مولانا غلام رسول مہر نے اپنی سوانح حیات میں قیام پاکستان سے قبل تحریک آزادی میں کانگریسی قیادت اور انتہا پسند ہندو اکثریت کی ذہنیت کی تصویر کشی کی ہے جو ان دانشوروں ‘ تجزیہ کاروں اور سیاستدانوں کے لئے مشعل راہ ہے جو آج بھی نظریہ پاکستان کی حقانیت کے منکر اور بھارت کی محبت میں مبتلا ہیں‘مہر صاحب لکھتے ہیں۔ میں نے جب صحافت شروع کی تو تحریک عدم تعاون اور ترک موالات عروج پر تھے۔ میں نے ان تحریکوں میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ میں نے صحافت میں ابتدا ہی سے مسائل سلجھا کر پیش کرنے کی طرح ڈالی۔ یہ حقیقت بھی ابتدا ہی سے ذہن نشین تھی کہ انگریزوں کے خلاف کوئی تحریک اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک ہندوستانی اقوام متحد ہو کرجدوجہد نہ کریں گی۔ مسلمانوں کی حیثیت دگرگوں تھی اور ان کے مسائل کا کوئی پائیدار حل اس وقت نہ تھا۔ ہندوستان کی آزادی اس لئے ضروری تھی کہ دنیا میں برطانوی استعمار کمزور ہوا اور مسلم ممالک کی آزادی کی راہ ہموار ہوئی۔ اس بنا پر ترک موالات میں نے بطور عقیدہ اختیار کیا‘ نہ کہ بر بنائے مصلحت‘ اور اس کے لئے نہایت اخلاص سے کام کیا تھا۔ تھوڑے ہی عرصے میں مجھ پر آشکارا ہوا کہ پنجاب کے ہندو دل سے مسلمانوں کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ تھے۔ یہ امر میرے لئے اس اعتبار سے حیرت انگیز تھا کہ تحریک آزادی میں ہندو بظاہر پیش پیش نظر آتے تھے۔ کچھ عرصے بعد یہ ظاہر ہواکہ ہندو اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے آزادی کے خواہاں تھے بلکہ بیشتر ہندو کامل آزادی کے خواہش مند نہ تھے۔ وہ ایسی آزادی چاہتے تھے جس میں سیاسی‘ اقتصادی اور معاشرتی اختیار ان کے ہاتھ میں ہو اور وہ انگریزوں کے ساتھ شریک اقتدار ہوں۔ انہیں اپنے لئے ممکنہ اختیارات رکھتے ہوئے انگریزی راج بھی قبول تھا۔ ہزار سال کی غلامی اور محرومی نے ہندو سائیکی پر خوشگوار اثرات مرتب نہ کئے تھے۔ اخبار نویسی کے دائرے میں رہتے ہوئے میرے لئے یہ نہایت تلخ اور حوصلہ شکن تجربات تھے لیکن میں اس صورت حال سے ناامید نہ تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ متحدہ جدوجہد سے حالات بہتر ہو جائیں گے لیکن افسوس یہ آرزو پوری نہ ہوئی۔ میں ہندوستانی اقوام کے اتحاد کے لئے کوشاں رہا تاکہ انگریزوں کے خلاف تحریک ضعیف نہ ہو۔ عدم تعاون کی تحریک کو تقویت دینا اسلامی ممالک کے لئے بھی سود مند تھا۔ ترکی میں مصطفی کمال اپنے رفقا کے ساتھ مل کر استخلاص وطن کے لئے کام کرتے رہے۔ ہم ہندوستان سے چندے کی فراہمی ‘ ان کی حمایت‘کمال کے رفقا کی مدح سرائی اور مخالفین کی مذمت کرتے رہے۔ اس نے مصطفی کمال کی جدوجہد میں برکت دی اور تھوڑے ہی عرصے میں ابتدائی مشکلات کے باوجود ان کی فتوحات کا سلسلہ جاری ہوا۔ ترکوں کی کامیابی دیکھتے ہوئے دیگر اقوام کو بھی معاونت کا حوصلہ ہوا۔ مثلاً جمہوریہ شورائیہ روس نے مالی مدد کی اور جنگی ہتھیاروں کا انتظام کیا۔ فرانس نے ترکوں سے صلح کر لی اور اناطولیہ میں حاصل شدہ خاص حقوق سے دستبردار ہو گئے۔ اطالویوں نے بھی ان کی پیروی کی اور ترکی علاقے خالی کر دیے۔ صرف یونانی میدان جنگ میں تھے اور ان کی پشت پناہی انگلستان کر رہا تھا۔ مصطفی کمال کے عساکر نے سقاریا کے کنارے انہیں شکست فاش سے دوچار کیا اور وہاں سے جو انہوں نے پسپائی اختیار کی تو سمرنا تک کہیں نہ ٹھہرے۔ راستے میں اسلامی آبادیوں پر مظالم میں کسر نہ اٹھا رکھی۔ ترکی افواج ان کے تعاقب میں تھی اور انہیں اناطولیہ میں کہیں ٹکنے نہ دیا۔ بھگوڑی فوج بحری جہازوں میں بھی ڈھنگ سے سوار نہ ہو سکی اور ہزاروں سپاہی سمندر میں ڈوب مرے۔ وزیر اعظم برطانیہ لائڈ جارج نے اتحادیوں سے اپیل کی کہ وہ یونانیوں کی امداد کریں۔ یہ طاقتیں عالمی جنگ سے نڈھال ہو چکی تھیں اس لئے انہوں نے صاف جواب دیا۔ ان سے مایوس ہونے کے بعد لائڈ جارج نے امریکہ سے مدد کی اپیل کی تو یہاں سے بھی انکار ہوا۔ اس پر اس فتنہ جَو نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ نئی حکومت نے ترکوں سے صلح کرنا مناسب جانا۔ چنانچہ لوزان کانفرنس میں ترکوں کے مطالبات مان لئے گئے۔ ترکوں کی فتوحات پر ہندوستانی مسلمانوں نے بے حد خوشیاں منائیں۔ دیگر اسلامی ممالک میں بھی حیات نو کے آثار نمایاں ہوئے۔ ان حالات نے ہندوئوں پر یہ اثر ڈالا کہ وہ مسلمانوں سے علیحدگی پر زور دینے لگے۔ لاہور میں ترکوں کی فتوحات پر پرجوش جشن منایا گیا۔ جلوس میں مختلف اقوام کے رضا کار جیوش کی شکل میں شہر میں پھرے۔ میں اس جلوس میں شامل تھا۔ سکھوں نے بھرپورجوش و خروش سے جلوس میں حصہ لیا لیکن ہندوئوں کی تعداد بہت کم تھی۔ تحریک عدم تعاون اور ترک موالات کے دوران اتحاد کی جو خوش گوار امیدیں دلوں میں فروزاں ہوئیں وہ ایک ایک کر کے شکستہ ہوتی گئیں۔ ہندوئوں اور مسلمانوں میں افتراق کے اسباب بہت عجیب تھے۔ مثلا مسلمانوں نے جلوس نکالا اور کہیں پیپل کے درخت کی شاخ کاٹ دی۔ہندوئوں نے مخالفت کی اور پیپل کو مقدس درخت قرار دیا اور اس پر فساد ہو گیا۔ یا کہیں پر مسجد میں نماز کے دوران ہندوئوں کا جلوس باجا بجانے پر مصر رہا اور دونوں فرقوں میں تصادم کی راہ ہموار ہوئی۔ ان حوصلہ فرسا حالات میں بھی مجھے یقین تھا کہ انگریزوں کی مخالفت کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے دونوں قوموں کا اتحاد ضروری تھا اور ہندوستان کی آزادی دیگر مسلم ممالک کے لئے بھی تقویت کا موجب بنے گی۔ میں نے مسلمانوں کے مسائل کا غائر مطالعہ شروع کیا اور ان کا حل تلاش کرنا چاہا۔ اس زمانے میں مجھے سیاسیات سے زیادہ واقفیت نہ تھی۔ اخبار نویسی اختیار کیے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے۔ یہ امر مرے لئے بہت رنج دہ تھا لیکن میں فرقہ وارانہ اتحاد کے لئے کام کرتا رہا۔1925ء میں سوامی شردھانند نے ملکانہ راجپوتوں میں شدھی کی مہم شروع کی۔ ملکانہ راجپوت آگرہ کے گردو نواح میں رہتے تھے اور سو سال پیشتر مسلمان ہوئے تھے لیکن ان میں اسلامیت کے عام اوصاف زیادہ نہ تھے اور کچھ مشرکانہ رسوم و رواج باقی تھے۔ شدھی کی مہم سے مسلمانوں اور ہندوئوں میں افتراق و کشمکش میں اضافہ ہوا۔ ان دونوں اقوام میں سمجھوتے کے لئے جو گفتگوئیں ہوئیں وہ بھی اکارت گئیں۔ اصل سمجھوتے کا مدعا میرے نزدیک یہ تھا کہ مسلم اکثریتی صوبوں مثلاً بنگال‘ پنجاب میں قانون ساز مجالس میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے اکثریت حاصل ہو۔ہندو لیڈروں ‘ جن میں ممتاز کانگریسی زعما شامل تھے‘ نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ سمجھوتے کی گفتگو کے دوران ضمنی مسائل چھیڑ دیتے اور اصل مسئلہ کو ٹالنے کی کوشش کرتے۔ ان معمولی یا ضمنی مسائل کی حیثیت فروعی نوعیت کی ہوتی، مثلاً ذبح بقر کا مسئلہ یا اسی نوعیت کے جھگڑے جن سے مقصود سمجھوتے کا معاملہ معطل کرنا ہوتا۔ ان حالات میں مجھ میں یہ احساس بیدار ہوا کہ جب تک ہندوستان کے تمام حصوں کے مسلمانوں کے جائز حقوق موثر طور پر محفوظ نہ ہو جائیں۔ معاملہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