معزز قارئین!۔ آج پاکستان اور بیرونِ پاکستان ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ تحریک پاکستان کے نامور مجاہد ڈاکٹر مجید نظامی کے دوست اور عقیدت مند ، اُن کی پانچویں برسی منا رہے ہیں ۔ جنابِ مجید نظامی 1928ء کو سانگلہ ہل میں پیدا ہُوئے تھے اور ایک بھرپور زندگی گزار کر 26 جولائی 2014ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔ موصوف جب تک ، اِس دارِ فانی میں رہے ، علامہ اقبالؒ ، قائداعظمؒ اور مادرِ ملّت ؒ کے افکار و نظریات کے مطابق پاکستان کو ڈھالنے میں مصروف جدوجہد رہے۔ مَیں 1960ء میں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں بی۔اے ۔ فائنل کا طالبعلم تھا جب، مَیں نے مسلک ِ صحافت اختیار کِیا۔ فروری 1964ء میں جنابِ مجید نظامی نے مجھے ، سرگودھا میں ’’ نوائے وقت ‘‘ کا نامہ نگار مقرر کِیا۔ دسمبر 1964ء میں فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان نے 2 جنوری 1965ء کو صدارتی انتخاب کرانے کا اعلان کِیا۔ صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں قائداعظمؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ کونسل مسلم لیگ اور پھر متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں۔ جنابِ مجید نظامی نے اُنہیں ’’ مادرِ ملّت‘‘ کاخطاب دِیاتھا ۔ تحریکِ پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن میرے والد صاحب رانا فضل محمد چوہان کی وساطت سے میرے ضلع سرگودھا میں آباد تحریکِ پاکستان کے کئی (گولڈ میڈلسٹ) کارکنان سے میرے تعلقات قائم ہوگئے تھے ۔ اُن میں مادرِ ملّتؒ کی انتخابی مہم کے انچارج قاضی مرید احمد کے علاوہ ، انگریزی روزنامہ "The Nation" کے ایڈیٹر سیّد سلیم بخاری کے والدِ مرحوم (ریٹائرڈ ایس۔ ایس۔ پی)سیّد مختار حسین بخاری اور ماشاء اللہ بقید ِ حیات 95 سالہ چاچا غلام نبی بختاوری بھی شامل تھے / ہیں۔ چاچا غلام نبی بختاوری کے نامور فرزند ’’ پاکستان کلچرل فورم ‘‘اسلام آبادکے چیئرمین برادرِ عزیز ظفر بختاوری پاکستان کی غیر سرکاری سفارتکار کی حیثیت سے 50 سے زیادہ ملکوں کے "State Guest" کی حیثیت سے پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں ۔ مادرِ ملّت کی انتخابی مہم کے آخری دِنوں ( دسمبر 1964ء میں ) قاضی مرید احمد مجھے اور میرے ایک سرگودھوی (مرحوم) دوست تاج اُلدّین حقیقت ؔامرتسری کو کونسل مسلم لیگ کے مندوبین کی حیثیت سے لاہور لے آئے ۔ مادرِ ملّت ؒکونسل مسلم لیگ کے ایک لیڈر میاں منظر ؔبشیر کے گھر ’’ المنظر‘‘ میں قیام پذیر تھے ۔ ہم دونوں کی مادرِ ملّتؒ سے ملاقات کرائی گئی تو، اُس کے ساتھ ہی تحریک پاکستان کے دو کارکنوں ، لاہور کے مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری اور پاکپتن کے میاں محمد اکرم نے بھی مادرِ ملّتؒ سے ملاقات کی ، پھر میری اُن دونوں سے دوستی ہوگئی اور میاں شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کے بیٹے ( موجودہ چیئرمین پیمرا) پروفیسر محمد سلیم بیگ اور میاں محمد اکرم کے بیٹے (پنجابی اور اردو کے شاعر اور ’’ نوائے وقت ‘‘ کے سینئر ادارتی رُکن) سعید آسیؔ سے بھی ۔ نومبر 1969ء میں مَیں لاہور شفٹ ہوگیا۔ یکم نومبر 1971ء کو مَیں نے لاہور سے اپنا ہفت روزہ ’’ پنجاب‘‘ اور 11 جولائی 1973ء کو روزنامہ ’’ سیاست ‘‘ جاری کِیا۔ مئی 1991ء میں مَیں نے اپنا کالم ’’ سیاست نامہ‘‘ ’’ نوائے وقت‘‘ میں شروع کِیا ، جو ڈیڑھ سال تک جاری رہا ۔ ستمبر 1991ء میں جب ، مجھے صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُن کے ساتھ خانہ کعبہ میں داخل ہونے کی سعادت حاصل ہُوئی تو، اُن دِنوں برادرِ عزیز سیّد ارشاد احمد عارف ’’نوائے وقت ‘‘ کے ڈپٹی ایڈیٹر تھے ۔ معززقارئین!۔ مَیں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ’’ میرے خانہ کعبہ کے اندر داخل ہونے سے یقینا کچھ نہ کچھ ثواب تو ، جنابِ مجید نظامی اور برادرِ عزیز ارشاد احمد عارف کو ضرور ملا ہوگا؟‘‘۔ ’’نوائے وقت‘‘ میں ’’ سیاست نامہ ‘‘ کا دوسرا دَور جولائی 1998ء سے جون 1999ء تک اور تیسرا دَور اگست 2012ء میں شروع اور جو جنابِ مجید نظامی کی وفات کے بعد بھی فروری 2017ء تک جاری رہا ۔ جب مَیں ’’ نوائے وقت‘‘ میں کالم نہیں لکھتا تھا تو، سیّد سلیم بخاری اور تحریکِ پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن ڈاکٹر سیّد علی محمد شاہ کے پوتے ، سیّد شاہد رشید کی وساطت سے میرا جنابِ مجید نظامی سے رابطہ رہا ، اسلام آباد اور لاہور میں کئی تقاریب میں ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں ۔ اِس دَوران مَیں نے جنابِ مجید نظامی کی قومی خدمات اور شخصیت پر کئی نظمیں لکھیں اور اُس کے بعد بھی ۔ 3 اپریل 2014ء کو جنابِ مجید نظامی کی اجازت سے اور ’’دھوم دھڑکے ‘‘ سے اُن کی 82 ویں سالگرہ منائی گئی تو، مَیں نے بھی نظم لکھی جس کے دو بند پیش خدمت ہیں … سجائے بَیٹھے ہیں محفل خلُوص کی احباب! کِھلے ہیں رنگ برنگے محبّتوں کے گُلاب! بنایا قادرِ مُطلق نے جِس کو عالی جناب! چمک رہا ہے صحافت کا مہِر عالم تاب! …O… خُوشا! مجید نظامی کی برکتیں ہر سُو! ہے فکرِ قائدؒ و اقبالؒ کی نگر نگر خُوشبُو! اثر دُعا ہے کہ ہو ارضِِ پاک بھی شاداب! چمک رہا ہے صحافت کا مہرِ عالم تاب! معزز قارئین !۔یکم نومبر 2012ء کو جب، پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے جنابِ مجید نظامی کو ’’ ڈاکٹریٹ‘‘ کی اعزازی ڈگری پیش کی گئی تو، مَیں نے اُنہیں پنجابی زبان میں ’’ہدیۂ تبریک ‘‘ پیش کِیا۔ ایک بند پیش خدمت ہے … شاعرِ مشرقؒ دے سُفنے نُوں ٗ خالِق آپ ٗ سجایا اے! سُوہنے قائدِاعظمؒ ٗ پاکستان دا بُوٹا ٗ لایا اے! نظریۂ پاکستان ٗ دا وارث ساڈے ویہڑے ٗ آیا اے! بابا مجیدؔنظامی ‘ ہوراں تے ٗ ربّ ٗ رسولؐ دا سایا اے! معزز قارئین!۔ 