معزز قارئین! ’’ مولائے کائنات‘‘ حضرت علی مرتضی ؑ کے یوم ولادت اور یوم شہادت پر مَیں نے بہت کچھ لِکھا ہے ۔ آج آپ ؑ کا یوم شہادت ہے۔بلا تمہید عرض کرتا ہُوںکہ ’’25 فروری 1969ء کو اللہ تعالیٰ نے مجھے فرزندِ اوّل عطا فرمایا ۔ مَیں نے اپنے والد صاحب ’’ تحریک پاکستان‘‘ کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان کی فرمائش پر اُس کا نام ۔ ذوالفقار علی چوہان رکھا۔ ’’ذوالفقار ‘‘۔ اُس دو دھاری تلوار کا نام تھا جو پیغمبر انقلابؐ  کو غزوۂ بدر میں مالِ غنیمت کے طور پر ملی ۔ حضور پُر نُور ؐ نے ۔ ذوالفقارؔ ۔ مولا علی ؑ کوعطا کردِی تھی تو، اُس کا نام ’’ ذوالفقار علی ؑ ‘‘ پڑ گیا۔ مَیں نے جمہوریہ تُرکیہ کے شہر استنبول کے ’’طوپ کاپی میوزیم‘‘ میں نبی کریم صلی اللہ علی و آلہ وسلم اور خلفائے راشدینؓ کے تبرکات کے علاوہ ۔ ’’ذوالفقار علی ؑ‘‘ کی دو بار زیارت کی۔ پہلی بار اپنے دو مرحوم صحافی دوستوں انتظار حسین اور سعادت خیالی کے ساتھ اور دوسری بار جب مَیں ستمبر 1991ء میں صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ دورہ جمہوریہ تُرکیہ میں اُن کی میڈیا ٹیم کا رُکن تھا۔ 

میرے آبائو اجداد کا تعلق بھارت کے صوبہ راجستھان کے شہر اجمیر ؔ سے تھا۔ جنہوں نے سُلطان اُلہند ، خواجہ غریب نواز حضرت مُعین اُلدّین چشتیؒ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کِیا تھا۔ مجھے لڑکپن سے ہی خواجہ غریب نوازؒ سے عقیدت کا سبق پڑھایا گیا۔ 1981ء میں میرے خواب میں ، حضرت خواجہ غریب نواز ؒ ایک لمحہ کے لئے ، لاہور میں میرے گھر رونق افروز ہُوئے۔ آپؒ نے میری طرف مُسکرا کر دیکھا۔ مَیں لیٹا ہُوا تھا اور جب مَیں نے اُٹھ کراُن کی خدمت میں سلام عرض کِیا تو، میری آنکھ کُھل گئی۔ مَیں پلنگ پر اُسی حالت میں تھا جس حالت میں، مَیں نے حضرت خواجہ صاحبؒ کو سلام پیش کِیا تھا۔ میرا بیڈ روم ایک ملکوتی خُوشبو سے مہک رہا تھا۔ 

