو جہاد سے دستبردار کردیا۔ باقی لوگ بعد میں اور سب سے آخر میں کالعدم جماعت الدعوۃ کے لوگ سمجھے، جب ان سے آپریشن گیٹ نوازشریف میں خاص کردار ادا کرنے کو کہا گیا اور قائل کرنے پر ’’نتائج‘‘ سے خبردار کیا گیا۔ جماعت کے لوگوں نے تعاون کیا‘ نتائج پھر بھی ’’برآمد‘‘ ہو کر رہے۔ اب اس تنظیم کا شیرازہ بکھر چکا ہے‘ اس کے تمام رفاعی ادارے ضبط ہو کر وجود بے وجود برابر کر چکے ہیں‘ اس کی املاک اور اثاثے ضبط ہو چکے ہیں۔ ریاستی اثاثوں میں بھی فرق ہوتا ہے۔ ہر اثاثہ رائو انوار اور عزیر بلوچ کی طرح ناک کا بال نہیں ہوتا‘ کچھ تاریخ برد بھی کردیئے جاتے ہیں۔ آخری باب کی آخری سطر مودی کے چہرے پر مسکراہٹ بن کر ناچ رہی ہے۔