20 فروری 2014ء کو ’’ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان‘‘ میں چھٹی سہ روزہ ’’ نظریۂ پاکستان کانفرنس‘‘ کے لئے ، مَیں نے سیّد شاہد رشید کی فرمائش پر ملّی ترانہ لکھا ، جسے ’’ نظریاتی سمر سکول کے میوزک ٹیچر جناب آصف مجید نے "Compose" کِیا اور جب اُسے "The Causeway School"کے طلبہ و طالبات نے مل کر گایاتو، ہال تالیوں سے گونج اُٹھا ۔ اِس پر جنابِ مجید نظامی نے مجھے ’’ شاعرِ نظریۂ پاکستان‘‘ کا خطاب دِیا۔ ملّی ترانہ کے دو شعر یوں ہیں … پیارا پاکستان ہمارا ، پیارے پاکستان کی خیر! پاکستان میں رہنے والے ، ہر مخلص انسان کی خیر! …O… خِطّہ پنجاب سلامت ، خیبر پختونخوا ، آباد! قائم رہے ہمیشہ ، میرا سِندھ ، بلوچستان کی خیر! معزز قارئین!۔ ’’ نوائے وقت‘‘ میں میری کالم نویسی کے تیسرے دَور میں مجھے یہ فائدہ ہُوا کہ ’’ مَیں جب بھی مَیں اسلام آباد سے لاہور آتا تو مجھے ’’ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان‘‘ میں ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ اور ’’ تحریک ِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ کی تقاریب کے آغاز یا اختتام پر چیئرمین ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ جنابِ مجید نظامی اپنے کمرے کے بجائے سیکرٹری ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ سیّد شاہد رشید کے کمرے میں رونق افروز ہوتے تھے ۔وہاں مجھے تحریک ِ پاکستان کے کئی نامور (گولڈ میڈلسٹ) بزرگ کارکنان ، جناب محمد رفیق تارڑ ، کرنل (ر) ڈاکٹر جمشید احمد خان ترین (مرحوم) ،چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ میاں محبوب احمد ، ماشاء اللہ حیات ڈاکٹر پروفیسر شیخ رفیق احمد ، میاں فاروق الطاف ، چودھری ظفر اللہ خان اور گلاسگو کے ’’ بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی سمیت کئی دوسری شخصیات سے ملاقاتیں ہوتی رہیں جن سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ علاّمہ اقبالؒ کے روحانی مُرشد مولانا روم ؒ نے فرمایا تھا کہ … یک زمانے صُحبتے با اولیائ! خوشتر از صد سالہ طاعت بے ریا! یعنی۔ ’’ مُرشدِ کامل کی صحبت میں ایک گھڑی گزارنا سو سال کی بے رعایا عبادت سے بڑھ کر ہے‘‘۔ معزز قارئین!۔ مَیں نے جنابِ مجید نظامی کے انتقال پر جو نظم لکھی تھی ، اُس کا صِرف ایک شعر عرض کرتا ہُوں… رواں ہے ، چشمۂ نُور کی صُورت، ہر سُو اُن کی ذاتِ گرامی! جب تک پاکستان ہے زندہ، زندہ رہیں گے مجید نظامی! دراصل مجھے اپنی ایک ایسی نظم کے دو شعر پیش کرنا ہیں ، جو مَیں نے جنابِ مجید نظامی کی زندگی میں لکھی / کہی تھی عرض کِیا ہے … خوابِ شاعرِ مشرقؒ ، کی تعبیر کا ، پھر اَرمان ، کھپّے! قائدِاعظمؒ کے اَفکار سے ، رَوشن پاکستان ، کھپّے! …O… نصف صدی کی ، اَدارتِ عُظمیٰ ، لاثانی ، لا فانی ، اثرؔ! بابا مجید نظامی کا سا ، جذبۂ اِیمان ، کھپّے!