سردی کا موسم تھا لیکن، مَیں پسینہ پسینہ ہوگیا ۔ مَیں نے اپنی اہلیۂ (مرحومہ )نجمہ کو جگایا اور اُن سے پانی مانگا ۔ اُنہوں نے مجھے پانی دِیا اور پوچھا کہ ’’ کیا آپ نے بیڈ روم میں کسی خُوشبو کا "Spray" کِیا ہے ؟‘‘۔ مَیں نے اُنہیں حضرت خواجہ صاحب کی آمد سے متعلق بتایا تو، وہ خُوشی سے نہال ہوگئیں ۔ پھر خواجہ صاحب کی برکت سے ، میرے لئے مختلف صدور و وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے کئی غیر ملکی دوروں کے دروازے کُھل گئے۔ ستمبر 1983ء میں مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ’’ مَیں اور 1961ء سے میرے سرگودھوی دوست سیّد علی جعفر زیدی کہیں پیدل جا رہے ہیں کہ ’’ راستے میں ایک خشک دریا آگیا۔ زیدی صاحب نے مجھ سے کہا کہ ’’میرا اور آپ کا یہی تک کا ساتھ تھا‘‘ ۔ مَیں نے خشک دریا پر قدم رکھا ۔ مٹی گیلی تھی ۔ پھر پتہ چلا کہ ’’یہ تو دلدل ہے ؟‘‘ ۔ مَیں گھبرا گیا ، میرا جسم دلدل میں دھنس رہا تھا کہ اچانک ، میرے مُنہ سے ’’یاعلی ؑ !‘‘ کا نعرہ بلند ہُوا ۔ مجھے محسوس ہوا کہ کسی "Crane" نے مجھے دلدل سے نکال کر دوسرے کنارے پر اُتار دِیا۔ مجھے کسی غیبی آواز نے کہا کہ ’’ تُم پر مولا علی ؑ کا سایہ شفقت ہے !‘‘ برطانوی لیبر پارٹی کے اہم رُکن سیّد علی جعفر زیدی ، 1983ء سے اپنے اہل و عیال سمیت لندن میں کامیاب زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ 

معزز قارئین !۔ مَیں نے راجپوتوں کی تاریخ پڑھنے کے شوق میں 1980ء سے ہندی زبان سِیکھنا شروع کی ( ابھی تک سیکھ رہا ہُوں) ۔بھارت کے صوبہ ہریانہ کے قدیم شہر ’’ کورو کشیتر‘‘ میں ہزاروں سال پہلے ایک ہی داد کی اولاد کوروئوں اور پانڈووئوں میں جنگِ عظیم ہُوئی جِس کا نام ہے ’’ مہا بھارت‘‘ ۔دورانِ جنگ ’’ وِشنو دیوتا‘‘ کے اوتار شری کرشن جیؔ نے پانڈو ہیرو ارجنؔ کو جو اُپدیشؔ ( خُطبہ ) دِیا وہ ، مُقدّس کتاب ’’گیتا ‘‘ کہلائی ۔ ارجنؔ ۔ شری کرشن جی ؔکا ۔ پھوپھی زاد ، اُن کی بہن سُبھادرا ؔ کا خاوند، اور شاگرد تھا ۔ شری کرشن جیؔ نے اپنے اُپدیش ؔمیں ارجن کے لئے ’’ ستِھتّ پرتگیہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ 

بہت زیادہ عالم و فاضل اور بہت زیادہ بہادر اور جنگ جُو شخص کو ’’ ستِھتّ پرتگیہ‘ ‘ کہا جاتا ہے ۔ سرکارِ دو عالمؐ کے چچا زاد ، داماد اور شاگرد ’’ باب اُلعلم‘‘ اور ’’ اسد اللہ ‘‘ ( اللہ تعالیٰ کے شیر ) کہلانے والے مولا علی ؑ جیسا ’’ ستِھتّ پرتگیہ‘ ‘ تاریخِ اسلام میں اور کون ہے؟۔ مولا علی ؑ تمام غزوات میں آنحضرتؐ کے ہم رکاب رہے ۔ آپ ؑ کے خُطبات کا انتخاب ’’ نہج اُلبلاغہ‘‘ کا ترجمہ دُنیا کی کئی زبانوں میں ہو چکا ہے ۔ مولا علی ؑ ؑ سے کسی نے پوچھا کہ ’’ آپ ؑبے خطر جنگ میں کود پڑتے ہیں ۔ کیا آپ ؑکو ڈر نہیں لگتا؟۔ تو آپؑ نے کہا کہ ’’ موت علی ؑ پر گِر پڑے یا علی ؑ موت پر ، ایک ہی بات ہے لیکن ، فرزند ابو طالبؓ  موت سے ہر گز بھاگنے والا نہیں ! ‘‘ ۔

مَیں 1956ء میں سرگودھا میں دسویں جماعت میں تھا جب ، میرے والد صاحب مجھے میلاد شریف کی محفلوں میں لے جاتے تھے ۔ اُسی سال مَیں نے اپنی پہلی نعت لِکھی ۔اُس کے بعد مَیں نے کئی نعتیں ، اہل بیت ؑ اور اولیائے کرامؒ کی منقبتیں لکھیں ۔ 2011ء میں مَیں نے ’’ جے کربل وِچّ مَیں وِی ہوندا‘‘کے عنوان سے امام حُسین ؑ کے حضور ہدیہ عقیدت پیش کِیا ۔ یکم اکتوبر 2017ء کے روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ کو میرے کالم میں اُس منقبت کے یہ دو بند شائع ہُوئے  … 

تیرے ، غُلاماں نال ، کھلوندا !

