دفتر خارجہ کے ترجمان نے ٹھیک وضاحت کی لیکن قطعی بے ضرورت۔ کہا، یمن کی جنگ میں پاکستان کو دھکیلنے کی کوئی سازش نہیں ہو رہی۔ ترجمان کا گمان ہو گا کہ کہیں کوئی سازش کا نہ سوچ رہا ہو لیکن ایسا تو کوئی بھی نہیں سوچ رہا۔ جو بھی ہے، ہاتھ کنگن کو آرسی کی طرح ہے۔ حالات ہوں یا واقعات، جو بھی ہے سب کے سامنے ہے، خلاصہ یہ ہے کہ بے خطر آتش نمرود میں کود پڑنے کا وقت آ گیا ہے۔ یمن کی صورتحال یہ ہے کہ پانچ برس ہونے کو آئے، اسلامی فوج صنعا سے ہنوز بہت دور ہے۔ اس نے بعض مورچے فتح کئے ہیں، کئی معرکے سر بھی کئے ہیں لیکن چیونٹی کی رفتار سے۔ پانچ برس پہلے شمال کے صوبے صعدہ سے حوثیوں کا لشکر نکلا اور دیکھتے دیکھتے اس تمام علاقے پر قابض ہوگیا جو ماضی قریب میں شمالی یمن کے نام سے الگ ملک تھا۔ یہی نہیں، جو علاقہ جنوبی یمن کے نام سے الگ ملک ہوا کرتا تھا، اس کے بھی کئی صوبے اور ضلعے فتح کرلیے۔ سعودی حکمرانوں کو ’’اوباما‘‘ کا کھیل سمجھ ہی نہیں آ سکا۔ یمن پر حوثیوں کے قبضے کو ایران کی پشت پناہی تھی، دامے بھی درمے بھی اور اسلحے بھی، لیکن یہ ’’برین چائلڈ‘‘ امریکی صدر اوباما کا تھا جسے سعودیوں سے نفرت تھی، شامیوں سے بھی، عراقیوں اور افغانیوں سے بھی۔ جس بھاری بھرکم اسلحے سے حوثیوں نے عدن کی مضبوط قلعہ بندیاں فتح کیں، اسکا ذخیرہ اوباما ہی نے حوثیوں کو دیا۔ دنیا بھر میں لوگ ایک بار تو چونک اٹھے تھے جب اوباما انتظامیہ نے عدن کے شمال میں اسلحہ کے بے پناہ ذخائر جمع کرنے شروع کئے۔ اخبارات میں چھپا کہ اوباما حکومت نے حوثیوں کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ پھر جونہی حوثی مزید آگے بڑھے، گوداموں کی حفاظت پر تعینات امریکی فوجی ہیلی کاپٹروں پر بیٹھ کر فرار ہوگئے۔ حوثیہ نے غلیل کا غلہ چلائے بغیر یہ بے پناہ ذخیرہ قبضہ میں کرلیا۔ اوباما نے کیا سر پرائز دیا، باقی دنیا کو بشمول سعودی عرب بہت دیر سے سمجھ میں آیا۔ ٭٭٭٭٭ عدن فتح ہوا چاہتا تھا۔ مضافاتی محلے اور شہر کے شمالی اور مشرقی علاقے حوثیوں کے قبضے میں جا چکے تھے، زیادہ سے زیادہ، دو تین دن میں عدن نے ڈھیر ہو جانا تھا کہ سعودی عرب کو ہوش آیا۔ اس کی اتحادی فوج نے فوری پیش قدمی کی، سعودی ایئرفورس حرکت میں آئی اور ایک ہفتے کے اندر اندر حوثیی عدن اور اس کے مضافات سے کھدیڑ دیئے گئے۔ پھر تین اطراف سے اتحادی فوج نے یلغار کی اور کئی علاقے واپس لے لئے لیکن شمالی یمن کے اندرون علاقوں میں حوثی دفاع اتنا مضبوط تھا کہ اتحادی سر پٹکتے ہی رہ گئے۔ چار سال کی جوابی یلغار کے بعد حوثیوں سے محض ایک تہائی علاقہ ہی چھینا جا سکا۔ جتنے علاقے پر حوثیوں نے قبضہ کیا تھا، 60 سے 70 فیصد تک بدستور انہی کا قبضہ ہے۔ اس دوران القاعدہ نے عقب سے وار کیا اور صدر ہادی کی حکومت سے مکالا بندرگاہ سمیت جنوبی یمن کا وسیع رقبہ چھین لیا۔ لیکن آنے والے برس میں القاعدہ کو آسانی سے شکست دے دی گئی۔ اس وقت ملک کے 75 فیصد رقبے پر صدر منصور ہادی کی حکومت ہے لیکن اس 75 فیصد کا آدھے سے زیادہ حصہ بنجر اور لق دق صحرائوں پر مشتمل ہے۔ گنجان آباد علاقہ شمالی یمن کا ہے جس کا بڑا حصہ ہنوز آزادی کا منتظر ہے۔ سعودی اتحاد نے جو اہم معرکے سر کئے ان میں عدن کو محفوظ بنانے کے علاوہ المو، خوخا کی بندر گاہوں پر قبضہ بحیرہ احمر کے جزیروں کو اپنے کنٹرول میں لینا او رشمالی یمن کی واحد بڑی بندرگاہ الحدیدہ کا محاصرہ کرنا ہے۔ کئی ماہ پہلے اتحادی فوج خوخا سے شمال کو آگے بڑھی اور برق رفتاری سے الحدیدہ پہنچ گئی۔ اردگرد کے علاقوں کے علاوہ شہر کے بعض محلوں پر بھی قابض ہو گئی لیکن پھر شہر کے اندر سے حوثیوں نے غیر متوقع حد تک شدید مزاحمت کی۔ ایک معرکے میں چودہ سوا اتحادی فوجی ہلاک یا زخمی کردیئے۔ تب سے اتحادی فوج کی پیش قدمی رکی ہوئی ہے۔ وہ ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکی۔ اس دوران امریکہ اور اقوام متحدہ کی کوششوں سے جنگ بندی کا معاہدہ بھی ہوگیا۔ یہ معاہدہ صرف زمینی پیش قدمی کی روک تھام کر رہا ہے ورنہ دونوں طرف سے بمباریوں، گولہ باریوں اورفائرنگ کا سلسلہ تو کبھی تھما ہی نہیں۔ ٭٭٭٭٭ یمن کی آزادی کے لیے سعودی عرب نے پہلے عرب فوج بنائی، پھر وسیع تر اسلامی فوج جس میں درجنوں مسلمان ممالک شامل بتائے گئے لیکن عملاً کوئی بھی نیا ملک اس میں شامل نہیں ہوا۔ امارات، مصر، سوڈان پر مشتمل عرب فوج ہی کو اسلامی فوج کا نام دے دیا گیا۔ قطر اس میں شامل تھا لیکن سعودی قطر سرد جنگ کے بعد وہ اس سے الگ ہوگیا۔ اس اتحاد کو ترکی سے مدد کی بڑی توقع تھی اور وہ مل بھی جاتی لیکن قطر والے جھگڑے نے قریب آتے ترکی کو سعودی عرب سے پھر دور کردیا۔ انڈونیشیا، ملائیشیا تعاون سے صاف انکار کرچکے، باقی ملک تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔ اب ساری امید پاکستان سے ہے۔ سعودی پاک تعاون بلندی کو چھو رہا ہے۔ اشارہ قرض کی طرف نہیں، وہ تو یوں بھی مل ہی جاتی، تعاون اس سے آگے کی شے ہے۔ سعودی سرمایہ کاری کثیر المعانی ہے۔ سی پیک میں امریکہ کو بھی دخیل بنائے جانے کی اطلاع ہے اور یہ دائرہ نما تکون اب سہ ملکی ہو گئی ہے۔ امریکہ، سعودیہ اور پاکستان۔ امارات کی حیثیت شامل باجے سے زیادہ نہیں۔ اس کے چند درجن فوجی یمن کی جنگ میں بطور علامت حصہ لے رہے ہیں البتہ اس کی دولت قدرے اہم ہے۔ ہمارے لیے تو اور بھی۔ ٭٭٭٭٭ سفارتی حلقے پر امید ہیں کہ یمن کا معاملہ اب جلد فیصلہ کن مرحلے کی طرف بڑھے گا۔ مسلمان ممالک میں یہ رائے ہے کہ ایران نے ساتویں محلے جا کر سعودی عرب سے چھیڑ چھاڑ کی اس کی پشت میں خنجر گھونپا اور اب وہ اس کا خمیازہ بھگتے گا لیکن یہاں یہ سوال بھی موجود ہے کہ پاکستان کی داخلی سلامتی کو کوئی چیلنج درپیش نہیں ہو جائے گا۔ یمن کا قضیہ ملکی سیاست کا دھارا پہلے ہی بدل چکا ہے۔ سی پیک کا آغاز کرنے پر نوازشریف کی سیاسی قسمت پر گویا کچی مہر لگی تھی، یمن پر، پارلیمنٹ کی توہین آمیز قرارداد نے اسے پکی مہر کردیا۔ آج بھی مولانا فضل الرحمن کا بیان چھپا ہے کہ نواز، زرداری کو سی پیک کی سزا مل رہی ہے۔ سعودی درخواست کے سب سے بڑے مخالف پی ٹی آئی والے تھے، بہت پر جوش، بہت غضب ناک، کسی بھی قیمت پر سعودیہ کا ساتھ نہ دینے کے بلند آہنگ، جارحانہ اعلانات کی گونج ابھی فضا میں باقی ہے اور اب اسے کیا کہیے کہ آج اس تعاون کا علم انہی کے ہاتھ میں ہے۔ بہت اچھی بات ہے کہ پاسبان مل گئے جدے کو بنی گالے سے۔