بیسوں سپر ہیرو کرداروں کا خالق سٹین لی‘ پچانوے برس کی عمر میں چل بسا۔ مگر اپنے پیچھے سپر ہیرو کلچر کی ایک پوری داستان چھوڑ گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارے بچے اور نوجوان سٹین لی کو نہ جانتے ہوں مگر وہ اس کے تخلیق کردہ کرداروں کو خوب جانتے ہیں۔ جاننا تو شاید ایک چھوٹا لفظ ہے سٹین لی کے تخلیق کردہ کردار بچوں کی نفسیات پر حاوی ہو جاتے ہیں وہ خود انہی کرداروں میں ڈھلا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔کیسے کیسے خیالی مگر طاقتور اور پر اثر دیو مالائی کردار سٹین لی کے ذرخیز اور تصوراتی ذہن سے نکلے۔ سپائیڈر مین‘ انکریڈیبل ‘ ہلک تھور‘ ایکس مین وینمٔ گرین لینٹرن‘ کیپٹن امریکہ‘ ڈاکٹر ڈوم‘ ڈاکٹر آکٹوپس‘ ڈاکٹر سٹرینج‘ آئرن مین۔ یہ صرف چند مشہور ترین سپر ہیروز کے نام ہیں۔ میں نے کہا نا کہ اس لیجنڈ نے بیسوں کردار تخلیق کئے۔ سپر و ہیروز کے ساتھ ساتھ ولن۔ کی بھی ایک پوری رینج ہے۔ دیو مالائی طاقت کے حامل ان کرداروں میں میری ذاتی دلچسپی تو کم ہے کیونکہ ان پر بننے والی فلمیں حقیقت سے بالکل دور ایک تصوراتی دنیا کو پیش کر کے بنائی جاتی ہیں۔ میری دلچسپی ان کرداروں میں یہ ہے کہ یہ کردار ہمارے گھر میں گھر کے افراد سے زیادہ تعداد میں موجود ہیں۔ ان کرداروں کے کھلونے گھر کے ہر کمرے میں موجود ہیں۔ کیونکہ یہ ہمارے صاحبزادے محمد دانیال کا ایک کریز ہیں اسے ان تمام سپر ہیروز کے ولن۔ ان کے اگلی پچھلی نسلوں اور آبائو اجداد کے ناموں کا پتہ ہے۔ عجیب مشکل مشکل نام اس کو یاد ہیں۔ اس کے سکول لنچ باکس‘ جیومیٹری ‘ پنسلوں‘ ربڑ اور شاپنر سے لے کر اس کی ٹی شرٹس۔ پینٹس ٹرائوزر‘ سٹڈی ٹیبل پر بھی ہمیں سٹین لی کے کردار براجمان دکھائی دیتے ہیں۔ سچ پوچھیں ہم سے زیادہ گھر میں سپائیڈر مین کیپٹن امریکہ اور اسی نوع کے دوسرے کرداروں کا قبضہ ہے۔ آغاز میں میں نے کوشش کی اپنی دھرتی اور تاریخ و ثقافت کے کرداروں سے بچے کو متعارف کروائو مثلاً میں اسے ٹیپو سلطان کی بہادری کے بارے میں بتایا۔ اس نے بڑی دلچسپی سے سنا مگر سوال کیا ٹیپو سلطان کی کوئی ویڈیو گیم یا کارٹون ہیں۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ یا پھر مجھے ٹیپو سلطان کا کاسٹیوم لے دیں۔ اب ان سوالوں کے میرے پاس کوئی جواب نہیں تھے۔ صوفی تبسم کے تخلیق کردہ ٹوٹ بٹوٹ کی نظمیں سنائیں تو پھر صاحبزادے نے یہی سوال کیا کہ ٹوٹ بٹوٹ کی کوئی ویڈیو گیم ہے۔ اس کے ٹوائز کیوں نہیں ملتے۔ وغیرہ وغیرہ! دانیال کے ان سوالوں نے مجھے شرمندہ بھی کیا اور مخمصے میں بھی ڈالا۔ کیونکہ ہم نے کبھی بچوں کے ادب کو قابل قدر اور قابل توجہ جانا ہی نہیں۔ ہم تو وہ لوگ ہیں کہ جو بچے کی تربیت کی اہمیت سے ناواقف ہیں۔ تصوراتی کہانیاں اور فکشن کریکٹرز۔ ہر بچے کے بچپن کی ضرورت ہیں۔ ہمارے ہاں ایک خلا موجود ہے اور اس خلا کو امریکی مارول کامک (Marvel Comic)لینجد سٹین لی پُر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بچے سٹین لی کے کرداروں کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ بڑوں نے بھی ان میں کچھ نہ کچھ کرداروں کے نام ضرور سنے ہوں گے۔ یہ سوال ایک الگ کالم کا متقاضی ہے کہ یہ تمام کامک اور مارول کردار امریکی تاریخ و ثقافت کو بیان کرتے ہیں۔ یوں ہمارے بچے غیر محسوس طور پر امریکی کلچر‘ طور طریقوں ان کے سماج میں استعمال ہونے والے Slangسیکھتے رہتے ہیں۔ کیا ہمارے پاس اس خلا کو پر کرنے کیلئے کچھ ہے؟ فی الحال تو ہمارے ہاتھ خالی ہیں۔ اس لیے ہم صرف کڑھ سکتے ہیں اور سوال اٹھا سکتے ہیں۔ سر دست تو ہمیں مارول دیو مالائی کرداروں کے خالق سٹین لیStan leeکا ہی شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس کے شاندار تصوراتی کردار، ان کی کہانیاں، ویڈیو گیمز، ڈرامے، موویز نہ ہوتیں تو نوجوانوں اور بچوں کی imaginative needsکو کیسے پورا کیا جاتا۔ سٹین لی کو اس لیے بیسویں صدی کا ایک شاندار تخلیق کار کہا جا رہا ہے کہ اس کے تخلیق کردہ تصوراتی کرداروں نے پوری دنیا میں بچوں اوربڑوں کے دلوں کو فتح کیا۔ سٹین لی کے بارے میں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے کرداروں کے ذریعے ماڈرن مائتھالوجی کی بنیاد رکھی۔ ایک طرف یونانی دیو مالائی داستانیں جو گرلک مائتھالوجی کہلاتی ہے۔ اس پر انگریزی ادب کے بڑے حصے کی بنیاد ہے اور جدید مائتھالوجی سٹین لی نے اپنے جدید تصوراتی کرداروں کے ذریعے تخلیق کی، اگرچہ اس کے ساتھ پوری ایک ٹیم نے کام کیا۔ لیکن اس ٹیم کا کپتان سٹین لی ہی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے مرنے پر ہالی ووڈ کی فلم انڈسٹری میں سوگ کی کیفیت ہے اس کے کرداروں کو ادا کرنے والے کئی فلمسٹار ایسے ہیں جنہیں صرف سٹین لی کے کرداروں سے شہرت ملی۔ ٹوئٹر پر سبھی اپنے محبوب تخلیق کار کو زبردست انداز میں خراج پیش کر رہے ہیں۔ کسی بھی فنکار، لکھاری یا تخلیق کار کے فن پارے کو جب ہم بطور نقاد دیکھتے اور سراہتے ہیں تو بہت ضروری ہوتا ہے کہ اس تخلیق کار کی ذاتی زندگی میں جھانکیں کیونکہ اس کی اپنی زندگی تخلیق کے اندر جھلکتی ہے۔ سٹین لی1922ء میں رومانیہ سے آ کر امریکہ میں آباد ہونے والے یہودی والدین کے گھر پیدا ہوا۔9برس تک وہ اپنے والدین کا اکلوتا بچہ تھا جو ایک کمرے کے اپارٹمنٹ میں رہتے تھے۔ اکلوتا ہونے کی وجہ سے وہ اپنے وقت زیادہ سے زیادہ کہانیاں اور کتابیں پڑھ کر گزارتا۔ کہانیاں پڑھنے والے بچوں میں تصورات کی دنیا بڑی شدت کے ساتھ آباد ہو جاتی ہے اور تصورات کی یہی وہ دنیا تھی جس کا اظہار سٹین لی نے بطور لکھاری اپنی تحریروں میں کیا۔1940ء کے عشرے سے اس نے لکھنا شروع کیا اور پھر آنے والی ساری دہائیاں اسی کی تھیں۔ آغاز میں اس نے ایک چھوٹا چھاپہ خانہ قائم کیا اور مارول کامک بکس لکھنے لگا۔ کامک بکس وہ اپنی دیومالائی کرداروں کے بارے میں لکھتا۔ آج سکرین کے اس دور میں بھی ان کامک بکس کو پڑھنے کا بچوں میں شوق موجود ہے یہاں تک کہ میرا بیٹا بھی یہ کامک بکس خریدتا ہے۔ جب اسے کوئی دوسری کتابیں لے کر دیں تو اسے کم پسند آتی ہیں۔ ایک تو یہ کامک بکس اتنی باتصویر اور رنگا رنگ ہوتی ہیں کہ بچہ پڑھے بغیر بھی صفحات الٹتا رہتا ہے۔ یوں رفتہ رفتہ کتاب سے جڑ جاتا ہے۔ ویسے حیرت ہوتی ہے کہ ان کرداروں میں آخر کیا جادو ہے جو ننھے بچوں کے ذہن کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے بلکہ نہ صرف بچے بلکہ مارول ایڈونچر کی ہالی وڈ فلموں کیلئے بڑے بڑوں کو کریزی دیکھا ہے۔ یہ بھی سٹین لی کے تصورات کا جادو تھا کہ چھوٹا سا چھاپہ خانہ وقت کے ساتھ ایک ملٹی میڈیا پروڈکشن ایمپائر میں بدل گیا جہاں اس کے تخلیق کردہ کرداروں پر بچوں کی ویڈیو گیمز سے لے کر ہالی وڈ کی فلموں تک تمام کام ہوتا ہے۔شہرت کی ان بلندیوں پر ایک روز سٹین لی یہ کہتا ہے کہ مجھے لگتا ہے میں نے اپنی ساری عمر ایک بے کار کام میں گزار دی۔ میں تصوراتی کرداروں کی دنیا ہی تخلیق کرتا رہا اور لوگ طب اور سائنس جیسے اہم میدانوں میں کام کر کے انسانیت کی فلاح کیلئے خدمات سرانجام دیتے رہے لیکن یہ اس لیجنڈری لکھاری کا اپنا جہاں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نے گریک مائتھالوجی کے مقابل جدید مائتھالوجی کی بنیاد اپنے انہی تصوراتی کرداروں کے ذریعے رکھی۔ جس نے ساری دنیا کے بچوں اور بڑوں کے اس خلاء کو پر کیا جو صرف تصوراتی کرداروں سے بھر سکتا ہے۔