پنج ستّ وَیری ، ماردا ، کوہندا!

فیر مَیں ، مَوت دی ، نِیندر  سوندا!

جے کَربَل وِچّ ، مَیں وی ہوندا!

…O…

نذرانہ دیندا ، جان تَے تن دا!

غازی عباسؑ دا ، بازُو بَن دا!

حُر دے ، سجّے ہتّھ ، کھلوندا!

جے کَربَل وِچّ ، مَیں وی ہوندا!

…O…

تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ کے سربراہ آغا سیّد حامد علی شاہ موسوی نے میرا کالم پڑھا تو، اُن کے ایک نائب ،انجینئر اور کئی کتابوں کے مصنف سیّد عباس کاظمی نے مجھے آغا جی کا پیغام پہنچایا کہ ’’ آغا جی نے اپنے تمام رُفقاء کو یہ پیغام / فرمان پہنچا دِیا ہے کہ ’’ آج سے اثر چوہان صاحب کو ’’ حُسینی راجپوت‘‘ کہا جائے !‘‘ ۔ معزز قارئین! مجھے آغا حامد علی شاہ موسوی اِس لئے پسندہیں کہ وہ دعوت کے باوجود ، پاکستان کے کسی صدر یا وزیراعظم سے ملنے کے لئے تشریف نہیں لے گئے۔ مولا علی ؑ کا نام ۔ میرے پانچوں بیٹوں اور میرے پانچوں پوتوں کے ناموں میں شامل ہے ۔ میرے ایک نواسے کا نام ہے ’’ علی امام‘‘ ۔ مَیں نے ستمبر 2005ء میں اپنے جدّی پشتی پِیرو مُرشد حضرت خواجہ معین اُلدّین چشتیؒ کے دربار میں حاضری دِی۔ پھر مَیں نے حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کی منقبت لِکھی ، وہ کسی اور وقت کے لئے محفوظ رکھتا ہُوں لیکن آج مَیں 2007ء میں لکھی گئی مولا علی ؑکی منقبت کا مطلع اور تین شعر پیش خدمت ہیں  …

تم کو مِلی ہے ، بزمِ طریقت میں ، صندلی!

دیکھا نہ آسمان نے، تُم سا مہا ؔبلی !

…O…

تُم نائب ِ رسولؐ ہو اور رُکن پنجتن ؑ !

تُم سے مہک رہی ہے ، گُلِستاں کی ہر کلی!

…O…

مولائے کائنات ہو، مُشکل کُشا بھی ہو!

خیبر شِکن ضرور ہو، پر دِل ہے مخملی !

…O…

ہو باب ِ علم، عِلم میں ،عالی مقام ہو!

روشن تمہارے نُور سے ، ہر شہر ہر گلی!

…O…

بعد ازاں 2011ء میں میری پنجابی منقبت کا مطلع اور دو بند یوں ہیں …

نبی ؐ آکھیا سی ، وَلیاں دا وَلی مولا

جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؑ مولا

…O…

لوکھی آکھدے نیں ، شیر تَینوں یَزداں دا

سارے نعریاں توں وڈّا، نعرہ تیرے ناں دا

تیرے جیہا نئیں کوئی ، مہابلی مولاؑ

جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علیؑ مولا

…O…

سارے وَلیِاں دے ، بُلھاں اُتّے سَجدی اے

من موہ لَیندی ، جدوں وَجدی اے

تیری حِکمتاں دی وَنجھلی مولاؑ

جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علیؑ مولا